آج قوم یوم آزادی منا رہی ہے۔آزادی انمول نعمت
ہے۔اس کی قدر و قیمت غلام قوموں سے معلوم کی جا سکتی ہے۔آج( 14اگست)اور
کل(15اگست) پاکستان اور بھارت نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی اور دنیا کے
نقشے پر آزاد اور خود مختار ممالک کے طور پر نمودار ہوئے۔ دونوں ممالک برٹش
پارلیمنٹ کے 18جولائی 1947ء کے انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ کے تحت آزاد ہوئے
اور دونوں کو 14اگست 1947ء کو آزاد ہونا تھا۔لیکن کانگریسی انتہا پسندی کا
یہ عالم تھا کہ وہ یہ جشن پاکستان کے ساتھ منانا تک گوارا نہ کر سکے اور
اسے ایک دن کی تاخیر کی نذر کر دیا گیا۔پاکستان کے لئے انگریزوں اور
کانگریسی انتہا پسند ہندؤں سے بھی آزادی کی جنگ لڑی گئی۔ اگست کی 14 تاریخ
کو پاکستان ایک آزاد وخود مختار ملک بن گیا ۔ پنجاب کے اس وقت کے یونینسٹ
اور سرحد کے خدائی خدمت گار کانگریس کی حمایت اور پاکستان کی مخالفت کی وجہ
سے سیا سی موت مر گئے۔قربانیاں دے کر آزادی اور مقام حاصل کرنے والوں کی
زمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔ پاکستان کو حاصل کرنے میں لاکھوں افراد
نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔قیام پاکستان کے وقت تاریخ کی سب سے بڑی
ہجرت ہوئی۔پاکستان میں 1951ء کو کئے گئے پہلے سروے میں یہ انکشاف ہوا کہ
ڈیڑھ کروڑ افراد نے ہجرت کی۔80لاکھ مسلمان پاکستان آئے اور 60لاکھ ہندو
پاکستان سے بھارت گئے۔اس دوران مختلف واقعات میں 10لاکھ لوگ مارے
گئے۔50ہزار مسلم خواتین کو اغوا کیا گیا۔ ہندوانتہاپسندوں نے برصغیر کی
تقسیم کے وقت مختلف قافلوں میں پاک سر زمین پر قدم رکھنے کے آرزو مند
مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا۔بزرگوں ،بچوں اور خواتین کو بھی نہیں بخشا
گیا بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں جوان عورتوں اور کم سن بچیوں کو اغوا کرنے
کے افسوسناک سانحات بھی پیش آئے ،آج بھی ان گمشدگان کی تلاش جاری ہے ۔یہ
کہنا اور سننا آسان ہے کہ فلاں شخص کی بیٹی یا بہن کو اغوا کرلیا گیا لیکن
عملی طور پر یہ سانحات پاکستان ہجرت کرنے والے ہزاروں خاندانوں کے ساتھ پیش
آئے ۔ ان کے لواحقین پر کیاگزری ہوگی؟اس بارے صرف سوچاہی جاسکتاہے اس دکھ
ودردکو محسوس کرنا انتہا ئی مشکل ہے۔ ہندوانتہاپسندوں نے تلواروں،کرپانوں
،سلاخوں اور برچھیوں پر مسلمان شیر خوار بچوں کو اچھالا ۔مسلمانوں کے
گھروں،املاک و باغات کو آگ لگادی ۔ بستیاں اور بازار راکھ بنادئیے گئے ۔ان
کی جائیدادوں پر قبضہ جمالیاگیا ،جو قافلے پاکستان کے لئے روانہ ہوئے ان کو
جگہ جگہ لوٹاگیا اور گاڑیوں کو آگ لگادی گئی۔لاتعداد لوگ زندہ جل
مرے۔لاتعداد عفت مآب خواتین کی حرمت کو پامال کیا گیا ۔ اس داستان الم کو
سن یا پڑھ کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔مسلمانوں کا اجتماعی قتل عام ہوا جو
مسلمان بھارت میں رہ گئے انہیں مشکوک، غداراور پاکستان کے ایجنٹ مسلمان
کہاجاتا ہے ۔ بھارت میں انتہا پسندوں کا آج بھی یہ نعرہ ہے ’’ہندو کا
ہندوستان، مسلمان کا قبرستان‘‘۔ برصغیر کے مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر تقسیم
ہوئی اور ہندو متحد ہو گئے۔ جنوبی ایشیا میں تقسیم کے منفی اور مثبت اثرات
مرتب ہوئے۔
آج پاکستان اور بھارت ایک بار پھر اپنی آزادی کی سالگرہ منارہے ہیں ۔بھارت
کی جانب سے سرحدوں کی پامالی اور فائرنگ کے پے در پے واقعات ،افغانستان میں
امریکی اور نیٹو فوج کے اڈے اور دشمنان اسلام کی برھتی ہوئی سازشوں سے
پاکستان متعدد چیلنجز کا شکارہے۔عمران خان ملک کے وزیراعظم بن رہے ہیں۔
دوسری طرف کشمیریوں کے خون سے چراغاں بھارت میں جشن ہے ۔کشمیریوں پر اس ماہ
