منافقانہ روّیوں کی طویل درناک داستانیں

دنیاکی تاریخ دہشتگردی اورانسانیت کے خلاف بدترین جرائم سے بھری پڑی ہے لیکن غورکیاجائے تویہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ موجودہ دورکی واحد سپرپاورامریکاکا عالمی دہشتگردی اورانسانیت کے خلاف جرائم میں جہاں براہِ راست بہت نمایاں حصہ ہے وہیں دہشتگردی اورتخریب کاری کے اسباب پیدا کرنے اوردہشتگردقوتوں کی سرپرستی بھی اس کی طویل تاریخ ہے۔ امریکانے جوہری اورروایتی مہلک ہتھیاروں ،زہریلی گیسوں اور کیمیکلزکے استعمال سے لاکھوں انسانوں کوقتل کیاہے ۔اسی طرح انسانوں کاقتل عام کرنے والی قوتوں کی سرپرستی کی ہے لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ انسانیت کے خلاف بھیانک جرم یہ ہے کہ اپنے استبدادی انسانیت کش اقتصادی ومعاشی نظام کے ذریعے اس نے دنیاکے بہت بڑے حصے کوغلام بنانے اوراقوام عالم کے ہر طرح کے وسائل پرقبضہ کرنے کیلئے دہشتگردی شروع کررکھی ہے جس کے نتیجے میں کروڑوں انسان دووقت کی روٹی کے محتاج ہو رہے ہیں اوربھوک،افلاس، بدحالی، خوراک،صحت،تعلیم،رہائش کی سہولتوں سے محروم ہوکرغیرانسانی ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو رہے ہیں اورسسک سسک کرموت کے منہ میں جارہے ہیں۔

انسانیت کے خلاف جرائم میں فرعون،نمرود،چنگیزخان،ہٹلر،سوویت یونین کے مختلف لیڈروں، یہودیوں،ہندوؤں اورسکھوں کابھی بہت بڑا حصہ ہے۔دین اسلام اورمسلمانوں سے بھارت،اسرائیل اورہندوستان کی نفرت وعداوت کسی سے مخفی نہیں ہے۔ساری دنیاجانتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل مسلمانوں کاسب سے بڑادشمن ہے توجنوبی ایشیامیں متعصب بھارت اپنی اقلیتوں (مسلمان، سکھ اورعیسائی وغیرہ) کے علاوہ مقبوضہ کشمیرکے مسلمانوں کوشدیدمظالم کانشانہ بنارہاہے جبکہ امریکااپنے مفادات کی خاطرانسانیت کاقتل عام کررہاہے۔اسلام دشمنی،مسلم کشی اورانسانیت کی تذلیل کے حوالے سے تینوں ممالک کامشترکہ ایجنڈاہے۔دین اسلام کے خلاف صلیبی جنگ کا آغازجہادافغانستان کی عظیم الشان فتح کے بعدشروع ہواتھاجب امریکااوراسرائیل نے دین اسلام کو مغرب کیلئے سب سے بڑاخطرہ قراردیاتھااوراس کے بعدمسلمانوں کے قتل عام کی باقاعدہ عالمی مہم شروع ہوئی۔بوسنیامیں وھژت ودہشت کابدترین مظاہرہ کیاگیا۔الجزائرمیں دیہات کے دیہات خون میں نہلادیئے گئے،عراق میں بچوں،عورتوں اوربوڑھوں کابے دریغ قتل عام کیا گیا۔افغانستان کارخ کیاگیاتوبربریت اورانسانیت سوزکارپٹ بمباری سے خون کے کشتے کے پشتے لگادیئے گئے جو ہنوزجاری ہے۔

