ہمارے ملک کوآزاد ہوئے 70سال سے اوپرہوگئے مگردل
میں ہمیشہ اس بات کا افسوس لگا رہتا ہے کہہ ہمیں کوئی ایسا حکمران نہیں ملا
جو ہمارے ملک کے بارے میں سوچے جو بھی الیکشن جیتتا ہے وہ سیرسپاٹے کیلئے
ملک سے باہرچلا جاتا ہے اور جو ہارتا ہے وہ اپنی ہار کا غم منانے کیلئے بھی
باہرچلا جاتا ہے صرف عوام ہے جو الیکشن کے دنوں کے مخالفت دل میں لیے ایک
دوسرے کیلئے انتقام لینے میں لگی رہتی ہے جب یہ لیڈرباہرجاتے ہیں عوام کے
کانوں کان خبرنہیں ہوتی مگرجب واپس آتے ہیں تو سب لوگوں کو مدعوکیا جاتاہے
کہ اپنے لیڈرکا استقبال کرنا ہے اور عوام بھی نا عقل ہے کہ وہ بھی ساتھ چل
پڑتے ہیں دیکھتے دیکھتے سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوجاتے ہیں
ہاتھوں میں پھولوں کی پتیاں اور پھولوں کے گلدستے پیش کیے جاتے ہیں گھنٹوں
انتظاراور نعروں کے بعد عوام کو ملتا کیا ہے صرف ایک منٹ کا ہاتھ ہلانااور
پھرکیا لیڈرپُھرہوجاتا ہے عوام اسی کشمکش میں رہتے ہیں کہہ شاید ہمارا لیڈر
ہم سے ہاتھ ملا لے مگرافسوس الیکشن کے بعد اتنی زیادہ سیکیورٹی ہوتی ہے کہ
صرف ان کو دیکھنا نصیب ہوتا ہے ملنا صرف خواب مگریہی عوام جب بیمار ہوکے
ہسپتال جاتے ہیں تو ان کو بیڈتک نہیں ملتا اگرملتا ہے تو دودومریض ایک ساتھ
ایڈجسٹ کرتے ہیں یا اتنے زیادہ پیسے بھرنے پڑتے ہیں کہ آدمی بیمار بھی ہوتو
ہسپتال کا منہ نہیں کرتا اور ہمارے حکمران ہیں کہ وہ اپنے ہی ملک میں علاج
کروانے سے ڈرتے ہیں آخرایسا کیوں ہے کیا ہمارے ملک میں ایسا کوئی ہسپتال
نہیں جو ان لوگوں کا علاج کرسکے اگرنہیں تو ان حکمرانوں نے اپنی جیبیں
بھرنے کے بجائے ایسا ہسپتال کیوں نہ بنوایا کہ اپنے ہی ملک میں علاج ہو اور
ملک کے خزانے سے پیسے لینے کے بجائے بچت کی جائے ۔ہمارے حکمران صرف دعوے
کرتے ہیں کہ ہم نے اتنے اچھے ہسپتال بنوائے کہہ غریبوں کا علاج مفت ہوتا ہے
مگریہی حکمران جب اس ہسپتال کے وزٹ پر جاتے ہیں تو منہ پرکپڑادیتے ہوئے
جلدی میں وزٹ کرتے ہیں تا کہ اس بدبو سے مرہی نہ جائیں اب ان کو کون
سمجھائے کہ یہ سب آپ کا کیا دھراہے اگرحکمران انسان ہیں تو کیا عوام انسان
نہیں انہی عوام کے ووٹ کی وجہ سے اسمبلیوں تک پہنچے ہو تو عوام کے بارے میں
سوچنا چاہیے سابق خادم اعلٰی نے اپنے آخری دورے میں مظفرگڑھ کے ہسپتال کا
دورہ کیا جسے اس نے امریکہ کے ہسپتالوں کے برابرکا درجہ دیا اب جب شہباز
شریف بیمار ہوگا تو شاید اسی ہسپتال سے علاج کروائے گا ورنہ ۔۔۔۔۔ چلو اب
امریکہ کے ہسپتال تو ہم لے آئے لگتا ہے ہمیں اب امریکہ کے حکمران بھی لے کے
آنے چاہیں کیونکہ ہرچیز باہر کی ہوگی تو ملک بھی اچھا چلے گا کیونکہ اپنے
ملک کے حکمران تو دھوکہ دے رہے ہیں ’’جب اپنوں نے دیا دھوکہ غیروں سے شکایت
کیا ، دوست نے خنجرماردشمنوں کی ضرورت کیا‘‘ اس شعرسے میرامقصد کوئی اور
نہیں یہی ہے کہ ہمیں غیروں سے اگردھوکہ مل جاتا ہے اتنا دکھ نہ ہوگا کیونکہ
ہمارے اپنے ہمیں روز غربت کے نچلے حصے میں لے کے جارہے ہیں ،لوڈ شیڈنگ سے
براحال ہوگیا ہے،پڑھائی کے اتنے خرچ ہیں کہہ اب لوگ بچوں کو پڑھانے کے
بجائے ہنر سکھانے پرترجیح دیتے ہیں کیونکہ اگرپڑھ بھی لیں ڈگریاں لے کے بھی
مزدوری کرنی تو ایسے ہی مزدوری سہی عوام آج بھی ایسے حکمران کی تلاش میں ہے
جو اپنے لیے نہیں ملک کی عوام اور پاکستان کیلئے سوچے اب شاید ’’خان
‘‘لوگوں کی امیدوں پر پورااترے اور سارے مسائل حل کردے سرائیکی وسیب کے
لوگوں کی پہلی ترجیح الگ صوبہ ہے اورامید ہے کہہ خان یہ وعدہ پوراکرکے
سرائیکی وسیب کو اپنی جیت کا بدلہ دے گااگرہمارے حکمران وعدے کے پکے اور
ایماندارہونگے تو ہمیں کسی کی غلامی اور امداد کی ضرورت نہیں پڑے گی 70سال
سے صرف حکومت بدلی ہے پاکستان نہیں بدلہ کیونکہ ملک میں مہنگائی بڑھتی رہی
اور بے روز گاری کے دلدل میں لوگ دھنستے رہے امیرلوگ اورامیرہوگئے اور غریب
اپنی 2وقت کی روٹی کیلئے پریشان ہے حکمرانوں کی اربوں کی جائیدادیں ہیں مگر
آج بھی غریب لوگ کرائے کے مکان میں رہ کربھی برسوں گزاردیے اور اپنا گھرنہ
بنا سکے اب ہرکسی کی نظرنئے وزیراعظم عمران خان پر ہے مگرخان کے مقابلے
اپوزیشن بھی مضبوط کھڑی ہے مگرخان کو عوام کی سپورٹ ہے پرایک بات کا ڈرہے
کہ عوام اسمبلی میں نہیں جاتی جیسے کہہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت
ایک سال سے زیادہ نہیں چل سکتی اگرایسا ہوا تو لوگوں کے دل تو دکھیں گے اس
کے علاوہ ملک کا اربوں کا نقصان ہوگا جس سے ہمارا ملک اور مقروض ہوجائے اسی
وجہ سے اپوزیشن لیڈروں کو خان کے ساتھ ملک کرکام کرنا چاہیے اور اپنے مفاد
کو پشت پیچھے ڈال کر ملک کی بقاء کیلئے کچھ کرنا چاہیے تاکہ ہمارے حکمرانوں
اور ہمارے ملک کامستقبل اچھا ہو۔ |