علامہ اقبال نے عرب کے ساتھ اور ہندوستان سے قبل چین کا
ذکر کیا ۔ یہ محض ایک رعایتِ شعری بھی ہوسکتا ہے لیکن حال میں چین کے اندر
ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس میں چینی مسلمانوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ عربی
و ہندی مسلمانوں سے زیادہ جری و دلیر ہیں۔ ہوا یہ کہ چین کے خود مختار
علاقے نینگشیا کی مقامی حکومت نے جامع مسجد ’ویزہوو‘ کے انہدام کا فیصلہ
کیا۔ یہ معاملہ بابری مسجد کی شہادت سے قدرے مختلف تھا ۔ بابری مسجد کی
شہادت کے وقت ایک پرتشدد ہجوم کو اکسایا جارہا تھا جسے ملائم سنگھ یادو ایک
بار اس کے ناپاک منصوبے میں ناکام بنا چکے تھے ۔ صوبائی حکومت بظاہر اور
مرکزی بباطن قانون شکن بدمعاشوں کی حمایت کررہی تھی مگر عدالت عظمیٰ میں
بابری مسجد کےتحفظ کا ڈھونگ بھی رچا رہی تھی۔ عدالت کاجھکاو بابری مسجد کے
تحفظ میں تھا ۔ مسلمانوں نے آنکھ موند کر ان اداروں پر بھروسہ کیا اور
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے یہاں تک کہ بابری مسجد شہید کردی گئی ۔
اس کے برعکس چینی مسلمانوں نے نہ عدالت کے دروازے پر دستک دی اور نہ حکومت
کے آگے گہار لگائی بلکہ وہ اپنی عباتگاہ کی حفاظت کے لیے ہزاروں کی تعداد
میں جامع مسجد کےقریبی چوک پر جمع ہو گئے اور سڑک کو روک کرحکومت مخالف
نعرے لگانے لگے ۔ مقامی حکام سے مذاکرات کا دور شروع ہوا ۔ مظاہرین کو
سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ یہ تعمیرات غیر قانونی ہیں۔ اس کے لیے ضروری
کاغذی کارروائی مکمل نہیں کی گئی ہے۔ اجازت نامہ نہیں لیا گیا ۔ اس لیے
قانون کی پاسداری کا تقاضہ ہے کہ مسجد کو گرادیا جائے۔ اس کے لیے غیر ممالک
سے غیر قانونی طریقے پر مالی وسائل فراہم کیے گئے ہیں۔ درمیان کا راستہ یہ
نکالا گیا کہ انہدام جزوی ہوگا اور درمیانی گنبد کےبجائے آس پاس کے حصے کو
منہدم کیا جائے گا وغیرہ وغیرہ لیکن مظاہرین ٹس سے مس نہیں ہوئے اور کسی
مصالحت پر آمادہ نہیں ہوئے ۔ یہاں تک کہ شہری حکومت کے سربراہ کو وفاقی
حکومت سے بات چیت کرکے اس کوراضی کرنا پڑا ۔ بالآخر اس یقین دہانی کے بعد
منتشر ہوئے کہ مسجد کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا۔ اس طرح کامیاب و کامران
مظاہرین اپنے گھروں کو واپس ہوئے۔
اس ایمان افروز واقعہ کو پڑھنے کے بعد بابری مسجد کی بازیابی کے لیے بابری
مسجد ایکشن کمیٹی کے تحت چلائی جانے والی تحریک کی یاد تازہ ہوگئی۔ اس کے
دہلی اعلامیہ میں تین فیصلے ہوئے تھے ۔ پہلا ۲۶ جنوری کو یوم جمہوریہ کے
جشن کا بئیکات کیا جائے یعنی اس میں شرکت نہیں کی جائے ۔ دوسرا فیصلہ تھا
کہ ۲فروری کو دہلی کے بوٹ کلب پر ایک احتجاجی ریلی نکالی جائے اور تیسرا
مسلمان ایودھیا مارچ کریں ۔ ان میں سے ۲۶ جنوری کو جشن جمہوریہ نہیں منانے
کے فیصلے کو غیر مسلم کرم فرماوں کے کہنے پر واپس لے لیا گیا ۔ وہیں سے
تحریک کی پسپا ہونا شروع ہوئی ۔ ہر ایک کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ کسی جشن
میں شریک ہو یا گریز کرے ۔ اس کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔ عدم
شرکت سے کوئی غدار وطن نہیں ہوجاتا ۔ ہر سال بہت سارے لوگ کسی نہ کسی وجہ
سے اپنے آپ کو جشن جمہوریہ یا جشن آزادی سے دور رکھتے ہیں ۔ اس پر کوئی
قیامت نہیں آتی لیکن مسلم رہنما بلاوجہ کے دباو میں آگئے اور فیصلہ واپس
لے لیا ۔
بوٹ کلب کی ریلی کےبارے میں یہ طے کردیا گیا کہ لوگ جلوس کی شکل میں نہیں
جائیں گے۔ یہ نہیں سوچا گیا کہ باہر سے آنے والے لوگ صبح سویرے کہاں آئیں
گے؟ اور جہاں آئیں گے وہاں سے بوٹ کلب تک کیسے جائیں گے ؟ حکومت نے ناکہ
بندی کردی۔ بسوں کو روک دیا۔ ریل گاڑیوں کومؤخر کیا اس کے باوجود ہزاروں
لوگ دہلی کی جامع مسجد میں آگئے اور وہاں سے جلوس کی شکل میں بوٹ کلب گئے۔
یہ جلوس بغیر کسی رہنما کے نکلا اس کے باوجود کمال نظم و ضبط کے ساتھ اپنی
منزل پر پہنچا ۔ مسلمانوں کایہ دہلی کے اندر نہایت کامیاب احتجاج تھا۔ اس
کے بعد تیسرے مرحلے کو یکسربھلا دیا گیا اورحکومت و عدالت کے وعدوں پر
اعتماد کیا گیا ۔ اس کے برعکس چینی مسلمان کسی جھمیلے میں نہیں پڑے۔ انہوں
نے صرف آخری فیصلے پر عمل کیا اور اپنی مسجد کو بچانے میں کامیاب ہوگئے۔
ان واقعات کا معروضی جائزہ نامکمل ہے جب تک چین اور ہندوستان کے مسلمانوں
کی آبادی کے تناسب کا موازنہ کیا جائے نیز یہ دیکھا جائے کہ ان دونوں
ممالک میں رائج نظام حکومت کا مسلمانوں کے تئیں کیسا رویہ ہے؟ چین کی
آبادی ہندوستان سے زیادہ لیکن ۲۰۰۹ کی مردم شماری کے مطابق وہاں مسلمانوں
کی آبادی صرف دو کروڑ سولہ لاکھ ،سڑسٹھ ہزار ہے۔ یعنی چین کی مسلم آبادی
کا تناسب ہندوستان کے مقابلے دس گنا کم ہے ۔ چین کے اندر عوام کی بڑی تعداد
کسی مذہب کو نہیں مانتی اس کے باوجود چین میں مذہبی لوگوں کی تعداد جملہ
۲۰کروڑ ہے۔ اس طرح مذہب کے ماننے والوں میں مسلمانوں کا تناسب ہندوستان کے
برابر ہے۔ وہاں کے بڑے مذاہب بدھ مت، تاؤازم، اسلام، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ
ہیں۔ چین کی دس ا ہم اقلیتوں میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے جبکہ
کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کی آبادی بالترتیب ۶۰ لاکھ ۳۸ لاکھ ہے۔یہ صورتحال
ہندوستان سے مماثل ہے اس لیے کہ یہاں بھی مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں ۔ چین
کی جملہ ایک لاکھ ۴۴ ہزار مذہبی عبادت گاہوں میں ۳۵ ہزار مساجداورساڑھے ۳۳
ہزار بودھ وہار ہیں۔یہ تعداد ہندوستان کے مقابلے بہت کم ہے لیکن آبادی کے
مطابق ہے۔
چین کے اندر جمہوریت نہیں ہے ۔ وہاں کاسیکولرزم سارے مذاہب کے یکساں احترام
کا پاکھنڈ نہیں کرتا۔ ملک چین میں ملحدانہ اشتراکی آمریت ہے ۔ وہاں ایک
پارٹی کی حکومت ہے اور سربراہ تا حیات ہے۔ وہاں پر حقوق انسانی کی پامالی
کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ مسلمانوں کے تعلق سے چینی حکومت کا رویہ خاصہ سخت
ہے ۔ بین الاقوامی خبررساں ایجنسی اے ایف پی نےگزشتہ سال جولائی کو کاشغر
سے جاری کیے جانے والے تفصیلی جائزے میں لکھا تھا کہ پاکستان سے متصل چین
کے صوبے سنکیانگ میں ۵۰ سال سے کم عمر والوں کوداڑھی رکھنے کی ، طلباء اور
سرکاری ملازمین کو روزے رکھنے کی اور عوامی مقامات پر عبادت یعنی نماز کی
اجازت نہیں ہے۔اسکولوں میں طلبا و طالبات کے ’السلام علیکم‘ یا ’وعلیکم
السلام‘ کہنے کو علیحدگی پسندی کے مترادف قرار دے کران کی حوصلہ شکنی کی
جاتی ہے۔ خواتین کے برقعے پہننے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
نماز عید کے لیےدور دراز سے آنے والےمسلمانوں کو حکومتِ کاشغر شہر کے آس
پاس تفتیشی چوکیاں قائم کر کے روکتی ہے۔ حکومت یہ جبر علیحدگی پسندانہ
تحریکوں اور مسلم انتہا پسندی کو پھیلنے سے روکنے کے بہانے کرتی ہے لیکن
تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ چین کی اس مسلم اکثریتی صوبے کوایک ’کھلی جیل‘
میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔چینی حکومت وہاں عدیم المثال پولیس اسٹیٹ قائم کر
رہی ہے۔ ۲۰۰۹ سے اب تک اس صوبے کے دارالحکومت ارومچی میں قریب ۲۰۰ افراد
مارے گئےہیں ۔ چینی صدر شی جن پنگ نے اس علاقے کے ارد گرد ’ایک عظیم فولادی
دیوار‘ کھڑی کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
چین کے شمال مغربی علاقے میں قریب ایک کروڈ ایغور مسلمان آباد ہیں۔ورلڈ
ایغور کانگریس کے پریس ترجمان عالم سیتوف کے مطابق شی جن پنگ کے برسر
اقتدار سنبھالنے کے بعد درجنوں ایغور مسلمان باشندوں کو ماورائے عدالت موت
کے گھاٹ اتارا جا چُکا ہے۔ سکیورٹی فورسز اکثر و بیشتر بغیر عدالتی
کارروائی یا مقدمے کی سماعت کےایغوروں کا انکاونٹر کردیتی ہے اوربعد میں
انہیں علیحدگی پسند، دہشت گرد یا انتہا پسند قرار دے دیاجاتا ہے ۔ اقوام
متحدہ میں انسانی حقوق کی کمیٹی نےحال میں انکشاف کیا ہے کہ چین میں ا یغور
اقلیت کے تقریبا دس لاکھ افراد کو ایک بہت بڑے خفیہ حراستی کیمپ نما مقام
پر تحویل میں رکھا گیا جہاں "سیاسی نظریے کی جبری تلقین" کی جاتی ہے۔
اسرائیلی مظالم کی حمایت کرنے والے اقوام متحدہ میں امریکی مشن نے ایک
ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ "ہم چین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی اس پالیسی کو
ختم کرے جس کے برعکس نتائج سامنے آ رہے ہیں اور ساتھ ہی تمام جبری گرفتار
شدگان کو فوری طور پر رہا کرے"۔چین میں انسانی حقوق کے دفاع کی ایک تنظیم
نے گزشتہ ماہ اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ۲۰۱۷میں چین کے اندر ہونے والی
مجموعی گرفتاریوں میں ۲۱ فیصد سنکیانگ کے علاقے میں ہوئی ہیں۔ چین میں ا
یغور اقلیت اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ اُن کی نسلی اور مذہبی شناخت پر
"ریاست کے دشمنوں" جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔اس سنگین صورتحال کے باوجود چین
کے شمال مشرقی علاقے کے شہر ویزھو میں ہزاروں مسلمانوں کا احتجاج کرکے مسجد
کو مسمار کرنے کی حکومتی سازش کو ناکام بنا دینا نہایت قابل تحسین اقدام
ہے۔ اس سے ساری دنیا کے مسلمانوں کو عزیمت کے ساتھ ظلم و جبر کا مقابلہ
کرنے کا درس دیتا ہے۔ نہ جانے کیا سوچ کر علامہ اقبال نے جب ساری دنیا کے
مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دی تو نیل کے ساتھ کاشغر کا ذکر فرما دیا ۔
حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں مقامات پر اہل ایمان بڑے عزم و حوصلہ کے ساتھ باطل
سے نبردآزما ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان اس جدجہد
میں ان کے ساتھ شانہ بشانہ شامل ہوں ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کےساحل سے لے کر تابخاک کاشغر |