مسلمانوں کے خلاف ایک اوربھیانک سازش کے تحت مسلمانوں کوبدنام کرنے کیلئے داعش جیسی تنظیم کھڑی کی جس کے ہاتھوں عراقی مسلمانوں کوتہہ تیغ کیاگیا،بعدازاں شام کی طرف رخ پھیرا تواسے بھی کھنڈرات میں تبدیل کرکے لاکھوں افرادکوموت کے گھاٹ اتاردیاگیااورلاکھوں افراد کو ملک چھوڑنے پرمجبورکردیاگیاجوآج بھی درجن بھرممالک میں دربدرمہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں۔میانمارمیں روہنگیامسلمانوں کی نسلیں مٹادی گئیں،کشمیراورفلسطین میں مسلمانوں کے قتل عام کی تعداددن بدن بڑھتی جارہی ہے۔مغرب اوراس کے فطری اتحادیوں نے حسب توفیق مسلمانوں کے قتل عام میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔مسلمانوں کے عالمی قتل عام پرتحقیقات ہوں تولاشوں کاشمار دشوارہوجائے۔بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں پردہشتناک حملوں کے حوالے سے شایدیہ تاریخ کاسب سے بدترین دورہے،اس کے باوجودیہ جنونی مہم ہرگزرتے لمحے تیزہورہی ہے،عالمی ذرائع ابلاغ اورحکومتیں اسلام دشمن پالیسیوں پرمتفق ومتحدہیں۔یہ سب نہ کوئی رازہے اورنہ ہی انکشاف ہے، تفصیل سے تحقیقات ہوجائے توایک کتب خانہ تیارہوجائے۔
کشمیراورفلسطین میں جوکچھ ہورہاہے اسے دوخطوں کی ایک کہانی میں سمجھاجاسکتاہے۔دونوں وہ سلگتے خطے ہیں جہاں مسلمان آبادیوں پرزمین تنگ کردی گئی ہے۔یہودوہنود کی فوجیں نہتے مزاحمت کاروں سے'' نمٹ ''رہی ہیں،ظاہرہے ہندوستان اوراسرائیل دونوں قابض اورغاصب ہیں،اس لئے مسلمانوں کی جان ومال ،عزت واملاک کاآئے دنوں شدیداستحصال ہوتارہتاہے۔ دونوں مقامات پر مقامی آبادیاں آزادی کی تحریکیں چلارہی ہیں جوگوریلایانفرادی نیم مسلح مزاحمت سے زیادہ آگے نہیں جاسکتیںجس کاحق اقوام متحدہ کے منشورنے بھی ان کودے رکھاہے۔ پتھروں اورنعروں سے احتجاج کیاجاتاہے جس کاجواب اندھادھندگولیوں کی بوچھاڑسے دیاجاتاہے یوں ہرآئے دن جانوں کے لاشے اٹھائے جاتے ہیں ،بہت سارے زخمی ہوجاتے ہیں اوربعض توعمربھرکیلئے معذورہو گئے ہیں۔حال ہی میں بھارتی درندہ صفت فوج کی طرف سے مقبوضہ کشمیرمیں پیلٹ گن کے استعمال نے توسینکڑوں نوجوانوں کوعمربھرکیلئے بصارت سے محروم کردیاہے۔حال ہی میں شوپیاں،اسلام آبادمقبوضہ کشمیرکامحاصرہ کیا،گھروں میں جاگھسے،جس جوان کوچاہاگھرسے گھسیٹ کرباہرلاکرگولی مارکرشہیدکردیا۔ظلم واشتعال انگیزی کو''پبلک'' کیا گیاتاکہ دیکھنے والے مشتعل افراد ردّ ِعمل ظاہرکریں ۔جب یہ جذباتی اوراحتجاجی ردّ ِ عمل رونماہوتومجمع پر گولیاں چلا دیں ۔یوں قتل،زخم،غصب،استیصال اورجبرکے اہداف پورے کیے گئے۔

