ملک میں نئی حکومت بننے کے آخری مراحل طے ہو رہے 13 اگست
کو ممبران اسمبلی کے حلف اٹھانے کے بعد صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے
سپیکرز اور ڈپٹی سپیکرز کا انتخاب ہو گا بعد ازاں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ
منتخب کیے جائیں گے اس کے بعد وزیراعظم وفاق میں اور جاروں صوبوں کے وزرائے
اعلیٰ صوبوں میں اپنی اپنی کابینہ تشکیل دیں گے۔امید ہے یہ سارے معامالات
رواں مہینے کے دوران ہی بخیروخوبی انجام پا جائیں گے پاکستان تحریک انصاف
وفاق کے علاوہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں
نظر آتی ہے سندھ میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کی
حکومت بننے کا امکان ہے۔یقینی طور پر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اٹھارہ
اگست کو پاکستان کے 19ویں وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے یہ سب کچھ
اگست کے مہینے میں ہو رہا ہے جو پاکستان کی آزادی کا مہینہ ہے قوم جن دنوں
میں اپنا 71 واں یوم آزادی منا رہی ہے ان دنوں میں ملک کے اندر پی ٹی آئی
کی نئی حکومت بن رہی ہے جس نے تبدیلی کے نعرے پر الیکشن میں کامیابی حاصل
کی ہے عمران خان نے ملک سے کرپشن اور بیروزگاری ختم کر کے حکومتی اخراجات
میں کمی کرنے کا وعدہ کیا ہے۔امید رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں
گے۔پی ٹی آئی کے برسراقتدار آتے ہی ایک تبدیلی تو یہ آئی ہے کہ گذشتہ ادوار
میں حکومت اور اپوزیشن کرنے والی دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پاکستان
پیپلز پارٹی نے مل کر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے دوسری طرف
پی ٹی آئی نے بھی حکومت بنانے کے لیے ایم کیو ایم سے اتحاد کرلیا ہے جس پر
عمران خان ماضی میں شدید تنقید کرتے رہے ہیں۔اس طرح ایک طرف اگر یہ بات سچ
ثابت ہورہی ہے کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی خاص طور پر اقتدار
حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے اس میں اصول،ضابطے،دوستیاں اور
دشمنیاں کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں کل کیدشمن آج دوست بن کر اپوزیشن بنچوں
پر بیٹھ گئے گئے ہیں تو دوسری طرف اقتدار کے لیے کل کے دشمن آج ایکدوسرے کے
دوست بننے پر مجبور ہیں رہی بات ایم کیو ایم کی تو وہ ہمیشہ اقتدار کے
پیچھے بھاگتی ہے کیونکہ وہ اقتدار کے بغیر زندہ رہنا مشکل سمجھتی ہے ایم
کیوایم حکومت میں شامل ہونے کے لیے کسی حد تک آگے جاسکتی توکسی حد تک گر
بھی سکتی ہے البتہ عمران خان سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ سیاست میں تبدیلی
کے دعویدار ہیں اس لیے وہ سیاست میں کچھ نہ کچھ اصولوں اور ضابطوں کو رواج
دیں گے لیکن وہ بھی حکومت سازی کے لیے ایم کیو ایم سے ہاتھ ملانے پر مجبور
ہوگئے جس پر وہ ماضی میں شدید تنقید کرتے رہے ہیں۔ان کے اس فیصلے پر عام
سیاسی حلقوں کے علاوہ ان کی اپنی جماعت میں بھی تنقید کی گئی خاص طور پر پی
ٹی آئی کراچی کے صدر شمیم فردوس نے شدید تنقید کی تھی۔بحر حال دیکھیں کہ یہ
سلسلہ آگے کہاں تک چلتا ہے۔تبدیلی کے داعی عمران خان نے یہ اعلان کیا ہے کہ
وہ وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے بلکہ منسٹر انکلیو میں رہائش رکھیں گے
انھوں نے یہ بات بھی زور دے کر کہی ہے کہ وہ حکومتی اخراجات میں کمی کیساتھ
پروٹوکول بھی نہیں لیں گے۔ملک میں تبدیلی لانے کے دعوے کس حد تک پورے ہوتے
ہیں ان سب کے لیے پی ٹی آئی کے پاس عملدرآمد کے لیے پانچ سال ہیں لیکن اس
کے لیے عمران خان کی حکومت کے پہلے سو دن بہت اہم ہیں ان تینوں مہینوں کی
کارکردگی اور اقدامات سے واضع ہو گا کہ اپنے نعروں اوروعدوں کوپورا کرنے کے
لیے کتنے پرعزم ہیں۔عمران خان بنیادی طور پر ایک کھلاڑی ہیں وہ کھیل کے
میدان سے سیاست کے میدان میں آئے ہیں۔لو گ ان سے یہ توقع کرتے ہیں کہ جس
طرح انھوں نے کرکٹ کھیلتے ہوئے بطور کپتان پاکستان کو ورلڈ چمپیئن کا اعزاز
دلایا تھا بالکل اسی طرح وہ سیاست کے میدان میں بھی اچھی کارکردگی کا
مظاہرہ کریں گے اور ملکی سیاست کی تاریخ میں قابل فخر ریکارڈ قائم کریں گے
عمران خان کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ کھیل کے میدان کی طرح سیاست
کے میدان میں بھی وہ کپتان کی کیپ پنے ہوئے ہیں انھیں یہاں کھیل کے میدان
کی طرح سیاست کے میدان میں بھی ایک چیلنج کے طور پر شاندار پرفارمنس دکھانا
پڑے گی۔جس طرح انھوں نے کرکٹ کے میدان میں چوکوں چھکوں کی برسات کرکے دنیا
میں اپنا اور پاکستان کا نام روشن کیا تھا بالکل اسی جذبے اور جوش کیساتھ
سیاست کے میدان میں بھی روایتی کھیل کھیلنے کی بجائے چوکے چھکے لگاتے ہوئے
جم کرکھیلتے ہوئے اپنے آپ کو ایک بہترین اور آل راؤنڈر کھلاڑی ثابت کرناپڑے
گا اور ناٹ آؤٹ رہ کر میدان سیاست میں فتوحات سمیٹنا ہونگی یہ جہاں عمران
خان اور پی ٹی آئی کے مستقبل و سیاسی کیرئیر کے لیے بہت ضروری ہے وہاں اب
ملک اور جمہوریت کو بھی ایک اچھے لیڈر کی ضرورت ہے جو ہماری جمہوریت اور
سیاست میں تبدیلی کیساتھ بہتری لائے ۔یہ ہی عمران خان کا نعرہ اور وعدہ ہے
کہ وہ پاکستان میں تبدیلی لائیں گے بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ کے پاکستان
کو نیا عظیم پاکستان بنائیں گے۔اس کا تمامتر دارومدار اب عمران خان کی
کارگردگی پر منحصر ہے جی ہاں جناب عمران خان صاحب قوم کو کارگردگی چاہیے ،
روایتی کارگردگی نہیں اس کے لیے آپ کو غیرمعمولی کارگردگی کا مظاہرہ کرنا
پڑے گا بالکل اسی طرح کی کارگردگی جس طرح کی شاندار تاریخی کارکردگی آپ نے
1992ء میں کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے کے لیے دکھائی تھی بالکل اسی طرح کی
کارکردگی سیاست کا ورلڈ کپ جیتنے کے لیے دکھانا ہو گی بلکہ اس سے بھی کہیں
زیادہ بہتر کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ جناب عمران خان صاحب قدرت نے آپ
کو ایک بہترین موقع عطا کیا ہے اس قوم اور ملک کو ایک اچھا کپتان، اچھا
لیڈر اور قائداعظمؒ کا جانشین بن کر دکھائیے ۔تاکہ کرکٹ کی طرح پاکستان کی
سیاست میں بھی ایک قابل فخر تاریخی مقام حاصل کرسکیں۔ |