پوزیشن اور اپوزیشن

 25جولائی2018ء کوہونیوالے عام انتخابات نے ملک میں سیاسی تنازعات کابازار گرم اورنظریاتی تضادات کوبے نقاب کردیاہے۔سیاسی قیادت کے منافقانہ رویوں اوران کے درمیان مفادات کی دوڑ نے'' اصولی سیاست'' کودفن جبکہ '' وصولی سیاست''کوزندہ کردیا۔پاکستا ن میں نظریاتی سیاست قصہ پارینہ بن گئی ہے ،اب سیاسی پارٹیاں نظریہ ضرورت کی محتاج ہیں ۔ الیکشن میں کامیاب ہونیوالی کوئی سیاسی جماعت وفاق اورپنجاب میں تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں،کپتان عمران خان وزیراعظم منتخب نہیں ہوئے مگروہ ابھی سے کسی مصلحت کے تحت یا بلیک میل ہو کرمختلف پارٹیوں کے جائزناجائز مطالبات مان رہے ہیں۔اقتدار کی محبت کے اسیربھی راتوں رات حریف سے حلیف بن گئے ہیں ۔تبدیلی کاروٹ بھی تبدیل ہوگیا ،اقتدار نے پی ٹی آئی اورمتحدہ کو''متحد''کردیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت کاجشن منانے جبکہ بینظیر بھٹوشہید اوربیگم نصرت بھٹوکی شخصیت پرگھناؤنے بہتان لگانیوالی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ چیئرمین بلاول بھٹو کی پیپلزپارٹی نے رومانس شروع کردیا ہے،اس قسم کی سیاست اورمنافقت میں فرق کرنادشوارہوگیاہے۔کرپشن کی بنیادپرہارنیوالی پارٹیوں کے اتحاد کاحصہ ہونا جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق کی صداقت اورشرافت پرایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔سراج الحق کی صحبت ان کی سیاست اورجماعت اسلامی کی شہرت کیلئے خطرہ بن گئی ہے۔متحدہ اپوزیشن میں شریک شخصیات اورپارٹیاں کپتان عمران خان کوپراعتماداورپرسکون انداز سے کام نہیں کرنے دیں گی۔ان حالات میں تبدیلی اورخوشحالی کاخواب شرمندہ تعبیر ہوتانظرنہیں آرہا ۔ پاکستان کوپچھلی کئی دہائیوں میں آبی ذخائر کی اشد ضرورت ہے مگرجو سیاستدان نیاڈیم تعمیر کرنے کیلئے متحدنہیں ہوتے انہوں نے عوام کو''ڈیم فول'' بنانے کیلئے اتحادکرلیاہے ، جہاں یہ اتحادی آپس میں سرکاری عہدوں کی بندربانٹ کر رہے ہیں ۔اگرمٹھی بھر''اتحادی'' سیاست کی آڑ میں ریاست اورنومنتخب حکومت کیلئے ''فسادی ''بن جائیں تواس سے ہرسطح پر'' تعمیر'' کاشٹرڈاؤن اور'' ترقی ''کاپہیہ جام ہوجاتا ہے۔عمران خان کوسادہ اکثریت نہیں ملی اس کے باوجودالیکشن میں ایک دوسرے کے مقابلے میں ہارنیوالے سیاستدانوں کی طرف سے دھاندلی کے الزامات کا طوفان اور اسٹیبشلمنٹ پر جانبداری کابہتان ناقابل فہم ہے۔اگر25جولائی 2018ء کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہوتی تومتحدہ اپوزیشن کے قائدین دھونس جمانے کی پوزیشن میں نہ ہوتے ۔ عمران خان کوعوا م نے نظام کی تبدیلی کیلئے مینڈیٹ دیاہے ،کپتان اوران کی ٹیم کو اپنے تجربات کیلئے بھرپوروقت اورماحول دیاجائے جبکہ اپوزیشن اپنی بہترپوزیشن کیلئے ایشوزکی سیاست کرے ۔

پاکستان کوایک ایماندار، بااختیار ،باوقاراورباکرداروزیراعظم کی ضرورت ہے جوملک وقوم کانجات دہندہ بنے ، عمران خان کے مدمقابل کرکٹ کھیلنے والے انگریز اوردشمن ملک کے ہندوکھلاڑی بھی انہیں ایک بہترین کپتان اورباکردارانسان قراردیتے ہیں،کپتان کے پاس ویژن اورباصلاحیت ٹیم بھی ہے مگر عمران خان کے میدان میں اترنے سے پہلے ان کی ٹانگ کھینچنے والے کوئی کسر نہیں چھوڑرہے ۔کپتان کیخلاف ریحام خان کی کتاب اوراتحادی قیادت کی بلیم گیم بیک فائرکرگئی مگراب دھاندلی کاشوشہ چھوڑدیاگیا ہے۔متحدہ اپوزیشن کے قائدین پچھلے کئی برسوں سے عمران خان کویہودی ایجنٹ قراردے رہے ہیں،کپتان کیخلاف بہت کچھ کہاگیا مگرعوام نے متحدہ اپوزیشن کی چارج شیٹ مستردکرتے ہوئے عمران خان کی صداقت اورقیادت پراپنے اعتماد کی مہرثبت کردی ہے۔شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیرکیلئے عمران خان پر نوٹ نچھاورکرنیوالے پاکستانیوں نے نیا پاکستان بنانے کیلئے اپنے قومی ہیروپرووٹ بھی نچھاورکردیے ۔ دیکھا جائے تومتحدہ اپوزیشن میں شریک سیاسی قیادت بالخصوص مولانافضل الرحمن کئی دہائیوں سے کسی نہ کسی طرح مسند اقتدارپربراجمان رہے ہیں لہٰذاء اب باری کپتان عمران خان کاحق ہے۔شکست خوردہ سیاستدان عوام نہیں اپنی محرومیوں کارونارورہے ہیں کیونکہ ان کی شکست نے انہیں سرکاری مراعات سے محروم کردیا ہے ۔80کی دہائی میں میاں نوازشریف کومنتخب ہوئے بغیر پنجاب کاوزیرخزانہ مقرر کرکے درحقیقت اقتدارپلیٹ میں رکھ کرپیش کیاگیا تھا اورپھر1985ء کے غیرجماعتی الیکشن میں انہیں تخت لاہورپربٹھانے کیلئے راستہ ہموارکیا گیا تھا۔کپتان عمران خان تو22سال کی جہدمسلسل اوراس دوران کئی ناکامیوں کے بعد اس مقام پرپہنچا ہے لیکن متحدہ اپوزیشن عمران خان کوبرداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔دیکھاجائے توالیکشن سے پہلے بھی متحدہ اپوزیشن والے عمران خان کیخلاف متحد تھے اور انتخابات کے بعد بھی عمران خان کیخلاف متحد ہیں،یہ صورتحال ریاست ،سیاست ،جمہوریت اورمعیشت کیلئے نیک شگون نہیں۔ہارنے والی پارٹیوں کو احتجاجی تحریک کی منصوبہ بندی کرنے کی بجائے اپنی اپنی ناکامیوں کے اسباب پرغورکرنا چاہئے،اگرانہوں نے ڈیلیورکیاہوتا توووٹرانہیں مستردنہ کرتا ،اگرعمران خان نے بھی ڈیلیورنہ کیا تویقینالوگ ا نہیں بھی دوبارہ منتخب نہیں کریں گے۔

