عمران خان ماضی سے حال تک

میرے پاس کوئی ریکارڈ یامعلومات تو نہیں لیکن الیکشن کے دن اور الیکشن سے پہلے زیادہ تر نوجوان نسل عمران خان کو سپورٹ کر رہے تھے جن میں زیادہ تر نوجوانوں وہ ہے جو عمران خان کو بحیثیت کرکٹ کھلاڑی نہیں جانتے کہ دنیائے کرکٹ میں عمران خان کس بلا کانام ہے ۔ عمران خان کو نواجون نسل بطور سیاسی لیڈر مانتے ہیں کہ انہوں نے روایاتی سیاستدانوں کے برعکس حقیقی معنوں میں سیاست کی ہے ۔جو لوگ عمران خان کو فالو کرتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ عمران خان کی 1996میں پارٹی کو بناتے وقت جو سوچ اور فکر تھی وہ آج بھی اسی طرح ہے جس میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ عمران خان نے مسلسل 17سال جدوجہد کی جس کے نتیجے میں ان کو کے پی میں 2013کے الیکشن میں دوسری پارٹیوں کی نسبت زیادہ نشستوں سے اپنی حکومت بنائی جس میں پی ٹی آئی نے پچھلے تمام حکومتوں سے اچھے کارکردگی دکھائی تو کے پی کے عوام نے اپنی تاریخ کو تبدیل کرکے تحریک انصاف کو دوبارہ اسلئے ووٹ دیے کہ ان کی کارکردگی باقی جماعتوں سے بہت بہتر رہی ہے ۔ میرا خیال ہے کہ پی ٹی آئی نے کے پی میں وہ کارکردگی نہیں دکھائی جو عمران خان کی سوچ تھی بلکہ بعض کام عمران خان کے سوچ کے منافی بھی ہوئے یعنی BRTپروجیکٹ عمران خان کی سوچ کے مطابق نہیں بلکہ وہ اس کے مخالف تھے لیکن پرویز خٹک حکومت نے اس کو شروع کیا ۔ عمران خان کی سیاست میں آنے سے نہ صرف نواجون نسل نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کیا بلکہ انھوں نے سیاست کے تمام طور طریقوں کو تبدیل کرکے رکھ دیا ۔ اس لئے عمران خان کے ناقدین یہ کہتے پھرتے ہیں کہ عمران خان نے سیاست کا مزہ خراب کردیا ۔ پہلے ہمارے سیاست دان سیاست کرپشن ،لوٹ مار، اثرورسوخ ، نام وپہچان کے علاوہ مزہ لینے کیلئے بھی کرتے تھے کہ پیسہ بناؤ ، برائے نام ایک دوسرے کی مخالفت کرو اور عیش وعشرت کے ساتھ زندگی گزاروں لیکن عمران خان نے ناصرف کرپشن کے خلاف تحریک چلائی بلکہ سیاست دانوں کو یہ بھی سکھایا جس میں بہت سے سیاست دان پہلے ان کے جلسوں اور پارٹی ترانوں کا مذاق اڑ اتے تھے اب ان کو فالو کررہے ہیں ۔ عمران خان سیاست دولت وشہرت کے لئے نہیں کرتا بلکہ ان کوجاننے والے جانتے ہیں کہ وہ سیاست کیوں کرتا ہے ۔

ایک دفعہ اسد عمرنے کہا کہ میں نے خان کو بتایا کہ میں اس لئے سیاست میں آپ کے ساتھ آیا ہوں کہ آپ ملک وقوم کی بہتری کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں کہ عام لوگوں کو سکیورٹی ، تعلیم ،صحت و انصاف ملے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوجائے تاکہ پاکستانی خوشحال ہوجائے تو عمران خان نے مجھ سے کہا کہ اسد عمر یہی فرق ہے تم میں اور مجھ میں کہ تم سیاست عوام کو خوش کرنے کیلئے کرتے ہو جبکہ میں سیاست عوام کو خوش کرنے کیلئے نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کو خوش کرنے کیلئے کرتا ہوں تا کہ اﷲ مجھ سے خوش ہوجائے کہ میں نے اپنی بساط کے مطابق ان کے بندوں کے لئے کام کیا ۔عمران خان کے خلاف شروع سے ان کے مخالفین بلکہ آج بھی بعض نادان یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی بطور ایک سیاسی طالب علم کے جتنا سیاست کو سمجھتا ہوں یہ بڑی بات ہوگی لیکن میر ے خیال میں پاکستان میں اگر سیاست کسی کو آتی ہے تو صرف عمران خان کو کہ انہوں نے کس طرح زیرو سے آغاز کیا ان کا باپ دادا سیاست میں نہیں تھے بلکہ کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف فیصلہ کیا کہ میں نے ان کے خلاف سیاست میں آنا ہے۔ ملک میں قانون کی حکمرانی کا آغاز کرنا ہے۔ جب عمران خان نے 96میں پارٹی بنائی تو میاں نواز شریف چونکہ عمران خان کے فین تھے انہوں نے خان صاحب کو فرمایا کہ میں پنجاب میں آپ کو بیس سیٹیں دیتا ہوں آپ میرے ساتھ مل جائے ۔ عمران خان نے جواب دیا کہ میاں صاحب میں تو آپ اور بے نظیر کے خلاف سیاست میں آیا ہوں ،میں آپ کے ساتھ کس طرح سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کرسکتا ہوں ۔97کے الیکشن میں عمران خان نے کوئی سیٹ حاصل نہیں کی جبکہ اسمبلی میں اس وقت سیٹوں کی تعداد بہت کم تھی یعنی بیس سیٹیں بہت زیادہ تھی آج اور کل کے سیاسی مدبرین عمران خان کو سمجھتے رہے کہ نواز شریف کے بیس سیٹوں کو ٹھکرنا بہت بڑی غلطی ہے لیکن عمران خان ڈٹا رہا۔ میرے خیال میں اگرعمران خان نے وہ آفرقبول کی ہوتی تو آج عمران خان وزیراعظم نہ ہوتا ۔ملک اور دنیا بھر میں ان کی یہ عزت نہ ہوتی بلکہ ن لیگ کا کوئی وزیر ہوتا۔

