سردی بہت تھی، کسان نے سانپ کے بچے کو کھیت سے اٹھایا،
گھرلایا، چولہے کے نزدیک رکھ کر گرمایش پہنچائی اور نیم گرم دودھ پلایا،
جیسے ہی سانپ کا بچہ ہوش میں آیا تو اس نے کسان کے بچے کو ڈس لیا۔ ایسا ہی
کچھ پاکستان کے ساتھ بھی ہو رہا ہے، پاکستانی ایک جوانمرد ، شجاع ، بہادر،
دلیر اور مخلص قوم ہیں۔ پاکستانیوں نے سب کے ساتھ ہمدردی کی حتی کہ پاکستان
کے قیام کے دشمنوں کو بھی اپنی آغوش میں جگہ دی اور ان کے لئے سیاست کے
دروازے کھولے۔
قیام پاکستان کے چند بڑے مخالفین میں دو نام سرِ فہرست ہیں۔ایک خان
عبدالغفار خان ہیں جنہیں باچا خان اور سرحدی گاندھی کے نام سے بھی یاد کیا
جاتا ہے، 1987ء میں آپ پہلے شخص تھے جن کو بھارتی شہری نہ ہونے کے باوجود
“بھارت رتنا ایوارڈ“ سے نوازا گیا جو سب سے عظیم بھارتی سول ایوارڈ ہے۔اسی
طرح جب 1988ء میں آپ کا انتقال ہوا تو آپ نے پاکستان میں دفن ہونا پسند
نہیں کیا اور آپ کو آپ کی وصیت کے مطابق جلال آباد افغانستان میں دفن کیا
گیا۔ دوسری اہم اور نامور شخصیت جو قیام پاکستان سے خائف تھی وہ مولانا فضل
الرحمان کے والد مفتی محمود ہیں جنہوں نے ببانگ دہل یہ کہا تھا کہ خدا کا
شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔ وہ کانگریس پارٹی
کے رکن اور جمیعت علمائے اسلام کے بانی اراکین میں سے تھے۔
اگرچہ مفتی محمود کے نزدیک پاکستان بنانا گناہ تھا اور وہ اپنی جماعت و
مسلک سمیت ، قیامِ پاکستان کے گناہ میں شریک نہیں تھے تاہم انہوں نے اپنے
بیٹے فضل الرحمان کی طرح اس گناہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور وزیرِ اعلیٰ
سرحد بھی رہے۔آج جب مولانا فضل الرحمان یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم ۱۴ اگست
کو یومِ آزادی نہیں منائیں گے اور پاکستان کی فوج کو دھمکاتے ہیں تو اس
میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں چونکہ مولانا کی تنظیم، عقیدہ اور مسلک ہی
قیام پاکستان اور آزادی ِ پاکستان سے خوش نہیں ہے۔
مولانا کے ہم فکر اور ہم مکتب لوگ جہاں بھی ہیں وہ پاکستان اور افواج
پاکستان سے اتنی عداوت رکھتے ہیں کہ نہ صرف پاکستان کو کافرستان تک کہہ
جاتے ہیں بلکہ پاکستانی فوجیوں کے سروں سے فٹبال کھیلنا ان کا محبوب مشغلہ
بھی ہے۔ یاد رہے کہ مولانا اور ان کے ہمنوا، صرف اور صرف پاکستان میں زبان
چلانا اور ہتھیار اٹھانا جانتے ہیں۔
مولانا اور ان کے ارادتمندوں کے نزدیک صرف پاکستان کا بنانا ہی گناہ ہے یہی
وجہ ہے کہ وہ اپنے علمی و عقیدتی مرکز دیوبند سے کبھی بھی کشمیر کی آزادی
کے لئے کوئی ریلی نہیں نکالتے اور اسی طرح وہ اپنے دوسرے بڑے مسلکی مرکز
سعوی عرب سے بھی کبھی اسرائیل کے خلاف کوئی جلسہ جلوس نہیں نکالتے، چونکہ
ان کے نزدیک جیسے پاکستان کا بنانا گناہ ہے اسی طرح کشمیر اور فلسطین کے حق
میں کوئی جلسہ جلوس نکالنا بھی گناہ ہے۔اسی لئے مولانا فضل الرحمان ایک
لمبے عرصے تک کشمیر کمیٹی کے چئیرمین رہنے کے باوجود اخباری بیانات سے آگے
نہیں بڑھے۔
یہ اس وقت تک نا خوش رہتے ہیں جب تک انہیں شریکِ اقتدار نہیں کیا جاتا
،انہیں اگر شریکِ اقتدار کرلیا جائے تو یہ ہر سال بڑے شوق سے یومِ آزادی
مناتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان خیر سے بابائے طالبان بھی ہیں لال مسجد کی طرح ایک نہیں
ہزاروں مساجد ان کی سرپرستی میں چل رہی ہیں اور مولانا عبدالعزیز کی طرح
سینکڑوں برقعہ پوش مولوی حضرات ان کی آواز پر لبیک کہنے کو تلے ہوئے ہیں
لہذا ہمارے سیکورٹی اداروں کو چاہیے کہ وہ مولانا کی طرف سے ملنے والی
دھمکیوں کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور خصوصا ً یومِ آزادی کے موقع پر مولانا
کی آل و اولاد یعنی طالبان ، اپنے باپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کسی بھی
قسم کی گھٹیا حرکت کر سکتے ہیں، اس لئے ہمارے سیکورٹی اداروں کو چوکس رہنے
کی ضرورت ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ مجموعی طور پر اہلیانِ پاکستان نے مولانا اور ان کے مکتب کے
ساتھ کوئی متعصبانہ رویہ نہیں اپنایا لیکن ان لوگوں کو جب بھی فرصت ملی
انہوں نے ملت پاکستان کو ڈسا ہے، پاکستان کے یومِ آزادی کے بائیکاٹ کا
اعلان کر کے مولانا نے در اصل اپنی تاریخی شناخت پر مہرِ تصدیق ثبت کردی
ہے۔ اس میں ہمارے لئے بھی یہ درس ہے کہ جب تک ہماری صفوں میں اس قماش کے
لوگ موجود رہیں گے تب تک ہمیں اپنی فوج کے ساتھ مل کر اپنی نظریاتی و
جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔ |