تحریک انصا ف کے ٹکٹ پررکن قومی اسمبلی بننے والے گل ظفر
خاں ان دنوں میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں۔چائے والا کے نام سے مشہور ہونے
والے گل ظفر سے متعلق میڈیامیں بہت کچھ لکھا اور دکھایا جارہا ہے۔کہیں اس
نومنتخب رکن اسمبلی کی غربت اور سادگی کا ڈھنڈورہ پیٹا جارہا ہے۔یہ ثابت
کرنے کی کوشش کی گئی کہ تحریک انصاف غریب پرور جماعت ہے۔یہ نچلے طبقے کے
لوگوں کو آگے لانا چاہتی ہے۔گل ظفر خاں کی شکل میں ایک عام اور چھوٹے آدمی
کو ٹکٹ دے کر عمران خاں حقیقت میں انقلاب کے سچے داعی ثابت ہوئے ہیں۔گل ظفر
خاں کے مشکل دنوں کے کچھ واقعات اور تصویر یں دیکھنے کو مل رہی تھیں۔یکا
یکی جانے کیا ہوا کہ الٹی ریل چلنے لگی۔ اب یہ چائے والا بھائی ایک نئے
تعارف سے پیش کیا جارہا ہے۔اس کے کروڑ پتی ہونے کا انکشاف ہواہے۔کروڑ پتی
گل ظفر کی طرف سے کروڑ پتی ہونے کا اعتراف کیا جاچکاہے وہ اس دولت کو اپنی
وراثت قراردے رہے ہیں۔اس نئی پیش رفت کے بعدمیڈیا میں بیٹھے ان خدائی
فوجداروں کے پراپیگنڈے کی ہوانکل گئی جو گل ظفر خاں کو ایک غریب اور عام
آدمی ثابت کرنے کی جعلسازی میں مصروف تھے۔
تحریک انصاف تبدیلی کی بات کرتی ہے۔وہ فرسودہ اور کرپٹ نظام کو جڑسے
اکھاڑپھینکنے کی تمنا رکھتی ہے۔بدقسمتی سے اس کٹھن سفر میں خاں صاحب کے پاس
زاد راہ ندارد ہے۔انہیں قدم قدم پر مشکلات کا سامنا ہے۔ان کا مقابلہ اس گلے
سڑے نظام سے ہے جو اپنے خلاف مزاحمت کو ہر قیمت پر روکنے کی روایت
رکھتاہے۔اس نظام کے خلاف کئی دفعہ بغاوت ہوئی مگر ہر بار کچل دی گئی۔کئی
لوگوں ے اپنے تئیں کوششیں کیں مگر ناکامیاب رہے۔عمران خاں کو بڑی مضبوطی سے
پاؤں جما کر کھڑے ہونا پڑے گا۔اب تک کچھ لوگ اس نظام سے لڑنے کا خیال ہی دل
میں لیے گزر گئے۔انہیں عملا کچھ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔کچھ نے تھوڑی بہت کوشش
کی۔چار دن رنگ جمایا اور پھر میدان چھوڑ دیا۔ہر کسی نے اپنی اپنی حد بغاوت
کے مطابق مقابلہ کیا۔اور اس حد بغاوت کے حساب سے کوئی چاردن میدان میں کھڑا
رہا۔کچھ نے کچھ ہفتے نکال لیے ۔کچھ ذرا زیادہ سخت جان ثابت ہوئے اور ایک
لمبا راؤنڈ کھیل گئے۔اب تک سب سے زیادہ قوی بغاوت سابق وزیر اعظم نوازشریف
کی طرف سے دیکھنے کو ملی ہے۔وہ وقفے وقفے سے اس بغاوت میں لگے ہوئے ہیں۔
ایک مستند باغی تسلیم کرلیے گئے ہیں۔حکومت گنوالی۔تذلیل کروالی ۔پارٹی چھن
گئی۔آزادی نہ رہی ۔ان جیل میں ہیں مگر اب بھی وہ ہار ماننے پر آمادہ نہیں
۔ان کی حد بغاوت اب تک بے مثل رہی ہے۔ عمران خاں اس سسٹم کو بدلنے کا عزم
لیے ہوئے ہیں۔دیکھیں ان کی حد مزاحمت کیا نکلتی ہے ۔وہ کب تک جمے رہتے ہیں۔
گل ظفر خاں جیسے قصے کہانیاں نئے پاکستان کے قیام کے سفر میں رکاوٹ بن سکتی
ہیں۔ایک مخلص اور دیانت دار قیادت ہی نیا پاکستان تعمیر کرنے کی بات کرسکتی
