موجودہ سیاسی صورتحال

قومی اسمبلی کے ممبران نے حلف اٹھالیا ہے،ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی کے ممبران نے بھی حلف اٹھا لیا ہے۔اس حلف اٹھانے کے بعد سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب بھی ہوچکا ہے۔خیبر پختونخواہ اور سندھ میں وزیر اعلی کے فیصلے پر بھی مہر لگ چکی ہے۔حلف اٹھانے والے دن ماحول قدرے بہتر اور خوشگوار تھا،باہم خوب چھپیاں لگائی گئیں،گرم جوشی سے اور نئے عزائم سے ابتداء کی۔ایک دوسرے کے گلے شکوے بھی مذکور ہوئے اور مشکل حالات میں ساتھ دینے والوں کا شکریہ بھی ادا کیا گیا۔

قومی اسمبلی میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی فتح کا ھار تحریک انصاف کے گلے سجا،اسد قیصر اور قاسم سوری فاتح میدان ٹھہرے،دونوں کا تعلق بلاشبہ پسماندہ علاقوں سے ہے،انکے حلقے کی عوام اور حکومت دونوں ان سے بہت امیدیں وابستہ کیئے ہوئی ہیں،یہ نئی ٹرین(حکومت)پرانے انجن اور پہیوں میں پرانے ڈرائیوروں کے ساتھ چلے گی مگر! نئے عزائم کے ساتھ ،سسٹم کی تبدیلی کے ساتھ ،بے روزگاری کے خاتمے کے ساتھ،قرضہ ختم کرنے کے اعلانات پر عمل درآمد کے ساتھ،پچاس لاکھ گھر بنانے کے خوابوں کے ساتھ،ڈیم کی فوری تعمیر کے ساتھ اور نوکریاں دینے کے ساتھ یہ ٹرین نئے پاکستان کی پٹڑی میں داخل ہوگی۔اکثر لوگ اس نئے پاکستان کو خوشحال اور ترقی یافتہ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔

یہ حکومت کیسے بنائی گئی ؟کیا ہوا الیکشن میں؟ کیسے دھاندلی کی گئی؟ ان سب اعتراضات کے باوجود اپوزیشن کے ارکان اسمبلی میں آئے اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے جو کہ نہایت خوش آئند اقدام ہے۔ہر دن الیکشن کروانا کسی کے مامے چاچے کا کھیل نہیں،اس میں عوام کے ٹیکس کا پیسہ لگا ہے،آئے روز اتنی کثیر رقم الیکشن میں صرف کرنا یقینا اس ملک کو مزید غربت کے کنویں میں ڈبونے کے مترادف ہے۔الیکشن کو صاف شفاف ہونا چاہیے،اس میں دوسرے اداروں کی مداخلت کسی صورت نہیں ہونی چاہیئے،الیکشن کمیشن بااختیار ہونا چاہیئے، یہ سب کچھ ہونا چاہیئے مگر ایسا ہے نہیں۔

مسلم لیگ ن اپنا قلعہ پنجاب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی اور اس قلعے میں تحریک انصاف نے دراڑ ڈال کر اپنا لوہا منوایا۔سندھ میں ایک دفعہ پھر جیالے چھا گئے۔خیبر پختونخواہ مزید تبدیلی کا منتظر رہا اور تبدیلی کی چابی تحریک انصاف کے حوالے۔

مگر!اس سب کے باوجود ایوانوں میں جو زبان درازی ہوئی سپکیر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے بعد وہ یقینا قابل افسوس ہے۔خصوصا پنجاب اسمبلی میں آج جو ہنگامہ ہوا اور ممبران کے مابین جو زبان استعمال ہوئی وہ بلکل بھی اس ایوان اور ممبران کے موافق نہ تھی۔کیا عوام نے ان ممبران کو اس لیئے منتخب کیا ہےکہ وہ اس ایوان میں جاکر باہم گالم گلوچ کریں؟ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کریں؟کسی کے صحیح کام کو بھی غلط کام ثابت کرنے پر ٹائم برباد کریں؟ اقتدار کی ہوس پوری کرنے کیلئے ایک دوسرے سے گریباں بازی کریں؟ یقینا عوام نے آپکو اس لیئے منتخب نہیں کیا بلکہ عوام نے آپکو اس لیئے منتخب کیا ہے کہ آپ عوام کی خدمت کیلئے منصوبے پیش کریں،عوام کی فلاح و بہبود کیلئے مثبت اقدامات کریں،تعلیم و علاج کی مفت سہولیات فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں،مناسب قانون سازی کریں،روزگار کے مواقع پیدا کریں،پانی کی قلت پوری کرنے کیلئے ضائع ہونے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم تعمیر کریں،ملک کو غربت سے نکالیں اور لوڈشیڈنگ ختم کرکے اس ملک کو روشنی کا اور امن وامان کا گہوارہ بنائیں۔ہاں یہ کام صرف حکومت کا نہیں بلکہ اس کام میں اپوزیشن بھی اہم کردار ادا کرے۔اپوزیشن کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ حکومت کے جائز کاموں پر بھی تنقید کرے جیسا کہ گذشتہ ادوار میں دیکھنے کو ملا اور نہ ہی یہ جمھوریت کا حسن ہے۔آپ اس عوام کے نمائندہ ہیں دنیا کے سامنے اپنی پہچان کروانے کیلئے عوام نے آپکو رول ماڈل کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔

قانون سازی میں اس حکومت کیلئے بہت دشواریاں ہونگی سینٹ کی اسمبلی سے خصوصیت کے ساتھ۔باقی رہا یہ سوال کہ متحدہ اپوزیشن ٹوٹ کر بکھر گئی ہے؟اب اس کا کردار کچھ زیادہ سنجیدہ نہ ہوگا پی پی نے سپیکر قومی اسمبلی کے منتخب ہونے پر احتجاج میں مسلم لیگ ن کا ساتھ نہ دیا اور اسی طرح پی پی نے شہباز شریف کے وزیر اعظم کے امیدوار ہونے پر تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے اور وزیر اعظم کے امیدوار کے تبدیل نہ ہونے پر پی پی کے ووٹ نہ دینے کی خبریں بھی گردش میں ہیں۔اسکا سادہ سا جواب یہ ہے کہ زرداری صاحب کی مجبوریاں ہیں ان سے گلہ بے جا ہوگا وگرنہ وہ اپوزیشن کا ساتھ کچھ حد تک ضرور دیتے۔حسین لوائی،طحہ رضا کی گرفتاری زرادی صاحب کیلئے مزید درد سر بن گئی اور یوں وہ اس مشکل میں اپنا کھیل کھیلنے کے بجائے کسی اور کا کھیل کھیل سکتے ہیں۔
 

Luqman Hazarvi
About the Author: Luqman Hazarvi Read More Articles by Luqman Hazarvi: 24 Articles with 25218 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.