برصغیر 15اگست 1947ء بمطابق27رمضان المبارک کو آزاد
ہوا،جمعۃ الوداع کا دن تھا ۔نامور محقق جناب ضیاء الدین لاہور نے ایک
کتابچہ بعنوان ’’پاکستان 15اگست کو قائم ہوا‘‘لکھا ۔پاکستان اور ہندوستان
میں یوم آزادی 15اگست کو ہی منایا جاتا تھا ۔اسی موضوع پر پاکستان کے
مشہورکالم نگارحسن نثار نے ایک کالم لکھا ’’بھارت بھی 15اگست کو یوم آزادی
مناتا تھا ‘‘اس لئے 1949ء میں پاکستانی کابینہ نے 14اگست کو یوم آزادی
منانے کا فیصلہ کیا ۔یہ کابینہ تاریخی شعور کے حوالہ سے یقینا نابینا تھی ،ورنہ
اتنا احمقانہ فیصلہ نہ کرتی ،جوتاریخ کومسخ کرتے ہیں تاریخ انہیں مسخ
کردیتی ہے ۔یاردکھیں تاریخ کے ساتھ ڈنڈی مارنے والوں کو تاریخ ڈنڈے مارتی
ہے (روزنامہ ایکسپریس 22اگست 2006)۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی آپ بیتی یاد ایام میں
لکھتے ہیں ،رمضان المبارک کے دوران مسلمان مساجد میں عبادت میں مصروف ہوتے
تھے ،مساجد کے باہر لیگی جلوس تراویح سے لے کر سحری تک نعرے لگاتے پاکستان
لے کر رہیں گے ،مرکر لیں گے ،خون سے لیں گے ،میں نے بہت سے لوگوں سے منع
کروایا ،باربار کہلوایا ،یہ اجابت کی راتیں ہیں ،تم پاکستان ضرور مانگو ،خون
نہ مانگو ، دعا قبول ہوئی پاکستان کے ساتھ خون ہی خون ملا،عوام اس دلفریب
نعرے کی دیوانی تھی کہ’’پاکستان کا مطلب کیا ،لاالہ الااﷲ‘‘لیکن لیگی قیادت
کو نعرے سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔کیونکہ مسلم لیگ کا پہلا صدر ہانی نس
آغاخان تھا ، جن کے بارے میں امت مسلمہ کا متفقہ فتویٰ ہے کہ آغاخانی
مسلمان نہیں ہیں ۔پہلا وزیر قانون جوگندرنارتھ منڈل بنایا گیا ،کیا اس نے
اسلامی نظام کیلئے کام کرنا تھا ...؟جبکہ وہ تو مسلم لیگ کارکن بھی نہ تھا
،اس نے وزار ت سے استعفیٰ بھی نہیں دیا بلکہ وزارت ہمارے منہ پر مار کر
ہندوستان چلا گیا اور وہاں کی شہریت اختیار کرلی۔اسی طرح ظفراﷲ قادیانی کو
وزیر خارجہ مقررکیاگیا جس نے بیرون ممالک میں موجود اپنی لابی کو خوب مضبوط
کیا ۔
اس کے مقابلے میں جن بزرگوں نے اسلامی مقاصد کو سامنے رکھ کر دن رات تحریک
پاکستان کو پروان چڑھایا علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ ،مولانا حسرت موہانی ؒ،
مولاناظفراﷲ خان ؒوغیرہ حضرات کاکیا حشر کیا گیا ...؟اسی پر ہی بس نہیں
بلکہ میر جعفر کے پوتے سکندر مرزا کوپہلا گورنرجنرل آف پاکستان اور پھر
پاکستان کا صدر بنادیا گیا ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تاریخ کی اتنی
بڑی قربانیاں صرف اسی لئے دی گئی تھیں ،جن میں مشرقی پنجاب میں 15لاکھ
مسلمان شہید ہوئے کم وبیش 90 ہزار عورتیں بے آبروہوئیں ،وہ آج تک ہندو ؤں
اور سکھوں کے گھروں میں موجود ہیں ۔بے شمارمساجد اصطبل میں تبدیل کردی گئیں
،جبکہ پاکستان میں کسی بھی مندر ،گرجا اور گردوارے کو معمولی سابھی نقصان
نہیں پہنچ جائے تو حکومت پاکستان خود اس کے ازالے کیلئے اس کی مرمت کراتی
ہے ۔
یہ سب قیام پاکستان کے اعلان کے بعد ہوا ،کیونکہ لیگی قیادت نے پاکستان
بننے کے بعد کیا ہوگا ...؟اس پر کبھی غور نہیں کیاتھا ۔پوچھا گیا تو کہا کہ
ہندوستان میں رہ جانے والے اپنے مسائل خود حل کریں ۔قربانیوں کا یہ سلسلہ
یہاں رکا نہیں ۔1948ء میں سقوط حیدرآباد دکن کے موقع پر پانچ لاکھ مسلمان
قتل ہوئے ۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں تقریباً45لاکھ بنگالی وغیر بنگالی
مسلمان قتل ہوئے ۔بے شمار اردو بولنے والے بہاری بنگلہ دیش میں بے
یارومددگار اپنا وطن پاکستان تلاش کررہے ہیں ،انہیں کوئی بھی قبول کرنے
کیلئے تیار نہیں ۔ 1947ء سے آج تک کشمیر میں لاکھوں مسلمان شہید ہوچکے ہیں
،ہنوزیہ سلسلہ جاری ہے۔برصغیر کی آزادی کے وقت بھارت نے اپنا ایک وفد نواب
آف بہاولپور کے پاس بھیجا کہ آپ اپنی ریاست کا ہندوستان سے الحاق کرلیں ،
انہوں نے انکار کردیا کہ میں مسلمان ہوں ، میں پاکستان سے الحاق کروں گا ،بعد
کئی مرتبہ انہوں نے حکومت پاکستان کو قرضہ بھی دیا ،کیا لیگی قیادت اس طرح
کا کوئی وفد کشمیر کے مہاراجہ کے پاس نہیں بھیج سکتی تھی...؟۔اتنی بڑی
قربانیاں جس مقصدکیلئے دی گئی تھیں وہ ہم آج تک حاصل نہ کرسکے ،مگر اﷲ اور
اس کے پیارے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم سے جنگ کیلئے (نعوذباﷲ)تیار ہوگئے ،سود
کو ختم کرنے کی بجائے اس کے تحفظ کیلئے ڈٹ گئے ،چین پاکستان کے ایک سال بعد
آزاد ہوا جرمنی اور جاپان جنگ کے بعد کھنڈر بن گئے لیکن ان تینوں ممالک نے
غیر مسلم ہونے کے باوجود حیرت انگیز ترقی کی آج ان کا شمار G8ممالک میں
ہوتا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں بار بار موقع دیتا ہے ،الیکشن کے بعد آنے والی حکومت سے
دردمندانہ گزارش ہے کہ وہ تاریخ سے اپنے پیش رو ارباب اختیار سے قرآن وسنت
کی روشنی میں سبق حاصل کرکے اﷲ تعالیٰ کے حضور توبہ کریں اور عہد کریں کہ
آج کے بعد ہم اﷲ تعالیٰ کے ہر حکم پر، نبی آخرالزماں حضور نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم وصحابہ کرام ؓکے مبارک طریقوں کے مطابق عمل کریں گے ،اﷲ تعالیٰ
ہم سب کو عمل کی توفیق سے نوازے ۔آمین ثم آمین ۔
|