منافقت کی سیاست

سیاست ہر انسان کا حق ہے کہ وہ کریں جس میں کہی پر یہ نہیں لکھا کہ آپ مذہب،رنگ ونسل، قوم پرستی،نسل پرستی سے لے کر انسانی پرستی تک اپنی سوچ، نظریہ وفلسفہ لوگوں کے سامنے نہیں رکھ سکتے لیکن عوام اس کو قبول کریں یا نہ کریں یہ ان کا حق ہے ۔ اپنی سیاست کیلئے یہ لوگ دن رات محنت کرتے ہیں کہ ان کا نظریہ عام لوگوں کو سمجھ آجائے، عام لوگ ان کے خام خیال بن جائے۔ ہر مکتب فکر اور سوچ رکھنے والوں کے ماننے یا نہ ماننے والے موجود ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں بدقسمتی سے سیاست ایشوز کے بنیاد پر کمی ہوئی ہے ۔ ہمارے سیاستدان قومی پرستی، نسل پرستی یا مذہب کے نام پر ووٹ لیتے رہے ہیں جس میں اب تبدیلی آئی ہے ۔ اب عوام میں وقت کیساتھ ساتھ تعلیم،سوشل میڈیااور معلومات عام ہونے کی وجہ سے شعور پیدا ہواجس کی ایک جھلک ہم نے اس الیکشن میں دیکھا کہ سندھ ہو یا بلوچستان،کے پی یا پنجاب میں عوام نے پرانے نعروں پر ووٹ نہیں دیے بلکہ ملک کے سطح پر سوچ اور ایشوز پر بات کرنے والوں کو منتخب کیا ، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مذہب یا قومی پر ستی کے نعرہ لگانے والوں کو عوام نے یکسر مسترد کیا ۔ آج بھی ان کے فلورز ہر جگہ موجود ہے لیکن اب ان نعروں پر کامیابی پہلے کی طرح ممکن نہیں ۔میڈیا نے پورے پاکستان کو ایک کردیا ،اس میں پٹھان، پنجابی، بلوچی ، سندھی اور مہاجر کے نعرے لگانے والوں کی کوئی اہمیت اب نہیں ہے۔

یہ تاریخ کا کڑوا سچ ہے کہ ان نعروں نے ہمیشہ ملک وقوم کو نقصان پہنچایا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کے نعرے لگانے والے بعد ازاں قتدار کے لئے اکٹھے ہوجاتے رہے ہیں ۔ پاکستان کا ماضی الیکشن کے حوالے سے کوئی اچھا نہیں رہاہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دھاندلی ہمیشہ اتنی نہیں ہوئی جس طرح ان کا پروپیگنڈا ماضی میں کیا جاتا رہایا اب سیاست کرتے ہیں اور اس کا الزام ہمارے سیاست دان اسٹیبلشمنٹ پر لگاتے رہے ہیں جس میں بعض اوقات شاید کسی بریگیڈائر یا جنرل کی آشیراباد بھی حاصل ہولیکن مجموعی طور پر وہ پارٹی جیتی ہے جس کا عوام میں مقبولیت ہو یعنی ماضی قریب میں دیکھا جائے تو ن لیگ لیڈر شپ ملک سے باہر تھی ، پھر بی بی شہید کے قتل نے پی پی پی کوعوام میں مقبول بنا دیا تو 2008میں زیادہ اکثریت سے نہیں لیکن عام اکثریت سے ان کی حکومت بنی ، اس طرح پانچ سال حکومت کرنے کے بعد ان کی نااہلی سب پر عیا ں ہوئی تو 2013میں ن لیگ کی مقبولیت پنجاب میں زیادہ اس طرح ہوئی کہ تقریباً تمام ق لیگ کے رہنما ن لیگ میں چلے گئے تو ن لیگ پنجاب میں مضبوط پارٹی بنی باوجود اس کہ کچھ سیٹوں پر دھاندلی ہوئی لیکن مجموعی طور پر سیاست کو سمجھنے والوں کو معلوم تھا کہ ن لیگ الیکشن میں اکثریت حاصل کرلے گی ،اس طرح اب پی ٹی آئی کی پوزیشن ہوگئی کہ ن لیگ نے اپنے پانچ سال دور میں کوئی ایک کام ملک کی بہتری یا عوام کیلئے نہیں کیا صرف اپنے قائد میاں نواز شریف کی کرپشن کی دفاع کرتے رہیں،اداروں کو برباداور معیشت کا بیڑا غرق کیا جس پر آج ہر صحافی ،اینکر پرسن اور سیاست دان یہ سوالات اٹھاتا ہے کہ عمران خان کس طرح ملک کو درپیش چینلز سے نبردآزما ہوگا ۔ بیرونی قرضوں کو واپس کرنے کیلئے ملک کے خزانے میں پیسے نہیں لیکن ان سب سے عمران خان کو ڈرایا تو جارہاہے لیکن ملک کو اس حالت میں پہنچنے والوں سے کوئی سوال وجواب نہیں۔