ہے۔باتیں اگر سادگی اور کفایت شعاری کی ہوں مگر عملًا دولت اور عیاری کو
سپورٹ کریں تو نئے پاکستان کی منز ل مذید دو رہوگی۔وزیر اعلیٰ کے پی کے
محمود خاں کانام سامنے آنے پر بھی بد گمانیاں پیدا ہوئیں۔وہ ایک ارب پتی
شخص ہیں۔اگر پرویز خٹک کو ری پلیس کرنا تھا تو کیا ہی اچھا ہوتاکہ ان سے
بہتر شخص کا انتخاب کیا جاتا۔ایک ارب پتی شخص کے صوبے کی وزارت اعلیٰ
سونپنے سے عمران خاں کی سادگی کی باتوں کا وزن کم ہواہے۔بات خالی ارب پتی
ہونے کی نہیںیہ محمود خاں صاحب وہی ہیں۔جو اپنی کمزور کارکردگی کے سبب
مشہورہیں۔ دو بار اپنی وزارتوں سے الگ ہوئے۔ا س علیحدگی کا سبب سوائے ان کی
غیر تسلی بخش کارکردگی کے کچھ نہ تھا۔ان کا ارب پتی ہونا شاید بے معنی
ہوجاتااگر وہ کسی فیلڈ میں ا سپیشلسٹ ہوتے۔یکے بعد دیگرے دو وزارتوں میں
غیر تسلی بخش پارفارمنس کے بعد اب انہیں کسی ماہر کی حیثیت سے متعارف
کروانا کسی کو ہضم نہ ہوگا۔جو دیگر لوگ خاں صاحب کا انتخاب ہیں وہ بھی قوم
کے دیکھے بھالے ہیں۔شاہ محمود قریشی۔چوہدری سرور ۔پرویز الہی۔شیخ رشید۔وغیر
ہ جیسے بیسیوں ان کی طرف سے بڑی پوزیشن پر نامذد گان نئے نہیں۔قوم انہیں
باربار آزما چکی۔وہ نہ اپنے پرانے گھونسلوں میں رہتے ہوئے کچھ کمال دکھا
پائے تھے۔نہ اس نئے بسیرے سے ان سے کسی کمال کی توقع ہے۔الٹا یہ ابن الوقت
قسم کے لوگ ہر چڑھتے سورج کو پوچنے کی تاریخ رکھتے ہیں۔وہ اپنے ذرا سے مفاد
کے لیے پچھلی قیادت سے غداری پر آمادہ ہوگئے۔کیا گارنٹی ہے کہ کل کو وہ
اپنے نئے باس کی پیٹھ میں چھرانہ گھونپے گے۔ عمر ان خان تبدیلی کا نعرہ
لگارہے ہیں۔مگرجس طرح سے ان کی جماعت کے کچھ لوگ آزاد اراکین اسمبلی کے
ساتھ تماشہ رچا تے رہے ہیں۔وہ کرپشن سے پاک پاکستان کا نعرہ دھندلا کررہا
ہے۔ایک ہرجائی قسم کے ٹی وی اینکر کو جب جہانگیر ترین یہ کہتے ہیں کہ وہ
آزاد اراکین کو بڑی مشکل سے ن لیگ سے بچا کر لارہے ہیں تو حیرانگی ہوتی
ہے۔جہانگیر ترین کے بقول یا مجاہد لوگ تیس تیس کروڑ کی آفر ٹھکرا کرآرہے
ہیں۔جہانگیر ترین کا تیس تیس کروڑ ٹھکرا نے کا یہ بیان اس اینکر کے لیے کسی
انکشاف سے کم نہ ہوگا۔مگر اس نے بجائے وضاحت کے استفسار کے صرف سر دھننے پر
اکتفا کیا۔جانے یہ تیس تیس کروڑ ٹھکرانے والوں کی تلافی عمران خاں کی جماعت
کتنے چکاکر کرپائے گی۔عمران خان سسٹم کے خلاف بغاوت کا جزبہ رکھتے ہیں۔مگر
اس کے لیے جو راستہ متعین ہے۔وہ اس سے کوسوں دور ہیں۔گندم سے گندم ہی اگا
کرتی ہے۔جو کی امید لگانا خودفریبی کے سو ا کچھ نہیں۔اس وقت جو ٹیم او
ربندو بست خاں صاحب کو فراہم کیا گیا ہے۔اس کی مدد سے یہ جنگ جیتنا خام
خیال کے سوا کچھ نہیں۔اس سسٹم سے بغاوت میں کامیابی کے لیے انہیں کم ازکم
نوازشریف کی حد بغاوت سے زیادہ حد تک جانا ہوگا۔ |