الیکشن ہوئے دو ہفتوں سے زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ لیکن ابھی
تک کوئی ایک پارٹی اپنی واضح اکثریت ثابت نہیں کرسکی۔ اس وقت صورتِ حال کچھ
اس طرح بن رہی ہے کہ پی ٹی آئی مختلف پارٹیز کو ملا کر مخلوط حکومت بنا رہی
ہے۔ جب کہ متحدہ اپوزیشن نے بھی شہباز شریف صاحب کو اپنا وزیراعظم نامزد کر
دیا ہے۔ اب گیند کس کے کورٹ میں ہے اور گول کون کرے گا یہ تو وقت بتائے گا۔
لیکن جو موجودہ صورتحال نظر آرہی ہے اس کے مطابق تو عمران خان صاحب ہی وزیر
اعظم بن سکتے ہیں۔ کہ ہر ملک کا سفیر ان کو سلام کرنے آرہا ہے۔ میڈیا میں
ان کی ہی باتیں آرہی ہیں۔ انھوں نے اپنی ایک کابینہ تشکیل دے دی ہے، فلاں
فلاں فلاں وزیر ہوں گے، فلاں اسپیکر اور فلاں ڈپٹی اسپیکر۔ یعنی تقریباً سب
کچھ مفصل ہو چکا ہے۔جب کہ دوسری طرف متحدہ اپوزیشن کی طرف سے سوائے وزیر
اعظم کی نامزدگی کے اور کوئی خبر نہیں آرہی۔ مزے کی بات ہے کہ عمران خان
صاحب نے ان پارٹیوں سے ہاتھ ملایا ہے جن کو ماضی میں، زیادہ نہیں ماضی قریب
میں ہی کرپٹ اور ڈاکو اور معلوم نہیں کن کن خطابات سے نواز ا جاچکا ہے۔ اور
اس سے پہلے اپنی پارٹی میں ہر دوسرے کرپٹ انسان کو ٹکٹ دے کر ان کو ایم این
اے اور ایم پی اے بنایا ہے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن جو گڑبڑ ان باتوں
کے نتیجے میں اب شروع ہو گی اس کا کیا ہوگا؟
پہلی گڑ بڑ جو ہونے جارہی ہے محمود خان صاحب کو صوبہ خیبر پختونخواہ کا
وزیرِ اعلیٰ نامزد کرنا ہے۔ ان محترم کو 2014 میں صوبے کے شاید اسپورٹس کے
کوٹہ کے صوابدیدی فنڈ سے صرف اٹھارہ لاکھ روپے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں
ٹرانسفر کرنے کا الزام ہے۔ جس کی بنا پر شاید انھیں برطرف بھی کیا گیا تھا۔
سونے پہ سہاگہ کاشف عباسی صاحب نے جب فواد چوھدری صاحب سے یہ سوال کیا کہ
آپ اس کو نامزد کر رہے ہیں جن پر یہ چارج لگا ہے اور ثابت ہوا ہے۔ تو فواد
چوھدری صاحب نے جواب دیا کہ کیا فرق پڑتا ہے، صرف اٹھارہ لاکھ ہی تو کرپشن
کی ہے۔ اس بات پر ایک کہانی یاد آگئی۔ ایک شخص کو ڈاکہ زنی کے دوران ایک
قتل کرنے کی وجہ سے پھانسی کی سزا ہو گئی۔ جج نے اس سے آخری خواہش پوچھی۔
اس نے کہا کہ وہ اپنی ماں کے کان میں کچھ کہنا چاہتا ہے۔ جج نے اجازت دے دی۔
جب اس کی ماں قریب آئی اور کان اس کے ہونٹوں کے قریب کیا تو اس شخص نے ماں
کے کان پر اس زور سے کاٹا کہ کان بس ایک کھڑنے سے بچ گیا، باقی اچھا خاصا
زخمی ہو گیا۔ ارد گرد کھڑے پولیس والوں نے اس کی ماں کو بچایا۔ جب جج نے
پوچھا کہ اس نے یہ کیا کیا ہے تو اس شخص نے جواب دیا کہ بچپن میں جب پہلی
دفعہ چوری کی تھی تو ایک محلے دار خاتون نے آکر ماں کو بتایا تھا۔ تو ماں
نے یہ کہہ کر کہ بچہ ہے، خود ہی سمجھ جائے گا بات ختم کر دی تھی۔ اس کے بعد
پھر میں نے چوری کی، پھر اسی طرح ہوئی۔ یہاں تک کہ میری عادت پختہ ہو گئی۔
اور آج نوبت یہاں تک آگئی کہ مجھے تختہ دار تک پہنچا دیا۔ اگر ماں پہلی
چوری کا ہی سن کر مجھے دو تھپڑ لگا دیتی، کوئی سزا دیتی تو آج یہ صورت حال
نہ ہوتی۔
تو فواد چوھدری صاحب اب یہ نہ کہیں کہ ان کو اس چوری کے بعد ان کو ان کی
وزارت سے ہٹا بھی تو دیا گیا تھا۔ جناب عالی، ان کو سزا تو کوئی نہیں دی نا۔
ان کو نہ تو پولیس کے حوالے کیا، نہ نیب نے کچھ کہا، نہ ایف آئی ان کے
پیچھے لگی۔ تو چور کو سزا تو نہ ملی۔ تو جب ان کے پس چھوٹا اختیار تھا تو
انھوں نے چھوٹی کرپشن کی۔ اب بڑا اخیتار ملنے والا ہے تو کیا خیال ہے؟ جب
نوشہرہ کے ایک جانے مانے سمگلر اپنے کالے دھن کو پانچ سال میں سفید کر سکتے
ہیں تو یہ موصوف کیا کیا کارنامے انجام نہ دیں گے؟
خان صاحب کے لیے بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ سب سے پہلے تو ان کی اتحادی جماعتیں۔
کہ ایک نے تو ابھی سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ ہماری مجبوری نہیں، ہم ان
کی مجبوری ہیں۔ ہمارے بغیر ان کی حکومت نہیں بن سکتی۔ تو بعد میں وہ کیا
کیا بلیک میلنگ نہ کریں گے۔ جب کہ وہ تو مشہور ہی اس کام کیلیے ہیں۔ اس کے
بعد ان کی اپنی پارٹی میں شامل وہ کرپٹ افراد، جب جب تک نون لیگ میں تھے تو
صاف تھے، اور پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تو کرپٹ ہو گئے، انھوں نے کیا کچھ
نہیں کرنا۔ جب آپ انھیں ان کے غلط کاموں سے روکیں گے تو انھوں نے مل کر
کبھی نہ کبھی فارورڈ بلاک بنا دیتا ہے۔ پھر خان صاحب آپ کی حکومت کا کیا ہو
گا؟ ابھی سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ شاید ہی دو سے تین سال نکال پائے۔ اور
حالات ایسے ہی لگتیہیں۔ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی باہمی چپقلش
بھی آپ کو کچھ نرم فیصلے کرنے پر مجبور کرے گی۔ لیکن پھر بھی میری اور اس
پاکستان کے ہر محب وطن کی نظریں آپ پر ہیں کہ اﷲ کرے آپ اس پاک وطن کیلیے
جو امید کی نئی کرن بن کر آئے ہیں اس دیس کے لیے کچھ اچھا کر سکیں۔ یقیناً
آپ کو بہت تلخ فیصلے لینے پڑیں گے، لیکن آپ کے لینے ہوں گے۔ آپ کا متوقع
وزیرِ خزانہ ابھی سے نعرے لگا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس ایک دفعہ کم از
کم ہاتھ پھیلانا پڑے گا۔ میرا سوال ہے کہ کیا آئی ایم ایف کے علاوہ اور
کوئی حل نہیں ہے؟ بہت سے ہیں۔ آپ عوام میں اپنا اعتماد بڑھائیں۔ صرف پہلے
چھ ماہ میں کچھ ایسے فیصلے کر لیں جو اس ملک کے لیے، عوام کے لیے بہت بہت
فائدہ مند ہوں۔ تو پھر آپ صرف اس دیس کے عوام کو ایک بار کہہ کر دیکھئے گا،
اس دیس کا قرضہ کیسے اترتا ہے؟ آزمائش شرط ہے۔ |