25جولائی2018کے الیکشن میں عام تاثر اور رپورٹس یہی تھی کہ تحریک انصاف جیت جائے گی ۔ پنجاب میں پی پی ختم ہوئی جب کہ ن لیگ نے دس سال حکمرانی کے باوجود عوام کو صاف پانی تک مہیا نہیں کیا صرف نعرے اور دعوے کرتے رہے لیکن تحریک انصاف کی اس جیت کو مخالف پارٹی قبول کرنے کوتیار نہیں ۔ خاص کر قوم پرست اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جمعیت علما اسلام آگے ہے۔ پی پی اور ن لیگ برائے نام مخالفت کررہی ہے تا کہ ان کی سیاست اور پی ٹی آئی کوٹف ٹائم ملے لیکن مولانا فضل الرحمن، اے این پی ، اچکزئی وغیرہ فوج اور عدلیہ کے خلاف نہ صرف بیان بازی کررہے ہیں بلکہ ماضی میں تحر یک انصاف کے چار حلقوں کی مخالفت کو ایک طرف کیا جائے تو اب بلوچستان اور کے پی میں سڑ کوں کو بھی بند کیا گیا جس سے عام لوگوں کو نقصان ہوا۔ یہ پارٹیاں حکومتوں میں رہی ہے انہوں نے مل کر الیکشن کمشنر سمیت چاروں صوبوں میں کمشنرز ، نادرچیئرمین ، آرمی چیف ، نیب چیئرمین، سپریم کورٹ جج سمیت نگران وزیراعظم لگا یا لیکن اس کے باوجود الزام اداروں اور پی ٹی آئی پر لگایا جارہاہے ۔ ان کے الزامات میں کوئی جان بھی نہیں ان کے سب ورکرز جو الیکشن کے دن پولنگ اسٹیشن پر موجود تھے انہوں نے الیکشن کے شفاف ہونے کی تصدیق کی ہے ۔ جس شہر میں دوستوں سے بات کی سب نے کہا کہ اس دفعہ الیکشن بہت اچھے ہوئے کسی کو نہ زبردستی ووٹ ڈالنے کا کہا جاسکتا تھا اور نہ ہی ووٹ کو باہر لایا جاسکتا تھا ۔ کنتی کے وقت سب پارٹیوں کا ایک ایک ایجنٹ موجود تھا جن کے پاس ایجنٹ کی سلپ نہیں تھی ان کو باہر کیا گیا تھا۔ملک بھر میں مجموعی طور پر اچھے صاف وشفاف انتخابات ہوئے لیکن پھر بھی اگر الیکشن کمیشن پر دھاندلی کا الزام ہے تو ان کو درست کرنا ان پارٹیوں کا کام تھا جو عرصہ دارز سے حکومتوں میں شامل رہے ہیں ۔ عمران خان اس کے لئے چیختا رہتا تھا کہ الیکشن نظام کو بائیومٹرک کیا جائے اب تو موبائل سے بھی ووٹ کاسٹ کیا جاسکتا ہے لیکن اگر الیکشن کمیشن جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جاتا۔ رات بارہ بجے تک پی ٹی آئی 125سیٹوں کیساتھ آگے تھی جس پر مشین کو روکا کیا یا وہ خراب ہوئی ، صبح ان کی سیٹیں بڑھنے کی بجائے کم ہوئی ۔ میر ے دانستہ میں اس دفعہ بھی پی ٹی آئی کے ساتھ پنجاب میں ن لیگ نے دھاندلی کی ہے جس کو تحریک انصاف کی حکومت اپنے اقتدار میں آکر چیک کریں وجہ یہ ہے کہ ان کی جیتی ہوئی سیٹ ن لیگ کودیے گئے اورن لیگ کے آج بھی پنجاب میں مافیاز سرگرم ہے۔

دوسرا یہ ہے کہ بلوچستان میں محمود خان اچکزئی کی پارٹی کو ایم ایم اے نے شکست دی یعنی فوج نے ، اس طرح ن لیگ کو پنجاب میں زیادہ نشستیں ملی بعض جگہوں پر پی پی کو ہرایا تو وہ بھی فوج یاعدلیہ نے ان کو ہرایااس طرح سند ھ میں بھی پوزیشن ہے لیکن الزام کس پر لگارہے ہیں، منافقت کی انتہا یہ ہے کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں اور الزام فوج پر لگایا جارہاہے تاکہ آئندہ فوج ہاتھ کھڑے کرے اور یہ لوگ ماضی کی طرح ہٹلر بازی اور دھاندلی کھلے عام کرتے رہیں۔کے پی میں مولانافضل الرحمن کو شکست ہوئی، الیکشن سے پہلے ان کے ایک رشتہ دار نے جو ان کے گاؤں کے ہے کہا کہ اس دفعہ مقابلہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہوگا میں بھی ایک ووٹ پی ٹی آئی کو ڈالوں گا بقول ان کے نوجوان نسل تحریک انصاف کے ساتھ ہے یہ مولانا کی گاؤں کی بات ہے باقی حال کیا ہوگالیکن منافقت کی انتہا یہ ہے کہ الیکشن کو نہیں مانتے لیکن وزیراعظم ، ن لیگ سپیکر پی پی کا اور ڈپٹی سپیکر فضل الرحمن کا بیٹا ہوگا۔ دوسری منافقت یہ ہے کہ عمران خان دھاندلی میں ملوث ہونے والوں کی سزا کی بات کرتا تھا لیکن اپ لوگ ان کو جمہوریت اور پارلیمنٹ کا مشورہ دے رہے تھے کہ پارلیمنٹ میں بات کرووہ پانچ سال تک لگا رہاہے لیکن ان کے چارحلقوں میں کنتی دوبارہ نہیں ہوئی اور اپ لوگوں کے 55حلقوں میں حکومت بننے سے پہلے گنتی ہوئی ،عمران خان نے کبھی احتجاج میں سٹرک بند نہیں کی تھی آپ لوگوں نے سیاست کی خاطر کے پی اور بلوچستان میں سڑکے زبردستی بند کیے ۔دوسرا احتجاج اب ضرور کریں لیکن اس کے لئے وجہ بھی ہونی چاہیے اور راستوں کو بند کرکے نہ کریں۔ اگر منافقت کی یہ سیاست بند نہ ہوئی تو مجھ لگ رہاہے کہ اب بھی ان پارٹیوں کے ووٹ اس منافقت کی وجہ سے کم ہوئے ،آنے والے وقت میں مزید کم ہوں گے۔عمران خان بھی انسان ہے وہ بھی غلطیاں کریں گا ان کی غلطیوں پر سیاست کریں لیکن ان سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ اب عمران خان آگیا تو مشکل ہے کہ آئندہ ان روایتی سیاست دانوں کی سیاست رہیں۔سعد رفیق کے حلقے میں دو دفعہ کنتی ہوئی جس میں وہ ناکام رہا اس کے باوجود الیکشن رزلٹ رکوانے عدالت کیا ۔ سپریم کورٹ نے اس سے پہلے پی ٹی آئی اور دوسری پارٹیوں کی درخواستیں بھی مسترد کی تھی کہ رزلٹ کو رکوا یا نہیں جاسکتا اور ن لیگ کے سعد رفیق کی بھی کہ یہ کام الیکشن ٹربیونل کا ہے لیکن اس کے باوجود میڈیا میں ان کی منافقت اﷲ کی پناہ۔۔

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226440 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More