پاکستان میں نئے پاکستان کے نعرے کی 22 سالہ گونج تبدیلی
بن کر برسراقتدار آ گئی ہے ن لیگ پیپلز پارٹی جی ایچ کیو کے آنے جانے کی
ناکامیوں کے بعد چوتھی قوت تحریک انصاف اقتدار سنبھال چکی ہے جس کے کرداروں
میں نوجوانوں کا اُٹھنا اور عوام کا ان کو اعتماد دینا بنیادیں میں ثابت
ہوا ہے ‘ پارلیمنٹ میں عمران خان کے بطور وزیراعظم انتخاب کے بعد پہلی
دوسری بڑی جماعتوں کے لیڈروں کی تقریریں اور ان کے ارکان کا شوروغل پر عوام
میں ناپسندیدگی اور تیسری بڑی جماعت کے چیئرمین بلاول کے اظہار پر داد پیش
کرنے کے جذبات بتا رہے ہیں واقعی تبدیلی آ چکی ہے ‘ پکے مکانوں سے
جھونپڑیوں میں رہنے والے اور بڑے جنرل سٹور سے ریڑھی بانوں تک خصوصاً
تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہوئے طلبہ سے زندگی کے عملی میدان میں بڑھتے قدموں
والے نوجوان دھینگا مشتی کے تماشے لگا کر ان کے دکھ درد مسائل مصائب پر مٹی
ڈالنے کے بجائے دھیمے لہجہ اور عمل ہوتا دیکھنے کے متمنی ہیں جو کام کرتے
ہوئے کارکردگی دکھائے گا وہی آگے جائے گا پوری قوم کے جذبات کی طرح آزاد
کشمیر گلگت بلتستان کے عوام کے خیالات ہیں فاروق حیدر اور لیگیوں کے عزائم
لب و لہجہ عمران اور انصافیوں جیسا ہوا کرتا تھا فرق صرف عمران کے خوش بخت
مقدر کا ہے ان کو مختصر اپوزیشن اور بھاری مینڈیٹ نہیں ملا ہے ‘جو یہاں
مصلحتوں مجبوریوں کے پھوڑوں کے بھیٹ کے مرض معذوری کا شکار ہے مگر اسلام
آباد پارلیمنٹ کے کارروائی دیکھنے سننے کے بعد پورے ملک کے عوام کی طرح
آزادکشمیر ‘ گلگت بلتستان کے عوام کے ایک جیسے جذبات کے جگنو جگنو دیپ بتا
رہے ہیں اب وہاں اسلام ‘پاکستان ‘قومی مفاد‘ صوبہ ‘ زبان ‘ علاقہ ‘ لسانیت
اور یہاں بھی ان جیسے ناموں سمیت ریاست ‘ تشخص ‘ الحاق ‘ خود مختار کے
عوامل کا ناجائز فائدہ اُٹھا کر مکرو فریب کے شور کا زور اپاہج ہو چکا ہے ‘
جس کا مزید کریا کرم عوام بیداری کے شعور سے کرتے رہیں گے ‘ واقعتا آئین تو
یہاں کی حکومت کا سنگ میل کارنامہ ہے جس کے بعد قانون ساز اسمبلی کا پہلا
اجلاس چوری یوسف مرحوم کی فاتحہ خوانی کر کے ختم کر دیا گیا حتیٰ کہ کشمیر
پر پیش کردہ قراردادوں کو متفقہ مسودہ کی شکل میں لا کر پاس نہیں کیا گیا
یہ ایوان اپنے اندر اور باہر بیٹھنے والوں کیلئے تربیت کا مقام رکھتا تھا
اب محض آئینی ضرورت پوری کر کے ٹی اے ڈی اے کا اہتمام ہو جاتا ہے اپوزیشن
کا سوالات ‘ توجہ دلاؤ نوٹس ‘ تحریک التواء ‘ قراردادوں کیلئے چھان پٹک کر
کے ایجنڈے کو موثر بنانے سے قد کم ہوتا ہے تو حکومت میں بیٹھے بشمول خواتین
ارکان کا ممنون حسین جیسا وجود تصویری شکوہ ہے ورنہ دو دریاؤں کو الوداع
کرنے کا مرثیہ تو پڑھتے ان کے ورثاء کا حال مریضوں والا ہو چکا ہے اور نیلم
جہلم کے ختم ہوتے آنسو کہہ رہے ہیں
جینا مشکل ہے کہ آسان زرہ دیکھ تو لو
لوگ لگتے ہیں پریشان زرہ دیکھ تو لو
یہ نیا شہر تو ہے خوب بسایا تم نے
کیوں پرانا ہوا ویران زرہ دیکھ تو لو
ان چراغوں کے تلے ایسے اندھیرے کیوں ہیں
ہم بھی ہو جائے گے حیران زرہ دیکھ تو لو
شاعر(جاوید اختر) |