’’نئے پاکستان ‘‘کی نئی خارجہ پالیسی ؟

پاکستان میں عام انتخابات کے بعد پاکستان کی نئی حکومت کو لیکر امریکا سمیت کئی یورپی ممالک دلچسپی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے وکٹری اسپیچ کی تو مغربی ذرائع ابلاغ نے خصوصی کوریج کرتے ہوئے کسی پاکستانی سیاست دان کی تقریر کو پہلی بار براہ راست نشر کیا ۔ یہ کسی بھی ممکنہ وزیر اعظم بننے کے حوالے سے بڑھتی دلچسپی کا اہم عنصرتھا کہ ابھی پاکستان کے نئے وزیر اعظم بننے کے خدوخال واضح بھی نہیں ہوئے تھے کہ مغربی ذرائع ابلاغ نے عمران خان کی جانب خصوصی توجہ مبذول کرلی۔پاکستان میں عام انتخابات پر بھارت کا ووایلا حیران کن ثابت ہوا ۔ بھارتی میڈیا نے جس طرح عام انتخابات میں عمران خان کی جماعت کی کامیابی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کئی بھارتی سیاست دانوں نے الیکشن کے نام پر ریاستی اداروں پر دشنام طرازی کی۔یہ عمل بھارتی میڈیا کی سطحی سوچ کی غمازی کررہا تھا کہ انہیں پاکستان کی نئی حکومت سے زیادہ حساس اداروں سے پریشانی لاحق ہے۔ اس کی اب کوئی بھی وجوہات تراش لی جائیں یا سابق وزیر اعظم کے ساتھ بھارتی وزیر اعظم کا دوستانہ و کاروباری رویہ ۔ لیکن بھارتی میڈیا اور سیاست دانوں کی چیخ و پکار نے سمجھنے کا موقع فراہم کیا کہ بھارت ، نئی حکومت بننے کی آڑ میں ریاستی حساس اداروں کو متنازع بنانا چاہتا تھا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اکثریتی جماعت کے فاتح ہونے کے بعد اپنے تقریر کے دوران کہاکہ بھارتی میڈیا نے انہیں ایک ’’ولن‘‘ کے طور پر پیش کیا ۔عمران خان کے تحمل اور سیاسی مدابرانہ موقف کے بعد بھارتی میڈیا سے نفرت کا شوروغوغا کم ہوا ۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جو موقف دیا اسے حریت پسند کشمیری قیادت نے بھی سراہا ۔

بھارتی میڈیا کے واویلا و چیخ وپکار میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے عمران خان کو کامیابی پر مبارکباد دینے کے لئے فون کیا جانا سرپرائز تھا ۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستانی سیاست دان عمران خان کو پیر 30جولائی کے روز ٹیلی فون کر کے انہیں پاکستان میں 25 جولائی کو منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی پر مبارک باد دی۔ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے میڈیا سیل کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا کہ اس گفتگو کے دوران ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے عمران خان سے، جن کا پاکستان کا اگلا وزیر اعظم بننا یقینی ہے، کہا کہ بھارت میں مودی کی قیادت میں ملکی حکومت پاکستان کے ساتھ ’تعلقات کے ایک نئے دور کے آغاز کے لیے تیار‘ ہے۔ نریندر مودی نے عمران خان کے ساتھ ٹیلی فون پر اس گفتگو میں یہ بھی کہا کہ دونوں ہمسایہ ممالک کو اپنے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی خاطر ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔پی ٹی آئی کے میڈیا سیل کے مطابق اس بات چیت میں عمران خان نے نریندر مودی کی طرف سے نیک خواہشات کے اظہار پر بھارتی وزیر اعظم کا شکریہ بھی ادا کیا۔عمران خان نے اپنی پارٹی کو پاکستان کی وفاقی پارلیمان میں ملنے والی انتخابی برتری کے بعد اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ ان کی قیادت میں جو نئی ملکی حکومت بنے گی، اس کی کوشش ہو گی کہ پاکستان کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوں۔عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے بھارت پاکستان کی طرف ایک قدم بڑھے گا تو پاکستان بھارت کی طرف دو قدم بڑھائے گا۔

پاکستان نے بھارتی وزیر اعظم کے بیان کو مثبت لیا ۔ اس کا اظہار پاکستان کی وزرات خارجہ کے ترجمان کی جانب سے خیر مقدمی طور پر بھی کیا گیا ۔ تاہم پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی نوعیت اس قدر نرم نہیں ہوئی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف ،بھارتی وزیر اعظم کو تقریب حلف برداری کے لئے باقاعدہ مدعو کرتی ۔ اس کا فیصلہ پی ٹی آئی نے دفتر خارجہ اور دفتر خارجہ نے عمران خان پر چھوڑ دیا تھا ۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان سرد تناؤ کے بدترین تعلقات میں آنے والے دنوں میں نئی حکومت کی جانب سے خارجہ پالیسی کا بنانا اہم ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور حریت پسندوں کے خلاف بھارتی ریاستی دہشت گردی کو کس طرح عالمی برادری میں لے جایا جاسکتا ہے۔ ماضی میں بعض سیاسی حلقے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں کہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ’ درست ‘نہیں لڑا ۔ عالمی فورم میں مسئلہ کشمیر کو درست طریقے سے ’اجاگر‘ نہیں کیا ۔ نیز سابق وزیر اعظم پر الزامات بھی عائد کئے جاتے رہے کہ وہ ’’بھارت نواز ‘‘ہیں یہاں تک کہ ایک ’متنازعہ انٹرویو ‘پر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ’’غدار‘‘ بھی قرار دے دیا گیا ۔ ممبئی حملوں کے’ متنازع انٹرویو ‘پر جس طرح میاں نواز شریف کو لتاڑا گیا اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ گو کہ میاں نواز شریف نے اپنے’ متنازع انٹرویو‘ کے حوالے سے تاویلات پیش کرنے کے بجائے ’ مخصوص‘ نکتہ نظر پر بحث کی ضرورت پر زور دیا ، لیکن ’متنازع انٹرویو ‘خود میاں نواز شریف کے گلے پڑ گیا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر شہباز شریف نے متنازع انٹرویو پر کئی وضاحتیں دیں لیکن میاں نواز شریف کی جانب سے ان کی تمام وضاحتوں کو ردکردیا گیا ۔وقت کی دھول کے ساتھ یہ معاملہ بھی’’ ڈان لیکس‘‘ کی طرح بیٹھ گیا اور انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی نے میاں نواز شریف کے ’متنازع انٹرویو‘ کو بھی دبا دیا ۔ اس’ متنازع انٹرویو ‘سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر منفی تاثر ابھرا تھا اور بھارتی میڈیا نے میاں نواز شریف کے انٹرویو کے ایک حصے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر اس طرح پیش کیا کہ پاکستانی میڈیا بھی بھارتی پروپیگنڈے سے ’’متاثر ‘‘ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے عمران خان کو فون کئے جانا بھارتی میڈیا کے منہ پر زوردار طمانچہ ثابت ہوا اور بھارتی میڈیا کا شوروغوغا کسی اخلاقی اقدار کے بغیر اس قدر بلند ہوا کہ بالاآخر عمران خان کی متحمل تقریر اور مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پر سنجیدہ بیان نے بھارتی میڈیا کوسرنگوں کردیا ۔ گو کہ عمران خان نے بھارتی وزیر اعظم اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے درمیان تعلقات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیاتھا لیکن جب نریندر مودی نے عمران خان کو فون کیا تو وہ بات کرنے سے انکار نہ کرسکے۔تاہم سیاسی تعلقات کی بہتری کے لئے پاکستان و بھارت کا مذاکرات کی میز پر آنا ناگزیر ہے ۔ خاص کر جب کنڑول لائن سے بھارتی دراندازیوں سے نہتے و بے گناہ پاکستانی شہریوں کی شہادتیں دن بدن بڑھتی جا رہی ہوں ، شہری آبادی کو بلا جواز نشانہ بنایا جاتا ہو اور مقبوضہ کشمیر میں جس سفاکیت کے ساتھ تحریک آزادی کو کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہو ان حالات میں پاکستان اور بھارت کو باہمی مسائل کے حل کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ نئی حکومت کے لئے بھارت کے ساتھ برابری کے بنیاد پر تعلقات ایک بڑا چیلنج کی صورت میں سامنے ہوگا ۔خاص طور پر خطے میں اسلحے کی دوڑ میں بھارتی جنونیت کی کمی ، امریکا کی جانب سے بھارت کو آشیر باد ، بھارت کے ساتھ پاکستان کے مقابلے میں امریکی پالیسیوں کا دوہرا معیار ، اسلحے کی دوڑ میں بھارت کی سرپرستی اور مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے کالے قوانین کا سہارا لیکر یہودی ریاست کی طرز پر انتہا پسند ہندوؤں کی آباد کاری کی منصوبوں کو روکنا نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کے’’ تعین‘‘ ہونے پر ہی ممکن ہوگا کہ سابق وزیر اعظم کے مقابلے میں عمران خان اپنے وعدوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے تنازعے کے حل کے لئے عالمی برادری کو کس قدر قائل کرنے میں کامیا ب ہوسکتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو خطے کے اہم کردار افغانستان کے صدر اشرف غنی کی جانب سے بھی فون کیا گیا۔اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نعیم الحق نے بتایا کہ افغان صدر اشرف غنی نے عمران خان کو ٹیلی فون کیا اور انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی ہے۔نعیم الحق کے مطابق افغان صدر کا عمران خان سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے تاریخی تعلقات ہیں اور دونوں ممالک بھائی چارے، ہمسائیگی اور دوستی کے دیرینہ رشتوں سے منسلک ہیں۔ترجمان تحریک انصاف نے بتایا کہ افغان صدر نے عمران خان کو افغانستان کے دورے کی پیشکش کی ہے جسے عمران خان نے قبول کر لیا ہے۔تحریک انصاف کے ترجمان کے مطابق مبارکباد اور نیک تمناؤں کے اظہار پر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے افغان صدر کا شکریہ ادا کیا گیا۔عمران خان نے اشرف غنی سے کہا کہ پاکستان افغانستان میں مکمل امن اور خوشحالی کا خواہاں ہے اور تحریک انصاف کی نگاہ میں پاک افغان تعلقات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ترجمان تحریک انصاف کے مطابق عمران خان نے اظہار تشکر کے ساتھ دورہ افغانستان کی دعوت بھی قبول کرلی اور کہا کہ حکومت سازی کا عمل مکمل ہوتے ہی افغانستان کا دورہ کروں گا۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی کی جانب سے ممکنہ وزیر اعظم کو دورے کی دعوت دینا اہمیت کا حامل ہے۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بڑا رخنہ بھارت کی مداخلت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔ امریکا نے بھی بھارت کو خطے کا تھانیدار بنانے کے لئے خصوصی مراعات و رسی دراز کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے تعلقات کو بتدریج سابق حکومت اور عسکری سربراہ کی جانب سے بہتر بنانے کی کوشش کی جا تی رہی ہے لیکن افغانستان کے مخصوص مفادات نے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لئے کسی بھی قسم کا کوئی اخلاقی معیار نہیں رکھا ۔ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لئے ہزاروں پاکستانیوں کی قربانیاں دیں ، اربوں ڈالرز کا مالی نقصان بھی برداشت کیا اور لاکھوں مہاجرین کو پاکستانی شہری کی طرح تمام تر آزادی کے ساتھ مملکت میں پناہ بھی دی ، لیکن افغانستا ن کی جانب سے پاکستان کے تمام مثبت اقدامات کا خاطر خوا ہ عملی جواب نہیں دیا گیا ، بلکہ پاکستان کے دشمن عناصر کو اپنی سرزمین میں پناہ دے رکھی ہے ۔ بارڈر منجمنٹ میں تعاون کے بجائے پاکستانی فوجی اہلکاروں پر سرحد پار سے حملے اور سرحدی علاقوں میں پاکستانی عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکانے جیسے ناپسندیدہ اقدامات نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مثالی تعلقات قائم کرنے میں دقت پیدا کی۔افغانستان میں سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر امارات اسلامیہ افغانستان( افغان طالبان) کو جب بھی کابل کی دوہری حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھانے کی کوشش کی گئی ، امریکا ، بھارت اور کابل گٹھ جوڑ نے ایسے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے ناکام بنایا ۔ یہاں تک افغانستان میں بعض مزاحمتی گروپوں نے بھی پاکستان کی ماضی کی حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے اعتماد کرنا کم کردیا ۔ کیونکہ پاکستان میں مہاجرین کے روپ میں ’’افغان مجاہدین ‘‘کو امریکا کی ایما پر بغیر کسی قانونی کاروائی کے حوالے اور گرفتار کرکے پاکستانی عقوبت خانوں میں رکھا اور امریکا کے کہنے پر انہیں’ رہا ‘بھی کیا جاتا رہا ۔ جس کا پاکستانیوں عدالتوں کو بھی علم نہیں ہوتا تھا ۔ اسی طرح امریکا، بھارت اور کابل گٹھ جوڑ کی وجہ سے امارات اسلامیہ نے پاکستان پر انحصار کم کرتے ہوئے ایران ، روس اور دیگر امریکا مخالف قوتوں سے تعلقات بڑھا لئے۔ پاکستان اور سعودی حکومت کا اثر رسوخ افغان طالبان پر نہایت کم ہوگیا لیکن اس کے باوجود امریکا نے پاکستان کو نئی جنگ میں الجھانے کے لئے مختلف النوع کے دباؤ بڑھائے۔ جس میں عسکری امداد کی بندش، سالانہ امداد میں کٹوتی اور کولیشن فنڈز کی فراہمی کے لئے بھی کڑی شرائط، پاک ۔بھارت تنازعے میں سرحدی معاملات میں جانب دارنہ بیانات ، سی پیک منصوبے پر تحفظات کے نام پر دباؤ، بھارت کی ایما پر حریت پسند کشمیریوں کی اخلاقی حمایت جاری رکھنے پر ایف ٹی ایف ، مذہبی انتہا پسند لسٹ میں نام ڈلوانے کے لئے امریکا کی خصوصی مہم نے پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کردیں۔ان حالات میں افغانستان کے ساتھ تعلقات میں اعتماد کے رشتے کو بڑھانے اور زمینی حقائق کے مطابق نئی حکومت کی خارجہ پالیسیوں کو اہمیت حاصل ہوگی۔ بنا ثبوت اور شواہد کو مد نظر رکھے بغیرکابل حکومت کا جانب دارنہ رویہ ایک بڑا چیلنج ہے ۔ گوکہ سابق حکومت نے افغانستان سے بہتر تعلقات کے لئے عسکری قیادت کے ساتھ ملکر ایک مربوط منصوبے پر کام شروع کیا ہوا ہے جس کے مثبت اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔عسکری قیادت اس بات اظہار کرتی ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہیں ۔ تاہم نئی حکومت کے لئے فوری بڑا چیلنج افغان مہاجرین کی باعزت واپسی ہے۔ گزشتہ حکومت عالمی دباؤ پر کئی بار افغان مہاجرین کے قیام کی مد ت میں اضافہ کرچکی ہے۔ نگران حکومت کو بھی اسی مسئلے کا سامنا رہا ۔ تاہم نئی حکومت کے لئے پہلا چیلنج یہی ہوگا کہ وہ افغان مہاجرین کی واپسی کی مدت میں توسیع کے بجائے ان کی باعزت واپسی کے لئے کابل حکومت کو رضا مند کرے تاکہ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس جاکر افغانستان کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے سکیں۔خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت پاک۔ افغان تعلقات میں عسکری قیادت کے ساتھ بہتر خارجہ پالیسی بنا سکتی ہے۔

پاکستان کے پارلیمانی انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی کے بعد متعدد ممالک کے وفود نے عمران خان کو مبارکباد دی اور خیر سگالی کے جذبات سمیت باہمی تعاون میں ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تاہم اس حوالے سے ایران کے صدر حسن روحانی کی جانب سے عمران خان کو ٹیلی فون اور ایران کے دورے کی دعوت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ایران کے صدر حسن روحانی نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کیلئے نامزد عمران خان کو ٹیلی فون کرکے انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی اور پاک ایران تعلقات و باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔حسن روحانی کا کہنا تھا کہ پاک ایران تعلقات میں مزید پختگی اور اضافے کے خواہاں ہیں۔حسن روحانی نے چیئرمین پی ٹی آئی کو دورہ ایران کی دعوت دی ، عمران خان نے ایران کے دورے کی دعوت قبول کرتے ہوئے کہا کہ انتقالِ اقتدار کا عمل مکمل ہوتے ہی دونوں ممالک کی وزارتِ خارجہ دورے کو حتمی شکل دے گی۔متوقع پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایران سے خصوصی تجارتی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ایران کی جانب سے عمران خان کو سرکاری دورے کی دعوت اور ایران کے ساتھ غیر جانب دارنہ تعلقات میں وسعت بھی نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان نے سعودی اتحاد میں اپنے سابق فوجی سربراہ کی قیادت میں شمولیت پر این او سی جاری کرکے ایران کے تحفظات دور کرنے کی کئی کوششیں کیں ۔ پاک۔ ایران گیس لائن منصوبے کو امریکا کے دباؤ پر روکنے کے معاملے نے بھی ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کی۔ خاص طور پر ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں مسلکی شدت پسندی اور یورپ جانے والے غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کرنے والوں کے بڑھتے واقعات پاکستان ۔ ایران کے درمیان سرد مہری کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ غیر سرکاری طور پر ایران پر بھی الزامات ہیں کہ وہ مبینہ طور پرمبینہ فرقہ وارنہ کالعدم تنظیموں کی سرپرستی کرتا ہے ۔ شام کی جنگ میں پاکستانیوں کی بھرتی کرکے انہیں جنگجو بناکر تربیت دینے اور ایرانی شہریت دیتا ہے۔ خطے کے سب سے اہم منصوبے سی پیک منصوبے کے ردعمل میں بھارت کے ساتھ معاہدے کے سبب چاہ بہار بندرگاہ کی اہمیت بڑھانے کے لئے بلوچستان کے معاملات میں مداخلت جیسے کئی اہم معاملات بھی پاک۔ ایران تعلقات میں گراوہٹ کا سبب ہیں۔گو کہ سرکاری سطح پر پاک۔ ایران تعلقات میں ان معاملات کو زیر بحث لانا نہیں بتایا جاتا ، لیکن میڈیا رپورٹس یہی ظاہر کرتی ہیں کہ ایران کی جانب سے سعودی عرب ، یمن ، شام ، عراق ،لبنان اور اردن سمیت کئی مسلم ممالک میں مداخلت سے عرب ممالک پاکستان پر دباؤ بڑھاتے ہیں کہ ایران کے ساتھ تعلقات میں سختی پیدا کی جائے ۔نئی حکومت کے لئے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کا کردار کس قدر اہمیت کا حامل بن سکتا ہے ، فی الحال اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔ کیونکہ پاکستان کو معاشی معاملات میں عرب ممالک کے تعاون کی اشد ضرورت رہتی ہے اور پاکستان زر مبادلہ بھیجنے والوں کی افرادی قوت کی زیادہ تعداد عرب ممالک میں ہیں اس لئے پاکستان کو غیر جانب دارنہ پالیسیوں میں کلیدی کردار ادا میں مشکلات کا سامنا ہے۔

عالمی منظر نامے میں نئی حکومت کو اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کے علاوہ عالمی قوتوں، خاص کر امریکا کے مفادات کے چیلنج کا بھی سامنا ہوگا ۔ بھارت ، افغانستان اور ایران کے ساتھ پاکستان کے خارجہ تعلقات کا انحصار پاکستان کی واضح خارجہ پالیسی پر منحصر ہے۔ پاکستان کی بد قسمتی رہی ہے کہ خارجہ پالیسیاں ہمیشہ مقتدور قوتوں کے فروعی مفادات کی وجہ سے کبھی یکساں نہیں رہی ، ہر بدلتے موسم کی طرح پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی رنگ بدلتی رہی ہے ۔ عمران خان متعدد چھوٹے چھوٹے اتحادیوں کے ساتھ ملکر نئی مگر کمزور حکومت بنا رہے ہیں۔ ان کے سامنے بڑے بڑے چیلنجز ہیں جن سے انفرادی طور پر نبر الزما ہونا ان کے لئے یقیناََ ممکن نہیں ہوگا ۔ پاکستان تحریک انصاف کا موجودہ رویہ اور پارلیمنٹ کی بڑی اپوزیشن جماعتوں کا احتجاجی رویہ مستقبل کی حکومت کے استحکام کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار کے حصول کے لئے اپنے نظریاتی اساس پر لچک کا مظاہرہ کیا ہے ۔ پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت نہ ملنے کے سبب انہیں اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے لئے بھی نرم و لچکدار ہونا ناگزیر ہوگا ۔امریکا سمیت اتحادیوں کے ساتھ تعلقات تاریخ کی بدترین سطح پر ہیں ۔ نا مساعد مشکلات کا ایک بڑا پہاڑ ہے جیسے تقاریر سے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ خارجہ پالیسی کو دورس بنانے کے لئے نئی حکومت کو مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہوگی۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 743939 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.