بھارتی فورسز مظالم کے پہاڑ توڑ دیتے ہیں۔بھارتی ترنگا جھنڈیاں تقسیم ہوتی
ہیں ۔ انہیں گھروں ،گاڑیوں اور دکانوں پر لہرانے کے احکامات ملتے ہیں ۔
اگست کی آمد پرپوری وادی کشمیر میں غیراعلانیہ کرفیو نافذ کردیاجاتا ہے ۔15
اگست کو سب سے بڑی تقریب سرینگر کے بخشی سٹیڈیم میں ہوتی ہے۔ اس سٹیڈیم کے
گردونواح میں مہاراج گنج،ستھراشاہی ،بٹہ مالو،رام باغ ،گوگجی باغ ،لال منڈی
،جواہر نگر،راج باغ اور دیگر بستیوں سے لوگ بھارتی فورسز کے مظالم کے باعث
ہجرت کرجاتے ہیں۔ رہائشی گھروں پر بھارتی فوجی چوکیاں قائم کی جاتی ہیں
۔یہاں تک کہ اقبال پارک اور بچوں کے لعل دیدہسپتال کا محاصرہ کرلیا جاتا ہے
۔بچوں کے اس ہسپتال پر بھی بھارتی فوجی بنکر بنا کرمریضوں کو ہراساں کرتے
ہیں ۔پوری وادی کی سڑکوں پر جگہ جگہ کریک ڈاؤن ہوتے ہیں۔لوگوں کی تلاشیاں
لی جاتی ہیں ۔بستیوں کے تلاشی آپریشن کئے جاتے ہیں۔چھاپے ڈالے جاتے
ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔جیلوں سے
رہاہونے والوں کو نئے عتاب کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔انہیں کیمپوں اور
تھانوں میں حاضر کیا جاتا ہے۔اور یہی حال پوری مقبوضہ وادی میں ہوتاہے
۔بھارت اپنا یوم آزادی بڑے دھوم دھام سے کشمیر یوں کو گھروں میں بندکر کے
اور ان کی تمام آزادیاں چھین کرمناتا ہے ۔آزادی منانے کے لئے بھارت ہزاروں
کشمیر یوں کو فوجی کیمپوں پر حاضر ہونے ،نظربند کرنے اور غلامی کاتصوریاد
دلاتا ہے ۔اس دن شمالی بھارت میں آزادی پسندماؤ لوگ یوم سیاہ مناتے ہیں
،کشمیر میں بھی یوم سیاہ کے دوران عام ہڑتال ہوتی ہے اور سیاہ پرچم لہرائے
جاتے ہیں ۔عملی طور پر وادی میں سول کرفیونافذرہتا ہے ۔البتہ 14 اگست کو
لوگ عقیدت واحترام میں جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہراتے ہیں ۔ پاکستانی پرچم
کو سلامی دیتے ہیں ۔بازاروں میں اور رہائشی علاقوں میں بھارتی فورسز کی
موجودگی اور جارحیت کے باوجودلوگ چراغاں کرتے ہیں اور دعا کی جاتی ہے کہ اﷲ
تعالیٰ پاکستان کی طرح کشمیریوں کو بھی آزادی کی نعمت سے مالا مال کرے
۔پاکستان کے لئے بزرگوں نے جن قربانیوں کو پیش کیا ان کی وجہ سے اور اﷲ
تعالیٰ کے فضل سے پاکستان بنا۔ جن لوگوں نے 1947 ء کا قتل عام اور مسلمانوں
کے مصائب نہیں دیکھے وہ بھارتی ریاست گجرات اور اس کے بعد آسام میں
مسلمانوں کے قتل عام، خواتین کے ساتھ زیادتیوں، لوٹ ماراور اغواکی داستانیں
پڑ ھ ،دیکھ اور سن چکے ہوں گے ۔قیام پاکستان پر جو نفرت ہندوؤں میں تھی
اسکی گجرات ، سورت اور آسام کے واقعات ایک جھلک ہیں ۔برصغیر سے انگریز
چلاگیا لیکن اس نے اپنے ایجنٹ یہاں جاگیرداروں اور وڈیروں کی شکل میں موجود
رکھے۔ جن لوگوں نے انگریزوں کی مخبریاں اور جاسوسیاں کیں، وہ مربعوں اور
باغات سے نوازے گئے۔ یہی لوگ آج وڈیرے ،جاگیردار ،زمیندار ہیں ۔اگر عوام
خبردار ہوجائیں ۔اپنے آس پاس کڑی نظررکھیں ۔ذمہ دار شہری کا ثبوت دیں ۔تو
کسی کی مجال نہیں کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر ایک گولی بھی چلاسکے یا ایک
دھماکہ کرسکے ۔دراصل انگریزوں نے مسلمانوں سے انتقام لیا ۔صدیوں تک
مسلمانوں نے مشرق اور مغرب پر حکومت کی ۔عدل وانصاف کا بول بالاکیا ۔آج
حکمرانوں کے طرز حکومت سے ایسا محسوس نہیں ہوتاکہ یہ ملک بڑی قربانیوں سے
حاصل کیا گیا تھا۔1947 ء کو دہلی ،یوپی ،بنگال ،پنجاب،بمبئی،بہار
،کپورتھلہ،فرید کوٹ ،جید،نابھ،میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دی گئیں
۔کیا آج حکمرانوں، سیاستدانوں،جرنیلوں، ججوں، جرنلسٹوں، بیوروکرٹوں کو اس
کا ذرا بھر بھی احساس ہے؟یوم آزادی پر متحد ہو کر ملک کو ترقی کی راہ پر
گامزن کرنے کے لئے تجدید عہد، عزم نو کی ضرورت ہے۔ |