عمران خان نے مرکز اورصوبوں کیلئے اپنے ٹیم ممبر کافیصلہ کرلیا ہے اورعنقریب ان ٹیم ممبرز کااعلان کردیا جائے گا۔میں سمجھتاہوں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماء سینیٹر چودھری محمدسرورایک گوہرنایاب ہیں۔چودھری محمدسرور کا مسلم لیگ (ن)کے ووٹ توڑ کر سینیٹر منتخب ہوناان کی شخصیت اور سیاسی بصیرت کانتیجہ ہے،وہ آج بھی مسلم لیگ (ن) کے اندرکافی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔متعدد آزادارکان کوپی ٹی آئی سے وابستہ کرنے کیلئے بھی جہانگیرخان ترین کے ساتھ ساتھ چودھری محمدسرور اورعبدالعلیم خان نے بھی اپنابھرپورکرداراداکیا ۔چودھری محمدسرورپاکستان کی قومی سیاست کاچلتاپھرتاانسائیکلوپیڈیا ہیں،اس بیش قیمت ہیرے کوبرطا نوی ریاستی نظام اورسیاسی روایات نے خوب تراشا ہے لہٰذاء وفاق میں سینیٹر چودھری محمدسرورسے ان کی خدادادصلاحیتوں کے مطابق کام لیا جائے ۔سینیٹر چودھری محمدسرورکو وزیرخارجہ یاوزیرتجارت اوراوورسیزکی وزارت کاقلمدان دیاجائے تووہ کپتان عمران خان کے ویژن کی روشنی میں بہت اعلیٰ کارکردگی کامظاہرہ کریں گے ،انہوں نے گورنر پنجاب کی حیثیت سے برطانیہ اوریورپ کے ساتھ تاریخی تجارتی معاہدہ کرایا تھا ۔ برطانیہ عالمی سیاست کامرکز ہے اورسینیٹر چودھری محمدسرور نے زندگی کی کئی دہاں برطانیہ میں گزاری ہیں ،انہیں ریاست برطانیہ کی سیاست معیشت اورمعاشرت کوبخوبی سمجھ ہے ۔سینیٹر چودھری محمدسرور دنیا کی مقتدرقوتوں اورمختلف حکمران شخصیات کے مزاج،نفسیات ،ان کی طاقت اورکمزوری سے آگاہ ہیں وہ ایک اچھے وزیرخارجہ یاوزیرتجارت کے طورپرڈیلیورکرسکتے ہیں،دوسری طرف ان کااوورسیزپاکستانیوں سے براہ راست رابطہ اورواسطہ ہے،وہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کاپائیدارحل تلاش اورسدباب کرسکتے ہیں۔

تخت لاہور پرمسلم لیگ (ن) کاراج پاٹ ختم یامزید کمزورکرنے کیلئے پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ پنجاب کاتعلق شہر لاہور سے ہوناضروری ہے،کپتان اسلام آبادمیں ہوں گے لہٰذاء انہیں شہرلاہورسے کسی کوشریف خاندان کا''سیاسی شریک'' بناناہوگا ۔اپنے سیاسی دشمن کاقدچھوٹاکرنے کیلئے لاہور سے پی ٹی آئی کے کسی باصلاحیت وبااعتماد ممبر پنجاب اسمبلی کوسیاسی وانتظامی طورپرقدآوربنایاجائے اس طرح لاہورمیں پی ٹی آئی کاسیاسی اثرورسوخ مزید بڑھ جائے گااوراس بڑے مقصد کیلئے پرجوش اورپراعتماد میاں اسلم اقبال پر آنکھیں بندکرکے اعتمادکیاجاسکتا ہے،وہ لاہورمیں پی ٹی آئی کابے داغ چہرہ ہیں۔میاں اسلم اقبال نے خندہ پیشانی ،انکساری،ایمانداری،اخلاص اورانتھک خدمت نے اہل لاہورکواپناگرویدہ بنایا،اگرکپتان نے انہیں اہل پنجاب کی خدمت کیلئے منتخب کیا تووہ یقینا اپنی قیادت اورقوم کومایوس نہیں کریں گے ۔ مسلم لیگ (ن) والے کئی دہائیوں سے لاہورکواپناقلعہ قراردیتے ہیں، میاں اسلم اقبال تدبروتدبیرسے اس قلعہ کوتسخیرکرکے اس پر پی ٹی آئی کا پرچم لہراسکتے ہیں۔پارٹی کے اندراورباہرمیاں اسلم اقبال کے حاسدین اورناقدین کی تعدادنہ ہونے کے برابر ہے۔میاں اسلم اقبال بنیادی طورپرایک عزت دارانسان ہیں اورانہیں دوسروں کوعزت دینے اورآسانیاں تقسیم کرنے کاہنرآتا ہے۔باوفااورباصفامیاں اسلم اقبال سلجھے اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں،ان کی مسلسل تیسری بارکامیابی خدمت خلق کانتیجہ ہے۔

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126374 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.