فلسفہ قربانی

تحریر:ام محمد سلمان، کراچی
(جزوی ترامیم کے ساتھ ایک سچی کہانی)
ذی الحج کا چاند نظر آتے ہی گلی میں بڑی رونق لگ گئی تھی سب لوگ قربانی کے لیے جانور خرید خرید کر لارہے تھے اور بھانت بھانت کے جانور محلے میں اکٹھے ہو رہے تھے۔ کوئی مینڈھا لے کر آیا ،کوئی بکرا اور کوئی بچھڑا قربان کرنے کے لیے لایا۔ ارم بھی کئی مرتبہ پردے کی اوٹ سے گلی میں جھانک کر دیکھ چکی تھی ۔ سب جانور ہی بہت خوب صورت تھے ماشاء اﷲ۔ بار بار اس کے دل سے دعا نکلتی، ’’ یا اﷲ! سب کی قربانیاں قبول کر لینا اور بہترین اجر سے نوازنا‘‘۔ اس بار درس میں تفسیر کی باجی نے قربانی کے فضائل پر بہت اچھا درس دیا تھا جب سے ہی ارم بے چین تھی کہ اس بار وہ بھی قربانی کرے گی تاکہ اس بیش بہا ثواب کی حقدار بن سکے ۔ اپنی اس خواہش کا اظہار شوہر کے سامنے کیا، وہ مان تو گئے مگر ساتھ ہی عجیب سی شرط بھی رکھ دی، ’’اچھا بھئی ٹھیک ہے گائے میں ایک حصہ تمہارا بھی لے لوں گا لیکن آج شام کو جو شاپنگ پر جانا تھا تم نے، وہ کینسل، اب عید کا جوڑا نہیں بنے گا تمہارا‘‘۔’’ارے یہ کیا بات ہے بھلا، جوڑا کیوں نہیں بنے گا؟‘‘،ارم جھنجھلائی، لیکن میاں جی بھی اپنے مطالبے سے ذرا ادھر ادھر ہونے کو تیار نہیں تھے اس لیے ارم کو ماننا ہی پڑا، دل میں سوچا ایک بار عید پر جوڑا نہیں بنا تو کیا ہوا؟ کوئی بڑی بات نہیں، قربانی تو ہو رہی ہے ناں مجھے کتنا ثواب ملے گا اور ویسے بھی عیدِ قرباں پر اصل چیز تو قربانی ہے کیا میں اﷲ کے لیے ایک سوٹ کی بھی قربانی نہیں دے سکتی؟ سوٹ کا کیا ہے؟ کوئی بھی پہن لوں گی، کوئی بات نہیں۔ ارم نے اپنے دل کو سمجھا لیا اور مطمئن ہو گئی ۔

عید میں ایک ہفتہ ہی باقی تھا گھر کے باقی سب لوگ اپنے اپنے ملبوسات کو لیکر کافی پرجوش تھے۔ خوب تیاریاں ہو رہی تھیں گھر کی سب خواتین اور بچیوں کے جوڑے تیار ہو گئے اور سب کی تیاریاں دیکھ دیکھ کر وہ بھی اپنے دل میں سوچتی کیا ہو جاتا اگر میاں جی میرا بھی سوٹ بنا دیتے، پتا بھی ہے ان کو کہ مجھے خاص عید پر نئے کپڑے پہننے کا کتنا شوق ہے ، پھر سوچتی چلو کوئی بات نہیں قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام تھوڑی ہے اصل قربانی تو اپنی خواہشات کی قربانی ہے بس یہ بات سوچتی تو دل مطمئن ہو جاتا تھا۔

عید میں دو دن باقی تھے صبح کے وقت ارم گھر کے کام کاج میں مصروف تھی کہ اچانک اس کے بڑے بھائی جان اس سے ملنے آگئے۔ ارم انہیں دیکھ کر بہت خوش تھی۔اس وقت اس کے پاس نہ ٹیلیفون تھا اور نہ ہی موبائل فون، جب بھی کوئی اچانک میکے سے آجاتا تو بے انتہا خوشی ہوتی ۔ بھائی جان کچھ دیر تو ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے پھر کہنے لگے ، اور بہنا تم نے عید کا جوڑا بنا لیا؟ ارم کہنے لگی ’’جی بھائی اﷲ کا شکر ہے جوڑے بہت ہیں‘‘۔ بھائی کہنے لگے ،اچھا ذرا مجھے تو دکھاؤ کون سا جوڑا بنایا ہے عید کے لیے؟ اب ارم سوچ میں پڑ گئی کیا کروں؟ پھر کہنے لگی، بھائی جان اصل میں عید والا سوٹ بھی تو رکھا ہے ناں میں وہی پہنوں گی۔ بھائی مسکرانے لگے، کہنے لگے، اچھا تو تم نے سوٹ نہیں بنایا ناں۔ لو اب میری سنو! کل میں اپنے روز مرہ کے کاموں میں مشغول تھا کہ اچانک بس میرے دل میں خیال آیا، پتا نہیں میری بہنا نے عید کا جوڑا بنایا ہے یا نہیں؟ بس یہ خیال میرے دل میں آیا اور میں نے تہیہ کر لیا کہ کل ضرور اپنی بہن کے پاس جاؤں گا اور اسے عید کا سوٹ بنانے کے لئے پیسے دے کرآؤں گا۔ یہ لو میں تمھارے لیے کچھ پیسے لے کرآیا ہوں تم میری طرف سے اپنے لیے اچھا سا سوٹ بنا لینا عید کے لیے۔ بھائی جان مسکرا کر اس کی طرف دیکھ رہے تھے اور ارم نوٹ مٹھی میں دبائے بس ان کی شکل ہی دیکھتی رہ گئی۔ یہ خواہش تو اس کے دل کے نہاں خانوں میں تھی جس کا ذکر اس نے کسی سے بھی نہیں کیا تھا اور اﷲ نے کیسے اس کے دل کی مراد پوری کی واقعی کوئی سچے دل اور کھرے جذبوں کے ساتھ اس کی طرف آئے تو سہی، وہ پاک ذات بہت قدر دان ہے۔

ارم بہت خوش تھی کہ اﷲ نے اس کے دل کی مراد سن لی۔ سچ کہتا ہے وہ ’’میں تو تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ تمھارے سینوں میں چھپے ہوئے راز جانتا ہوں۔ میرے بندو! تم ہی میرے بارے میں دھوکے میں مبتلا ہو ، میں تو تم پر ستر ماؤں سے بھی زیادہ مہربان ہوں۔ تم سے محبت کرتا ہوں، اپنی ستاری کی چادر میں تمھارے سارے عیبوں کو چھپا لیتا ہوں‘‘۔

اور وہ سوچ رہی تھی کہ میرے رب نے میرے دل کی خواہش کو کسی پہ ظاہر بھی نہیں ہونے دیا اور کتنے اعزاز کے ساتھ اسے پورا کر دیا۔ وہ کتنا کریم ہے کوئی اس کے کرم کا اندازہ بھی لگا سکتا ہے؟

اور جو رب اتنا کریم ہو تو وہ کس قدر حق رکھتا ہے کہ اس کی مانی جائے اسے ناراض نہ کیا جائے۔ زندگی کے ہر موڑ پر ہر فیصلے میں اس کی رضا کو مقدم رکھا جائے۔ارم نے ایک خوبصورت سا جوڑا بھی بنایا اور قربانی بھی کی یہ اس کی زندگی کی ایک یادگار عید تھی۔

اور پھر زندگی کے دن گزرتے چلے گئے، دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں ڈھلنے لگے ۔

روز و شب کے تلخ حقائق میں چھوٹی موٹی خواہشات دب کر رہ گئیں۔ اب خواہشات سے بڑھ کر ضروریات پر نظر ہوتی۔

اس واقعے کو تقریباً چھ سات سال گزر گئے، شعور میں پختگی آگئی تھی۔ اس سال عید الاضحٰی آئی تو ان کے پاس قربانی کرنے کے لیے کوئی بندوبست نہیں تھا۔ شوہر کی مالی حالت بھی اس وقت اچھی نہ تھی مگر قربانی کے بے انتہا اجر و ثواب کو دیکھتے ہوئے ارم کا دل بے قرار تھا کہ کسی بھی طرح ایک حصہ تو لے ہی لے۔ اس کے پاس سونے کی لاکٹ چین تھی جو اس کی امی نے اسے جہیز میں دی تھی اور ارم کو بے حد عزیز تھی، بہت شوق سے اسے پہنا کرتی تھی اور امی کی وفات کے بعد تو اور بھی زیادہ محبوب ہو گئی تھی آخرکو وہ اس کی مرحومہ ماں کی نشانی تھی۔ دل میں خیال آیا اس کا لاکٹ بیچ کر قربانی کر لینی چاہئے۔ مگر دل بار بار اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتا اور ارادہ کمزور پڑ جاتا مگر ضمیر کہتا کیا قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام ہے؟ قربانی کی اصل روح تو اپنی محبوب چیز کو اﷲ کے لیے قربان کر دینا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تو اپنے لخت جگر کو اﷲ کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائیں اور ہم ایک معمولی اور فانی زیور بھی نہ دے سکیں اس کی راہ میں؟بار بار یہ خیال دل میں کچوکے لگاتا رہا، اور پھر اس نے لاکٹ بیچ کر قربانی کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ عید آنے سے پہلے اس نے وہ لاکٹ بیچ دیا اور بڑے جذبے کے ساتھ قربانی کی۔

عید والے دن اس کی خوشی کا جو عالم تھا وہ بہت بڑھ کر تھا ان تمام قربانیوں سے جو وہ ہر سال کرتی تھی۔ آج اس نے قربانی کی اصل روح کو پایا تھا۔ خواہشات، جذبات اور اپنی محبوب ترین چیز کو اﷲ کی راہ میں قربان کر دینے کا سرو۔اسی کا دیا ہوا اسی کے لیے خرچ کر دینے کا کیسا مزا ہے کیسا لطف ہے یہ تو اس نے آج جانا تھا۔ اور آج اس کے پاس عید پر پہننے کے لیے نیا جوڑا نہیں تھا مگر ہزار جوڑوں کی خوشی سے بڑھ کر وہ خوش تھی اور وہ آیت اس کے ذہن میں گونج رہی تھی، گویا آج ہی نازل ہوئی:’’ بیشک میری نماز میری قربانی میرا جینا میرا مرنا سب میرے اﷲ کے لئے ہے جو جہانوں کا پروردگار ہے ‘‘۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1028576 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.