عمران خان کی محنت کو صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو تاریخ اور سیاست کو سمجھتے ہو۔ عمران خان ذوالفقار علی بھٹو نہیں تھا کہ پارٹی بنائی اور ساتھ میں حکومت مل گئی اور نہ نواز شریف تھا کہ ضیاء الحق ان کو آگے لے آتا وزیر اعلیٰ اور پھر دوسرے سال وزیراعظم بن جاتا ،نا ہی عمران خان ، بے نظیر ، بلاول زرداری کی طرح تھا کہ عوام کی خون میں تیا ر ہونے والی پارٹی ان کومل جاتی ۔ عمران خان حمزہ شریف یا مریم نواز کی طرح بھی نہ تھا کہ گھر بیٹھے کھربوں کامالک اوران سیاست دانوں کاسربراہ بن جاتا جن کی سیاست میں عمراورتجربہ ان سے زیادہ ہے لیکن عمران خان کی قسمت اسفندیار ولی ،فضل الرحمن یا محمود خان اچکزئی والی بھی نہ تھی کہ ان کو پارٹی اور سیاست مراث میں مل جاتی ، عمران خان نے یہاں تک پہنچنے کیلئے اور دنیائے سیاست میں ایک نام بنانے کیلئے 22سال جدوجہد اور قربانی دی ۔ آج ان کو یہ مقام اس طرح ملا کہ سیاست کے تمام کھلاڑیوں نے متحدہ ہوکر ان کی مخالفت کرنے کے باوجودشکست کھائی اور عمران خان نے اکثر یت حاصل کی۔ پاکستان میں جہاں ہر جگہ پر ان سیاسی مافیاز کا اثرورسوخ قائم ہے بہت مشکل تھا ان مافیاز کو ہارنا لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان سے یہ کام لینا تھا اس لئے سیاسی ماضی نا رکھنے کے باوجود انہوں نے تما م اسٹٹس کو پارٹیوں کو شکست دی ۔ خان کو سیاست سے آوٹ کرنے کیلئے کیا کیا حربے ان سیاست دانوں نے استعما ل نہیں کیے جو تاریخ کا حصہ ہے لیکن وہ ڈٹ رہا۔اب سوال بنتا ہے کہ آیا عمران خان نے جو وعدے اور نوجوان نسل کو امید دی ہے اس پر پورا اتریں گے تو اس کو معلوم کرنا کوئی سائنس نہیں بلکہ کے پی میں ان کی حکومت گزری وفاق کے عدم تعاون کے بغیر انھوں نے بہت کام کیا جس میں عمران خان کیپٹن نہیں بلکہ کوچ تھے اب عمران خان کوچ سے کیپٹن بن گئے خود میدان میں کھلاڑیوں کے ساتھ نہ صرف لڑے گا بلکہ جو جو غلطی کرے گا اس کو ٹیم سے آوٹ اور نئے کھلاڑی کو موقع دے گا ۔ گزشتہ روز جب خان کو پارٹی کی جانب سے وزیراعظم نامز د کیا جارہاتھا توانھوں نے اپنی ٹیم کو بتا یا کہ ہم نے اگر روایتی سیاست کو قائم رکھا عوام کیلئے کچھ نہ کیا تو ہمارا حشر اے این پی اور ایم ایم اے سے بدتر ہوگا -

ماضی میں حکمران نے عوام کے لئے کچھ نہیں کیا صرف دعوے اور نعرے لگاتے رہیں عوام کے بنیادی حقوق کیلئے کوئی کام نہیں ہوا ، اب یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ عمران خان نہ صرف پاکستانی عوام کے لئے بہتر ہوگا بلکہ دنیا بھرمیں پاکستان کی ایک پہچان بنائے گاجس کی شروعات وہ خود سے کریں گے۔ سادگی اپنائیں گے ۔عمران خان نے یہ بھی اعلان کیا کہ میں وزیراعظم ہاؤس نہیں رہوں گا جس پر ان کے کارکنوں سمیت عام لوگ بھی بہت خوش ہوئے لیکن ان کے ناقدین کو بہت برا لگا کہ وہ وزیراعظم ہاؤ س میں کیوں نہیں رہیگا ۔ وزیراعظم کو وزیر اعظم ہاؤس میں رہنا چاہیے ،ملک کو دو تین ارب روپے کی بچت سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ ہمارے بڑے بڑے تجزیہ کار عمر ان خان کو مفت مشورہ دے رہے ہیں تاکہ پاکستان میں روایتی سیاست قائم رہے لیکن عمران خان ان کے مشوروں پر عمل نہیں کرے گا ۔ عمران خان وہ فیصلے کریں گا جو ان روایتی سیاستدانوں کی سیاست کو ختم کر دے گا ۔ میر ے خیال میں وزیر اعظم ہا ؤس کو سرکاری ہوٹل بنانا چاہیے ایک توہرسال دو تین ارب کی یہ بچت ہوگی تودوسری جانب چار پانچ ارب کی بچت بیرونی ملکوں سے آئے ہوئے مہمانوں پرائیویٹ ہوٹلز میں قیام و طعام سے بھی ہو گی لیکن دیکھنا اب یہ ہے کہ عمران خان ماضی کا خان ہے یا کہ وہ اپنی وعدوں سے انحراف کرتا ہے۔
 

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226319 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More