آج 14 اگست 1918 ہے تمام قوم آزادی کی خوشیاں پورے جوش و
جذبے سے منا رہی ہے، آج سے اکہتر سال قبل 14 اگست 1947 کو ہمارا پاکستان
معرض وجود میں آیا ہم نے تقریباً 200 سال آزادی کی لڑائی لڑنے کے بعد
انگریز کے تسلط سے خود کو آزاد کر وایا۔
آزادی ایک انمول نعمت ہے، اس کی قدر اس پرندے سے پوچھیں جو ہر روز پنجرے
میں ہزاروں بار پھڑپھڑا تا ہے ، آزادی کی قدر اس قیدی سے پوچھیں جو زنداں
سے آنے والی سورج کی روشنی کے لئے تڑپتا ہے، آزادی کی قدر ان مائوں سے
پوچھیں جن کے لال آزاد پاکستان کی حسرت لئیے کسی ظالم کی برچھی یا تلوار کی
نظر ہو گئے، آزادی کا فلسفہ اس ماں سے پوچھیں جس نے اپنی نوجوان بچیوں کو
اپنی آنکھوں کے سامنے درندگی، حیوانیت اور ہوس کا شکار ہونے کے بعد زندگی
کی قید سے آزاد ہوتے دیکھا یا ان لوگوں سے پوچھیں جنھوں نے اس آزادی کو
قائم رکھنے کے لئیے اپنے لال اس پاک مٹی کی نظر کر دیئے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم آزادی کی خوشیاں تو بڑے جوش و خروش سے مناتے
ہیں، گھروں پر جھنڈیاں بھی لگاتے ہیں مگر اکہتر سال گزرنے کے باوجود آزادی
کے تصور سے نا آشنا ہیں ہم وہ غلام ہیں جنہیں اپنی اسیری کا علم ہی نہیں جو
آج بھی خود کو آزاد سمجھنے کی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ چلیں آج آپ کو آزادی
سے آشنا کرواتے ہیں اور فیصلہ آپ پر چھوڑ دیتے ہیں کہ کیا واقعی ہم آزاد
ہیں یا گوروں سے آزادی پانے کے باوجود ابھی بھی حالتِ غلامی میں ہیں۔
غور سے سنیں آئین پاکستان کے مطابق اقتدار اعلی کی مالک خدائے بزرگ و برتر
کی ذات ہے، ہمارے مذہب کے مطابق خدائے بزرگ وبرتر کے علاوہ کسی کے آگے
جھکنا جائز نہیں۔ آزادی کا فلسفہ انہی دو بنیادی نکات پر مشتمل ہے، ہر وہ
شخص آزاد ہے جو خداوند تعالیٰ، اس کے رسول اور اہل بیت کی تعلیمات کے علاوہ
کسی کے حکم کا تابع نہ ہو۔ ہم تو کبھی نظام کے تابع نظر آتے ہیں، کبھی
نظریہ ضروریت، کبھی ٹھیکیدارانِ اسلام، کبھی عدلیہ تو کبھی فوج باقی رہی
سہی کسر ہماری فرسودہ روایات پوری کر دیتی ہیں تو ایسی صورت حال میں کیا
واقعی ہم آزاد قوم ہیں؟
جس معاشرے میں مسلمان اور کافر ہونے کی اسناد کھلے عام تقسیم ہورہی ہوں،
جہاں ہر شخص کو اپنا دین اللہ بزرگ وبرتر کے علاوہ دین کے ٹھیکیداران کے
سامنے ثابت کرنا پڑے، جہاں حب الوطنی کا معیار ہر غلط و صحیح کے سامنے سر
تسلیم خم کرنا ٹھہرے، جہاں امیر اور غریب کے لئیے الگ الگ قانون وضع ہوں ،
جہاں آزادیِ اظہار پر ہمہ وقت پہرا ہو کیا وہ ملک آزاد ہے؟
جی ہر گز نہیں ہم نے گوروں کو تو بھگا دیا لیکن آج بھی انھی کے قوانین پر
عمل پیرا ہیں، کل تک گورے حکمران تھے آج ہم سسٹم کے غلام ہیں۔ ہم اس وقت تک
آزاد نہیں ہو سکتے جب تک ہم نہ صرف خود بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو یہ
شعور نہ دے دیں کہ یہ ہمارا ملک ہے، ہم سب کا ملک ہے، کسی ایک خاص طبقے،
فرقے، مذہب، لسانیت سے اسکا کوئی تعلق واسطہ نہیں ، ہم اس ملک کے معمار ہیں
، ہم اس ملک کے مالک بھی ہیں اور خدمتگار بھی۔ اس ملک میں رہنے والا ہر
شہری مساوی حقوق رکھتا ہے ، اس ملک کے قوانین ہر شخص پر قابل عمل ہیں، اس
ملک کے قوانین انسانیت کی بالادستی سے متصادم نہیں، اس ملک میں ہر شخص کو
زندہ رہنے کا مساوی حق حاصل ہے، جب ہم ان بنیادی نکات پر عمل درآمد یقینی
بنا لیں گے تب اس حقیقی آزادی کا لطف حاصل کر سکیں گے جس کا خواب قائد اعظم
محمد علی جناح اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ ہم ان اس نظام کو ٹھیک کرنا
ہے، تبدیلی کا آغاز اپنی ذات سے کریں اور اس ملک کو عظیم سے عظیم تر بنانے
میں اپنا کردار ادا کریں۔
بقول اقبال
یقین محکم عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں |