جس طرح تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اِسی طرح دنیا کے
ہر جمہوری عمل کو آگے بڑھانے اور چلانے کے لئے سب کو ساتھ لے کرچلنا ہوتاہے
اور جمہوریت میں تو بہت کچھ ہوتا ہے ،یہ تو کچھ بھی نہیں ہے، ابھی تو بہت
کچھ برداشت کرنا ہوگا ، ابھی تو خان نے اپنوں کو اتنا ہی کہا ہے کہ یہ وقت
بے سوچے سمجھے بولنے اور کسی خوش فہمی میں آن کر بے وقت کی راگنی چھیڑنے کا
نہیں ہے۔ ابھی توسب کی سُنیں اور برداشت کریں ، اِس لئے کہ یہی وقت ہے،
حکومت بنا نے اور کرنے کا اور منزلیں پانے کاہے، جب حقیقی معنوں میں
تلواریں نیام میں رکھیں گے ،توسب کو ساتھ لے کر بہت کچھ حاصل کر لیں گے ۔یہ
ٹھیک ہے کہنے والے نے یہ کہہ تو دیاہے۔ مگر کہنے والے نے یہ نہیں بتایا ہے
کہ آخر کب تک تلواریں نیام میں رکھیں ؟ اِس سوال کا بہت سادہ اور آسان جواب
یہی ہے کہ فی الحال ، جیسا حکم مِلا ہے،اِس پر سختی سے عمل عمل بس عمل
کرناہے۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے خان کی ٹیم کے ہر فرد کو اگلے آنے والے ہر سیکنڈ کے
بعدسے لے کرحکومت بنا نے اور اِس کی دائمی پانچ سالہ مدت پوری کرنے اور خان
کے اگلے کسی اشارے یا حکم تک اِسی پر عمل کرنا ہے ، اِسی میں سب کی بھلا ئی
ہے ورنہ ؟ پہلے والوں اور اِن میں کوئی فرق نہیں رہے گا؛
آج خان کا وقت کی نزاکت کو بھانتے ہوئے ، اِتنا کہہ دینا ہی اپنوں اور اپنے
اتحادیوں کے لئے کا فی ہے کہ اگر پاکستان اور عوام کو مسائل ، بحرانوں اور
پریشانیوں سے نجات دلا کر آگے لے جانا ہے تو ہم سب کو ایک دوسرے کو برداشت
کرتے ہوئے اپنی تلواروں کو نیام میں لازمی رکھنا ہوگا ۔ ایسا اِس لئے بھی
کرنا ضروری ہے کہ خان صاحب سمجھتے ہیں۔ آج پاکستان کو آگے بڑھانے کے لئے
صبروبرداشت اور عفوودرگزر سے اچھا کو ئی عمل کارآمد نہیں ہوسکتاہے، لہذا
اَب ہمیں اِس سے ایک انچ بھی آگے جا نے اور اپنی مرضی چلانے کی ضرورت نہیں
ہے ۔ اگرپھربھی کو ئی اِس سے تجاوز کرے گا؛تو دوسروں کی ناراض گی اور اپنی
بے قدری کا خود ذمہ دار ہوگا۔اَب ایسا بھی بھلا کیا تھا ؟کہ فردوس شمیم
نقوی لب گشا ہوئے اور ایسے ہوئے کہ اپنوں کو ہی ناراض کر گئے ، اگر یہ
برداشت کرلیتے تو کیا ہوجاتا؟، اِنہیں یہ سب کچھ نہیں کہنا چاہئے تھا جیسا
کہ یہ اپنے نومولود کراچی کے اتحادیوں سے متعلق کہہ گئے ہیں،اِس موقع پر
راقم کا خیال یہ ہے کہ اگر ابھی سے عمران خان کے فردوس نقوی شمیم جیسے
ساتھیوں نے خودکو نہ سنبھالا تو ممکن ہے کہ خان کے ایسے نا سمجھ ساتھی جلد
ہی عمران خان کی حکومت کو مشکلات سے دوچار کرنے میں دیر نہیں لگا ئیں گے
اور وقت گزرنے کے ساتھ خان کی حکومت بھی اندرونی طور پر کھوکھلی ہوتی جا ئے
گی اور پھر عمران خان کی اکلوتی حکومت میں بھی کئی چوہدری نثار علی خان،
پرویز رشید جیسے اور بہت سے حکومت کو نقصان پہنچا نے والے پیدا ہوجا ئیں
گے۔
بہر کیف ،پی ٹی آئی کے ہاتھ اقتدار کی مسند آنے والی ہے جس کے لئے صدرمملکت
ممنون حسین نے قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس پیر 13اگست کو طلب کرلیاہے ،
نومنتخب ارکان حلف اُٹھا ئیں گے ، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب بھی اِسی
رو ز ہوگا ؛ جب کہ 18اگست کو مملکت پاکستان نے نئے نامزد وزیراعظم محترم
المقام عزت مآب عمران خان بطور وزیراعظم اپنا حلف اُٹھا ئیں گے ، منسٹر
انکلیو میں رہیں گے ،جس کے ساتھ ہی نو منتخب وزیراعظم عمران خان اپنے سب کو
ساتھ لے کر چلنے والے عزم کو لئے مُلک اور عوام کی تقدیر بدلنے کے لئے
پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے ، مُلک کوقرضوں سے نجات دلانے اور غیر
مستحکم مُلکی معاشی و اقتصادی ڈھانچے کواستحکام بخش بنانے کے لئے اقدامات
اور احکامات صادر فرمانے کی شروعات کردیں گے ۔
جبکہ مُلکی ترقی اور خوشحالی کے حوالے سے پچھلے دنوں پہلے ہی پاکستان تحریک
اِنصاف نے اپنے سو دن کے ترجیحی پروگرام میں کراچی کو ایک سو دن میں تبدیل
کرنے کے لئے اِنقلابی اقدامات اُٹھانے کا فیصلہ کر لیاہے یہ فیصلہ بنی گلہ
میں چیئرمین عمران خان کی زیرصدارت ہونے والے تحریک انصاف سندھ کی
پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کیا گیا اجلاس میں بالخصوص سندھ کی صورتِ حال
پر کھل کر بات چیت بھی کی گئی جبکہ اندر سے باہر آنے والی کچھ باتوں سے
معلوم ہوا ہے کہ اِس دوران عمران خان نے پی ٹی آئی کراچی کے صدر فردوس شمیم
نقوی کے بیان پرناراضگی کا اظہار کیا اور آئندہ محتاط رہنے کی ہدایت بھی
کردی ہے ۔ جیسا کہ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے فردوس شمیم
نقوی کاکہناتھاکہ’’ پارٹی چیئرمین نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِس وقت
ہمارے نزدیک حکومت بنانا اور کرنا سب سے اہم ہے، تلواریں نیا م میں رکھیں
،‘‘ صاف ظاہر ہے کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ اِن کے ساتھی تلوار نمااپنی
زبانیں بند رکھیں تو اچھاہے ورنہ ؟کسی غرور اور تکبر کی وجہ سے اِن کے نئے
پرانے پارٹی کے عہدے داروں اور کارکنان کی قینچی کی طرح کترنے والی زبانیں
بنابنایاسارا کام اور اِن کی حکومت کتر کر رکھ دیں گی سو آج کے بعد پی ٹی
آئی کے تمام ساتھیوں پر لاز م ہے کہ سب اپنی تلوار کی طرح زخم لگا نے والی
اپنی زبانیں بند ہی رکھیں تو بہت اچھا ہوگا تاہم جب فردوس شمیم نقوی سے خبر
نویسوں نے یہ سوال کیا کہ ایم کیو ایم سے اتحاد مجبوری ہے یا نہیں؟؟ اِس کا
جواب فردوس شمیم نقوی نے کچھ یوں دیا کہ عمران خان نے خاموش رہنے کا کہا ہے
اِس لئے خاموش رہوں گا ؛
جبکہ خبر کے مطابق یہاں یہ امرقابلِ ستا ئش ہے کہ فردوس شمیم نقوی نے میڈیا
سے بات چیت میں بتایاکہ عمران خان نے کہا ہے کہ جب تک کراچی میں ترقی نہیں
ہوگی پاکستان میں نہیں ہوگی، اِسی لئے عمران خان نے لوکل باڈیز کو مضبوط
کرنے کے لئے اقدامات پرزور دیتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں ہمارا مقابلہ
پیپلز پارٹی سے ہے ؛عمران نے سندھ کو بدلنے اور اِس کی بہتری کے لئے مکمل
تیاری کرلی ہے اور آئندہ دورسندھ میں پی ٹی آئی کا ہوگا‘‘۔اِس سے انکار
نہیں ہے کہ ابتدا ئی دِنوں سے ہی عمران خان کی حکومت کو کئی معاشی بحرانوں
کے مدوجزراور بہت سے کٹھن چیلنجز کا سامناکرنا پڑے گا ۔جو عمران خان اور
اِن کی کابینہ کے لئے بڑا امتحان ہوگا ،اَب دیکھنا یہ ہے کہ نئے پاکستان کی
تبدیلی اور مُلک کو مدینہ جیسی ریاست بنا نے کا عزم رکھنے والے عمران خان
اِس امتحان میں کتنے نمبروں سے کامیاب ہوتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ اِن
میں چیلنجز سے نمٹنے یا امتحانات میں اچھے نمبروں سے کامیاب ہونے کی صلاحیت
نہیں ہے یہ باصلاحیت ہیں مگر دیر سویر تو ہوجائے گی۔ بس سب کو اچھے نتائج
کے لئے انتظار کرناہوگا ؛اِس لئے کہ عمران خان کو چیلنجزسے نبرد آزما ہونے
کے لئے لازمی طور پر کئی کڑوی گولیاں نگلنے جیسے فیصلے بھی کرنے ہوں گے،آج
جس کے لئے عمران خان اور قوم کو قربانیاں دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا
ہوگا۔(ختم شُد) |