یہ نیپال میں میری دوسری صبح تھی، نماز اپنے کمرے میں ہی
پڑھی اور حسب معمول واکنگ کے لئے باہر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔باہر ہلکی
ہلکی بارش ہو رہی تھی اور باقی سب ساتھی اپنے کمروں میں سو رہے تھے۔میں صبح
نماز کے بعد سونا بھی چاہوں تو نہیں سو سکتا، میں سمجھتا ہوں صبح کا وقت
اللہ کی خاص عطا ہے اور جو لوگ اس وقت کو نیند جیسے فضول کام میں ضائع کر
دیتے ہیں وہ اللہ کی ناشکری کرتے ہیں۔ میرے پاس واکنگ کے لیے دو آپشن تھے،
میں اپنے ہوٹل کی مشرقی سمت نیچے گہری وادی میں چلا جا تا یا مغرب کی سمت
آبادی کا قصد کرتا۔ نیچے اکیلے وادی میں جانا کسی خطرے سے کم نہیں تھا اور
نہ ابھی اس علاقے سے اتنی واقفیت تھی لہذا میں نے آبادی کی طرف جانے کا
فیصلہ کر لیا۔ یہ پہلاڑی علاقہ ہے لہذا آبادی بھی اسی حساب سے ہے، کہیں
پہاڑ کی ڈھلوان پر چند مکان بنے ہیں، کہیں گہری وادیوں سے دھواں اٹھتا نظر
آ جاتا ہے اور کہیں پہاڑ کی چوٹی پر کوئی گھر دکھائی دے جاتا ہے۔
میں آبادی کی طرف نکلا تھا لہذا میں یہاں کی عوامی سرگرمیوں کا جائزہ لے
سکتا تھا۔ میں نے دیکھا لوگ صبح اٹھتے ہی اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے
ہیں، یہ لوگ ہاتھ منہ دھونا بھی گوارا نہیں کرتے، بدن میلے اور کپڑو ں سے
بدبو کے بھبوکے اٹھ رہے تھے۔ گلیوں میں صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام نہیں
تھا، گلیاں کوڑا کرکٹ سے اٹی پڑی تھیں اوربارش اس گندگی کو سارے محلے میں
پھیلا دیتی تھی۔ گلیوں میں ڈھور ڈنگر باندھنے کا بھی رواج ہے۔ خواتین
دروازوں پر بیٹھ کر ہر آنے جانے والے کا منہ تکتی ہیں اور نوجوان منہ میں
پان دبائے چوکوں چوراہوں میں کھڑے موبائل پر مصروف نظر آتے ہیں۔ یہاں اکثر
دکانیں خواتین چلاتی ہیں، میں نے دیکھا خواتین صبح سویرے اٹھ کر دکانوں کی
صفائی اور گاہکوں کے لیے سامان سجانے میں مصروف ہو جاتی ہیں۔
آبادی میں جگہ جگہ مندر بنے ہیں، جس طرح ہمارے ہر محلے میں کوئی مسجد
ضرورہوتی ہے اسی طرح یہاں ہر گلی محلے میں کوئی مندر موجودہوتا ہے۔ لوگ
مندروں کے ارد گرد بیٹھتے ہیں، ان پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور ان کی پوجا
کرتے ہیں۔ کہیں کسی مندر میں دیا جل رہا ہے، لوگ ان دیوں میں تیل ڈال جاتے
ہیں۔ گھروں محلوں کی فضا بہت عجیب سی محسوس ہوتی ہے، فضا میں عجیب سی گھٹن
ہے اور ہر طرف گناہوں کی نحوست چھائی ہوئی ہے۔ظاہر ہے جن بستیوں میں شرک کی
روایت رچی بسی ہو وہاں چین، سکون اور امن کی فضا کیونکر محسو س ہو گی۔یہ
میرا پہلا دن تھا لہذا میں نے ذیادہ دور جانا مناسب نہ سمجھا اور آدھا
گھنٹہ واک کے بعد واپس ہوٹل آگیا۔
لوگ لباس اور صحت و صفائی کی طر ف توجہ نہیں دیتے، گلیاں کیچڑ سے لبریز او
ر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، نیپال میں جا کر پاکستان کی سڑکیں بہت اچھی
لگنے لگی، میں نے کہیں پڑھا تھا کہ پاکستانی سڑکوں کا شمار دنیا کی بہترین
شاہراؤں میں ہوتا ہے اور نیپال آکر اس بات پر یقین آگیا۔ کھٹمنڈو شہر جو
نیپال کا دارالحکومت ہے اس کی حالت بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہے، سڑکیں او ر
بازارٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، گلیوں میں پی سی نام کی کوئی چیز نہیں، مین
بازاروں اور گلی محلوں میں اب سیورج ڈالا جا رہا ہے اور بازاروں کی حالت
بھی قابل رحم ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ملک صدیوں بادشاہت کے زیر اثر
رہااور اب 2008 میں یہاں جمہوریت قائم ہوئی ہے، اس لیئے جو کام پچھلی صدی
میں ہو جانے چاہئے تھے وہ اب ہو رہے ہیں۔
کھٹمنڈو شہر کو اللہ نے قدرتی حسن سے نوازا ہے لیکن یہاں کی حکومت اور لوگ
اس حسن کو برقرار نہیں رکھ پائی۔ پورا شہر ایک پیالے کی طرح وادی میں بسا
ہے اور اطراف میں بلند و بالا پہاڑ ہیں، چاروں طرف اونچے اونچے پہاڑ ہیں
اور ان کے درمیان گہری وادی میں پورا شہر آباد ہے۔ ماضی میں یہ شہر ہندو
مت اور بد مت کا گڑھ سمجھا جاتا تھالیکن اب اس کی شان مانند پڑ چکی ہے۔ میں
کھٹمنڈو شہر میں بھی گھوما اور دھلی خیل اور مضافا ت کے بازاروں میں بھی
جانا ہوا، میں نے دیکھا اکثر جگہوں پر خواتین دکانیں چلاتی ہیں، تقریبا
ساٹھ ستر فیصد دکانوں پر خواتین موجود ہیں، اب ان کے مرد کہاں ہیں یہ مجھے
معلوم نہیں۔ یہ مغربی تہذیب کے وہ اثرات ہیں جو نیپال جیسے تیسری دنیا کے
ملک کوبھی اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔
لوگوں نے پہا ڑی ڈھلوانوں اور اپنے گھروں کے باہر جہاں کہیں تھوڑی بہت جگہ
دستیا ب ہے مکئی لگارکھی ہے، مکئی کے یہ بھٹے کھانے اور آٹا بنا نے کے لیے
استعمال ہوتے ہیں۔ لوگوں نے پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر بھی جگہ جگہ مکئی لگا
رکھی ہے۔ بگھت پور اور کھٹمنڈو کے مضافات میں چاول کی فصل بھی کاشت کی گئی
ہے لیکن یہ بہت چھوٹے پیمانے پر ہے۔ ہماے پنجاب کی طرح یہاں ہموار زمین
نہیں بلکہ اونچی نیچی جگہ ہے، دو دو تین تین مرلے جگہ ہموار کر کے اسی میں
چاول کی فصل کاشت کی گئی ہے۔ پانی کے لیے بارش کا انتظام ہے اور اکثر
روزانہ بارش ہو ہی جاتی ہے۔
کھانوں میں ذائقہ نہ ہونے کے برابر ہے، ہم جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے یہ
بہت مشہور اور مہنگا ہوٹل تھا لیکن کھانوں میں کوئی ذائقہ نہیں تھا، ہم بس
پیٹ بھرنے کے لیے کھانا کھاتے تھے۔سبزی بڑی بڑی کاٹ کر پکائی جاتی ہے،
گوبھی اور پالک نیم پکی حالت میں کھایا جاتا ہے اور سفید چاول بھی آدھے
کچے آدھے پکے ہمارے سامنے رکھ دیے جاتے تھے۔میٹھی ڈش کے لیے کچے کیلے کو
میٹھے بیسن میں تل کر اسے شہد کے ساتھ کھایا جاتا تھا، صبح شام میٹھا دہی
بھی ہمیں سویٹ ڈش کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔
گلیاں بازار ایسے ہیں جیسے ہمارے سنٹرل پنجاب کے کسی شہر کے ہوتے ہیں،
ٹرانسپورٹ کا سسٹم بھی بہت ناقص تھا، چھوٹی چھوٹی بسوں میں ضرورت سے زائد
سواریوں کو بٹھا لیا جاتا ہے ا ور خواتین کو مردوں کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا
ہے۔ اونچی آواز میں میوزک معمول کی بات ہے۔ انڈین فلم انڈسٹری اور انڈین
گانے یہاں بھی شوق سے سنے اور دیکھے جاتے ہیں۔ خواتین سڑک کناروں اورفٹ
پاتھ پر سبزی کے ٹھیے لگائی بیٹھی ہوتی ہیں۔ دکاندار ہمارے پٹھان بھائیوں
کی طرح پانچ سو والی چیز کا ریٹ دو ہزار بتاتے ہیں اور پھر پانچ سو پر راضی
ہو جاتے ہیں۔ گلیوں اور بازاروں میں بجلی کے تاروں کا ویسا ہی جال دیکھنے
میں آیا جو ہمارے ہاں ہوتا ہے۔
نیپال کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ موروثی بادشاہت نے اسے بہت پسماندہ رکھا
لیکن اب آہستہ آہستہ یہاں جمہوریت پنپ رہی ہے اور سیاسی جماعتیں پروان
چڑھ رہی ہیں۔ مستقل قریب میں اگر یہاں ڈکٹیٹر شپ کی کوئی صورت نہیں پیش
آتی تو پھر بھی نیپال کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے کم از کم پچاس
سال کا عرصہ درکار ہو گا۔
|