غزہ فلسطین کی چھوٹی سی ساحلی پٹی کی سرحدپریوم ارضِ فلسطین کے سلسلے میں مارچ ہوا، جس پراسرائیلوں نے بلاوجہ گولیوں کی بوچھاڑکردی اوران یہودی درندوں نے آن کی آن میں بیس فلسطینیوں کوموقع پرشہیدکردیاجبکہ1400/افرادسے زائدشدیدزخمی کردیئے جن میں درجنوں عمر بھر کیلئے معذورہوگئے ہیں۔فلسطینیوں نے ''یوم الارض''منانے کافیصلہ 1976ء میں کیا تھاجب اسرائیل نے فلسطین کی 15 لاکھ ایکڑزمین پر ناجائزقبضہ شروع کیاتھا۔فلسطینیوں کی شہادت اور بے گھری کانہ ختم ہونے والاسلسلہ تھمنے کانام ہی نہیں لے رہا۔انبیاء کی سرزمین فلسطین اورقبلہ اوّل بیت المقدس پرصہیونیوں کے ناجائزقبضے کو70برس گزرچکے ہیں۔15مئی 1948ء کودنیاپر ناجائزوجودپانے والی ریاست نے مسلمانوں کے قلب میں خنجرپیوست کر رکھا ہے۔

یہ کوئی آج کاقصہ نہیں ہے بلکہ پچھلے 70برس سے عالم اسلام کی اجتماعی بے حسی اورمظلوم فلسطینیوں سے مسلم حکمرانوں کے منافقانہ رویوں کی طویل اوردرناک داستانوں سے بھرا ہوا ہے تودوسری طرف یہ 70برس ظلم وبربریت،وحشت ودرندگی کی قدیم وجدیدتاریخ سے بھرپور سفاکیت کے انمٹ مظاہروں کی پردردوخوفناک کہانیوں کے عکاس ہیں۔ان 70 برسوں میں ارضِ مقدس فلسطین میں ہردن قیامت بن کرآیا ہے،ہرصبح ظلم وستم کی نئی داستان لیکرطلوع ہوئی۔ہرلمحہ بے گناہوں کے خون سے،گھربار،سڑکیں ،بازار،مساجد وعبادت گاہیں، اسکول و مدارس کورنگین کرنے کاپیامبربن کرآیاہے۔ناجائزریاست اسرائیل کے حکمرانوں نے ان 70برسوں میں خون آشامیوں کی جوتاریخ رقم کی ہے اس کی مثال تاریخ کے صفحات بیان کرنے سے قاصرہیں۔کون ساظلم ہے جو بے گناہ،معصوم اورمظلوم قراردیئے گئے ارضِ مقدس فلسطین کے باسیوں پرروانہیں رکھاگیا۔آج فلسطین کی دختران کی عزتوں کی پامالی کاحساب نہیں،کتابیں اوربیگ اٹھائے اسکول جاتے ہوئے معصوم بچوں پرگولیوں ،بموں کی یلغارکے واقعات سے کئی دفاترمرتب ہوچکے ہیں۔سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے تعلیمی اداروں میں جانے والے، والدین کی امید،نوجوانوں کی خون میں لتھڑی لاشیں،نوحہ وماتم کرتی ماؤں اوربہنوں کی چیخ وپکاراورنالہ وفریادکے دلدوز مناظردنیاکے باضمیر انسانوں کوہرروزجھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک المناک واقعہ قندوزافغانستان میں بھی پیش آیاجب امریکی اورافغان فورسزنے مسجداورمدرسے میں منعقدحفاظ کرام کی تقسیم اسنادکی تقریب پراچانک حملہ کردیاجس سے موقع پرہی150سے زائد جگرگوشوں کے پرخچے اڑادیئے گئے۔یہ بہت ہی دلسوزواقعہ ہے جس پرمیں کئی کالم اور آرٹیکلز تحریر کرچکاہوں۔دوسراقتل عام شام کے علاقے مشرقی غوطہ میں ہوا۔کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے معصوم بچوں اورخواتین کونشانہ بنایاگیا۔ اسرائیل ،بشارفورسز،روس ،امریکا،داعش،کردوں کے اتحادنے عراق وشام میں انسانی تہذیب تباہ کر دی۔یہ سب حسب توفیق مسلمان آبادیوں کاقتل عام کرتے رہے ہیں۔عراق وشام وہی زمین ہے جیاں سے عظیم انسانی تہذیبوں نے زندگی کی ابتداء کی تھی۔افغانستان اور کشمیر میں بھی ظلم وستم کاسلسلہ ہنوزجاری ہے۔

برماجسے اب میانمارکہتے ہیں،بد ھ مت پیروکاروں کی سرزمین ہے۔میانمارمیں آج نہیں بلکہ پچھلے کئی برسوں سے روہنگیامسلمانوں پرجوظلم وستم جاری ہے اس کی مثال دنیامیں اور کہیں نہیں ملتی جس کی وجہ واضح طورپریہی نظرآتی ہے کہ انہیں میانمارنے ابھی تک اپناشہری تسلیم نہیں کیا۔ روہنگیاکے مسلمانوں کی تعدادلگ بھگ پندرہ لاکھ ہے۔1982ء کے برمی شہریت کے قانون کے مطابق یہ لوگ 1823ء کے بعدبرٹش انڈیا کے کسی علاقے سے یہاں آئے تھے،اس لئے یہ میانمارکے قدیم پیدائشی شہری نہیں ہیں۔پانچ کروڑآبادی والے ملک میانمارمیں مسلم اقلیت کو اپناشہری تسلیم نہ کرناہی مضحکہ خیزہے۔یہی نہیں بلکہ ان مسلمانوں کونہ توسرکاری تعلیم کی سہولت مل سکتی ہے نہ گورنمنٹ ملازمت بلکہ انہیں عام عام شہریوں کی طرح آزادانہ گھومنے پھرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔دنیاکے کسی مذہب نے دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ نسل پرستی اور تعصب کاروّیہ رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے لیکن حیرت انگیزطورپر ہرمذہب میں انتہاء پسندگروہ مخالفوں کوظلم وجبرکانشانہ بناتے ہوئے اپنی مذہبی تعلیمات یہاں تک کہ بنیادی اقدارکوبھی پامال کرتے ہوئے ذرّہ بھر نہیں ہچکچاتے ۔

میانمارمیں مسلمانوں کے خلاف دہشتگردی کاسب سے زیادہ افسوسناک اورفکرانگیزپہلویہ ہے کہ یہاں کی آبادی اورفوج کی اکثریت بدھ مت سے تعلق رکھتی ہے جس مٰں انسانوں کے علاوہ دیگرجانداروں کوبھی نقصان پہنچانے کی سختی سے ممانعت ہے اوراسے سخت کبیرہ گناہ سمجھاجاتا ہے۔بدھ تعلیمات کے برعکس مسلمانوں پران کابدترین ظلم وتشددیہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ یہ حملہ آور اپنے مذہب کی بنیادی تعلیمات سے بھی انتہائی دوروبیگانہ ہوچکے ہیں۔میانمارکی درندہ صفت فوج اورامن کے درس کالبادہ اوڑھے بدھ مت کے پیروکاروں کے ہاتھوں بے بس ومجبور روہنگیا مسلمانوں کے بہیمانہ اجتماعی قتل عام کے مناظرنے دلوں کوہلاکررکھ دیاہے اورانسانیت بھی شرم کے مارے منہ چھپائے اقوام عالم کے ضمیروں کوجگانے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ اب تک 9لاکھ سے زائدروہنگیا مسلمان اپنی جان وآبروبچانے کیلئے بنگلہ دیش ہجرت کرچکے ہیں ۔عالمی امن کے ساہوکار اور ٹھیکیدارسب کچھ جانتے ہیں مگربات وہی مسلم دشمنی کی ہے۔کچھ اورنہ بن پڑاتوانہوں نے اسے میانمارکاداخلی مسئلہ قراردے ڈالا کیونکہ ان کی نظرمیں مسلم خون کی کوئی اہمیت ہی نہیں،یہی راگنی تومسلم حقوق کوہڑپ کرنے والی ،بنگال کی قاتل ڈائن حسینہ واجد،گجرات کا قصائی نریندرمودی الاپتارہتاہے اوراب یہی سوچ برماکی خونخوارڈائن آنگ سان سوچی کی ہے جوعالمی امن کاتاج سرپرسجائے ،امن دشمن اور مسلمانوں کے قتل وغارت کی سرگرمیوں میں ملوث اپنی فوج اوربدھ بھکشوؤں کی سرپرستی کررہی ہے،اسے اوراس کے ہمنواؤں کوجوہم مسلمانوں کی اپنی ہی صفوں کے درمیان بڑی تعداد میں موجودہیں،انہیں صرف یہ بتانامقصودہے کہ ظلم ہمیشہ قائم نہیں رہتا،کوئی کتناہی ہلاکوخان بنے، چنگیزیت پھیلائے،بش،ٹرمپ اورٹونی کاروپ اختیارکرلے یاظالم موشے دایان اورنیتن یاہوجیسامکروہ چہرہ لیکرنمودارہو، جلدیا بدیرقدرت اس سے حساب اورانتقام لے لیتی ہے۔

پوری دنیامیں مسلمانوں پرجوظلم وستم ہورہاہے اس حوالے سے سب سے زیادہ افسوسناک کردار مسلم خصوصاً عرب ممالک کے سربراہان وحکومتیں کررہی ہیں۔حیرت وحمیت سے عاری ان حکمرانوں میں اتنی جرأت بھی نہیں ہے کہ صرف پوچھ ہی سکیں کہ آخربے گناہ مسلمانوں کاخون کیوں بہایا جارہاہے؟ کیامسلمان انسان نہیں ہیں؟لیکن یہ سوال بھی کون کرے جب ہمارے اپنے ہی حکمران سرجھکاکرعالم کفرکے ایجنڈے پرچلتے ہوں اوراپنے اقتدارکیلئے اپنوں کوبھی مارنے کیلئے ہمہ وقت تیارہوں توپھراغیارسے شکوہ کیسا؟ مجھے وہ شرمناک دن بھی یادہے جب گجرات کا قصائی اور مسلمان کے خون کوایک کتے کے بچے سے تشبیہ دینے والاافغانستان کی سرزمین پرکھڑاہو کرپاکستان کے خلاف لعنت ملامت کے بعدلاہور پہنچاتو سابقہ نااہل وزیراعظم نواز شریف خودبنفس نفیس اس کولاہورائیرپورٹ سے خصوصی سرکاری ہیلی کاپٹرمیں اپنے ذاتی محل جاتی امرا میں لے گئے جہاں ان کی نواسی کی شادی کی تقریبات جاری تھیں ،توخودسوچیں کہ ان کشمیری مسلمانوں پرکیاگزری ہوگی جن کے نوجوان بچے اوربچیاں اس وقت پیلٹ گن سے عمربھرکیلئے بصارت سے محروم کئے جا رہے تھے،اس بوڑھے ضعیف سید علی گیلانی کادل بھی خون کے آنسورورہاہوگا،میری بہادربہن اورپاکستان کی محبت میں سرشارآسیہ اندرابی کی غیرت کوبھی پسینہ آرہاہوگا لیکن دنیا نے کیسامکافاتِ عمل دیکھاکہ اب رسوائی نوازشریف کامقدربن گئی ہے اورمزید آزمائشوں اورمصائب وآلام کے بندکواڑابھی کھلنے کے منتظرہیں۔

فلسطین ہویاکشمیر،شام ہویاچیچنیا،افغانستان ہویاعراق،تیونس ہویامیانمار کے مظلوم مسلمان،ہرجگہ مسلمانوں کاخون بیدردی سے بہایاجارہاہے، مسلمانوں ہی کی نسل کشی کی جا رہی ہے لیکن عالم اسلام کے ستاون ممالک سالہاسال سے زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ رہے،زیادہ سے زیادہ اپنی پارلیمنٹ میں دھواں دارتقریرکرکے ،قراردادپاس کرواکے وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض اداکردیالیکن کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ کہہ سکیں کہ اگرتم بازنہ آئے توپھرمیدان جنگ میں فیصلہ ہوگا۔کسی بھی اسلامی ملک کویہ توفیق نہیں ہوئی کہ بھارت جوکشمیرمیں ظلم وستم کے پہاڑتوڑ رہاہے اوراقوام متحدہ کی قراردادوں پرعملدرآمدکرنے کی بجائے آئے دن اس کے پرزے اڑارہاہے،اس کولگام دینے کیلئے کوئی ہلکاسا بیان ہی دیں، مودی سے یہ تو سوال کریں کہ آخر کشمیریوں پرعرصہ حیات کیوں تنگ کیاجارہاہے بلکہ الٹاحال یہ ہے کہ ہمارے انتہائی برادراور محترم دوست سعودی عرب نے 44 / ارب ڈالرکی مہاراشٹربھارت کی ریفائنری میں سرمایہ کاری کااعلان کیاہے جس سے بھارت میں بارہ ہزارآسامیوں کی جگہ نکلی ہے اورادھرسعودی عرب کے سب سے بڑے ادارے ''آرامکو''میں تمام اہم امورکی نگرانی بھارتی افرادکے سپردہوچکی ہے۔ایک خبرکے مطابق پاکستان جوپچھلی چھ دہائیوں سے سعودی فوجی افسران کواپنے ہاں تربیت دیتاتھا اب سعودی فوجی افسران کوجنگی تربیت کیلئے بھارتی اکیڈمی میں بھیجاجارہاہے جبکہ عالمی اسلامی فوج کی سربراہ جنرل راحیل کے ناک کے نیچے یہ تمام اقدامات سرانجام پائے ہیں ۔ یہ بات تواسی دن سمجھ میں آگئی تھی اور میراوجدان گواہی دیتا ہے کہ اسی محل کے مکیں شاہ فیصل شہید جوپاکستان کے دولخت ہونے پرپھوٹ پھوٹ کرروئے تھے،اس کی روح بھی اس وقت تڑپ گئی ہو گی جب سعودی فرمانرواشاہ سلمان ، سعودی
عرب کاسب سے بڑاسول اعزازخوداپنے ہاتھوں جلاد صفت مودی کے گلے میں پہنا رہاتھا۔

اسی طرح متحدہ امارات کے حکمران جس فراخ دلی سے مودی پراپنی نوازشیں لٹارہے ہیں،پہلی مرتبہ اپنے ہاں مودی کی سنگت میں مندر کی تعمیرسے لیکرپوجاپاٹ تک کے تمام مناظرآج بھی نقش ہیں اورفلک نے یہ منظربھی دیکھاکہ پہلی مرتبہ مودی نے وہاں ایک جلسہ عام میں پاکستان پرطنزکے ایسےتیرچلائے کہ محسوس ہورہاتھاکہ مودی متحدہ امارات میں اپنی کوئی انتخابی مہم چلارہاہے۔اس میں شک نہیں کہ سابقہ حکمران نوازشریف نے وزارت خارجہ کاقلمدان خود مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں تھامے رکھااورانہی کے دور حکومت میں ان دوستوں سے اتنا فاصلہ بڑھاکہ یہ روزبد دیکھنا نصیب ہوا۔ اسی طرح فلسطین میں اسرائیل نے قبلہ اوّل مسجداقصیٰ پرقبضہ کیاہواہے اورزبردستی فلسطینی بستیوں پرقبضہ کررہاہے جہاں مسلمانوں کوبیت المقدس میں نمازپڑھنے کی اجازت تک نہیں دی جارہی لیکن اس ظلم کے خلاف بھی کوئی نہیں بولتا،کوئی اسلامی فوج حرکت میں نہیں آتی بلکہ نوجوان سعودی ولی عہدکے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کوئی ڈھکے چھپے نہیں رہے۔

مصری جابرڈکٹیٹرالسیسی کی معاونت سے مصری قبطی عیسائیوں کے سربراہ سے اس کے دفتر اسکندریہ میں سعودی شہزادے ولی عہد کی ملاقات کے بعدمشترکہ اعلامیے نے بھی مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی مستقبل کے خدوخال واضح کردیئے۔یادرہے کہ مصرکے جمہوری منتخب صدرمرسی کی حکومت کے خلاف اسی قبطی عیسائی سربراہ نے جوزہراگلاتھا،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں گویا اخوان المسلمین کوواضح پیغام دینے کامقصداپنے ان ان آقاؤں کی خوشنودی مقصودتھی جومسلمانوں کے خون کے پیاسے اسرائیل کواس خطے میں حکمران دیکھناچاہتے ہیں۔

مسلم حکمرانوں کی ذہنی پسماندگی وافلاس کودیکھتے ہوئے اب دین اسلام کے پیروکارسلطان صلاح الدین ایوبی،ٹیپوسلطان اورمحمدبن قاسم کویادکر رہے ہیں کہ کوئی تومسلمان حکمران اوراس ملک کاسپہ سالاران غازی اورشہیدوں کاکرداراداکرے گا مگرہمارامذہبی حلقہ یہ بات بھول جاتاہے کہ جو حکمران تعلیمی نصاب میں سلطان صلاح الدین ایوبی،ٹیپوسلطان او ر محمدبن قاسم کو برداشت نہ کرتے ہوں اوران کے کارناموں اورجہادی زندگی کونصاب سے نکال کرمغرب کوخوش کرتے ہوں،وہ مظلوم مسلمانوں کی مدداورامت مسلمہ کے اتحادکیلئے بھلاکیا کردار اداکریں گے۔ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کوامریکااورمغرب کی لونڈی اقوام متحدہ آنکھیں بندکرکے دیکھ رہی ہے جبکہ ایسے اداروں کواب بندہو جانا چاہئے جہاں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے شرمناک واقعات کی نہ صرف اجازت دے دی جائے بلکہ ان ظالموں اورجابرقوتوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے ان کے ایسے ظالمانہ اقدامات کی توثیق کی جائے۔اگرکسی یہودی ،عیسائی یاکسی غیرمسلم کوکوئی خراش بھی آجائے تواقوام متحدہ فوری آنکھیں کھول کربیدارہوجاتاہے جبکہ افغانستان، کویت،عراق، لیبیا اور شام پرحملوں کی اجازت دے دیتاہے۔

عراق پرجن الزامات کی بناء پرحملہ کرکے اسے مکمل طورپرتاراج کردیاگیا،صدیوں پرانی تہذیب کے پرخچے اڑادینے کے ساتھ ڈیڑھ ملین مسلمان مردوزن اوربچوں کوشہیدکردیاگیا،اس ساری تباہی کے عمل کے بعدٹونی بلیئرمیڈیاکے سامنے اپنے اس عمل کی معافی مانگ کربری الذمہ ہوجاتا ہے۔ کیااس کے افسوس کاایک جملہ اس تباہی کامداوابن سکتاہے؟یقینًاایساہرگزنہیں ہوسکتاتوکیااقوام متحدہ نے جارحیت کرنے والے قاتلوں کیلئے کوئی سزاتجویزکی؟ابھی تک عراق پران جارح قوتوں کا قبضہ ہے اوراس خطے میں کویت ،قطراورسعودی عرب میں ان کے فوجی اڈے قائم ہیں جہاں ان ملکوں سے باقاعدہ بلین ڈالرزکے حساب سے سالانہ تاوان لیاجارہاہے اوربس اسی پراکتفانہیں بلکہ قطر اورسعودی عرب کے حالیہ اختلافات پر ٹرمپ نے دونوں فریقوں کونہ صرف اربوں ڈالرکا اسلحہ فروخت کیاہے بلکہ اس علاقے میں سب سے بڑابحری اڈہ قطرنے اپنے خزانے سے تیار کرکے امریکاکے حوالے کیاجہاں امریکاکی دس ہزارسے زائد نفری دفاع کے نام پرقطرکے خزانے پرعیش کررہی ہے۔اسی طرح خلیج فارس میں ایران اورعربوں کے درمیان یمن کی جنگ میں دونوں کوالجھاکر اوردشمنی کابیج ڈال کرکھربوں ڈالرکا اسلحہ سعودی عرب اورمتحدہ امارات کوفروخت کرنے کے معاہدے کرکے اپنے اسلحہ کی دیوالیہ ہوتی ہوئی صنعت کودوبارہ پاؤں پر کھڑا کردیاہے ۔

یہی معاملہ افغانستان کے ساتھ پیش آیا،اب خودکئی امریکی ادارے اورتھنک ٹینک اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ نائن الیون کے خودساختہ واقعے میں افغانستان میں بیٹھے نامزدافراد کو کوئی ہاتھ نہیں تھا بلکہ اسے دوسری قوتوں نے اپنے مقاصدکیلئے سرانجام دیا۔نائن الیو ن پرامریکی دفاعی تجزیہ نگاروں اوردوسرے کئی محققین نے ٹھوس شواہدکے ساتھ ایسی کئی کتابیں تحریرکی ہیں اوردرجنوں ڈاکومینٹریزبھی موجودہیں جن میں یہ ثابت کیاگیاہے کہ اسامہ بن لادن اوراس کے ساتھیوں کے پاس ایسی ٹیکنالوجی سرے سے موجودہی نہیں تھی جونائن الیون کے حادثے میں استعمال ہوئی لیکن کسی اسلامی ملک یاکسی ادارے کے پاس اتنی جرأت نہیں کہ نائن الیون کے بعدمسلمانوں پراس افتادپرامریکااوراس کے اتحادیوں سے اس کھلم کھلاجارحیت کی بازپرس کر سکے یااس پراحتجاج بھی کرسکے۔

ہوناتویہ چاہئے تھاکہ اقوام متحدہ جس کی تشکیل دنیامیں ظلم اورجارحیت کے خلاف سیسہ پلائی دیواربن کرمظلوم اورمتاثرہ اقوام اورملکوں کوانصاف میں مددفراہم کرناتھی،اس کوتوبلاتفریق اور بلارنگ ونسل انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف سراپااحتجاج بن جاناچاہئے تھامگریہ ادارہ صرف مسلمانوں کوکچلنے اورایک دوسرے سے لڑانے کے بارے میں سوچتارہتاہے اور مسلمانوں پر لشکرکشی کرنے والی قوتوں کی پاسبانی کافریضہ سرانجام دے رہاہے لیکن کیااسلامی ملکوں کے حکمران کواپنے دشمنوں کاادراک نہیں؟وہ صرف اپنے اقتدارکیلئے نہ صرف قومی دولت کودونوں ہاتھوں سے لٹارہے ہیں بلکہ امت مسلمہ کے خون کی ارزانی کے بھی سب سے بڑے ذمہ دارہیں جس کاجلدیابدیربہرحال جواب دیناپڑے گا اوروہ یومِ حساب اب زیادہ دور نہیں ۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 356415 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.