2008ء کے انتخابات کے بعد ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کی چھتری
تلے نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ نوازلیگ نے اِس شرط
کے ساتھ مخلوط حکومت میں شرکت کی حامی بھری کہ حکومت کی تشکیل کے بعد
پیپلزپارٹی سب سے پہلے عدلیہ بحال کرے گی۔ میاں نوازشریف اور آصف زرداری نے
مشترکہ پریس کانفرنس میں اِس کا اعلان بھی کیا لیکن حکومت کی تشکیل کے بعد
آصف زرداری نے پہلے تو لیت و لعل سے کام لیا اور بعد ازاں عدلیہ بحالی سے
صاف انکار کر دیا۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ اُنہوں نے تو عدلیہ بحالی کا
’’وعدہ‘‘ فرمایا تھا تو آصف زرداری نے کہا ’’وعدے قُرآن و حدیث نہیں ہوتے
‘‘۔ نواز لیگ مخلوط حکومت سے الگ ہوئی ، بعد اَز خرابیٔ بسیار عدلیہ بحال
بھی ہوگئی لیکن آصف زرداری کا یہ جملہ فضاؤں میں گونجتا رہا اور میثاقِ
جمہوریت کو لوگوں نے ’’مذاقِ جمہوریت‘‘ کہنا شروع کر دیا۔
2018ء کے انتخابات کے بعد سوائے تحریکِ انصاف کے تمام سیاسی جماعتوں نے اِن
انتخابات کو ’’دھاندلی زَدہ‘‘ قرار دے دیا۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنی
کھُلم کھُلا دھاندلی پہلے کبھی دیکھی نہ سُنی۔ ’’صاف چلی ،شفاف چلی‘‘ کو
حقِ حکمرانی تو مَل گیا لیکن الیکشن کمیشن کی شفافیت داغدار ہوگئی۔ اب
صورتِ حال یہ کہ عدلیہ کے متنازع فیصلوں پر سِرِ عام تنقید کی جا رہی ہے،
نیب اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنے میں ناکام ہو چکی اور الیکشن کمیشن کا
دامن داغدار ہو چکا لیکن انتہائی تکلیف دہ یہ کہ تینوں جگہ عدل کی حکمرانی۔
نیب کا سربراہ ریٹائرڈ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن کا سربراہ بھی
سپریم کورٹ ہی کا ریٹائرڈ جسٹس۔ اِس کے علاوہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت
کے فیصلے بھی تنقید کی زَد میں۔ جب عدلیہ پر اعتماد کا عالم یہ ہو تو پھر
قوم ترقی کا خواب تو بھول ہی جائے۔ امیرالمومنین حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’اگر
کسی کی وجاہت کے خوف سے عدل کا پلڑا اُس کی طرف جھُک جائے تو پھراسلامی
حکومت اور قیصروکسریٰ کی حکمرانی میں کیا فرق ہوا؟۔
2018ء کے ’’دھاندلی زَدہ‘‘ الیکشن کے فوری بعدپیپلزپارٹی اور نوازلیگ سمیت
تمام سیاسی جماعتیں (سوائے تحریکِ انصاف کے) سَر جوڑ کر بیٹھیں۔ مولانا فضل
الرحمٰن کسی بھی صورت میں حلف اٹھانے کے لیے تیار نہیں تھے، نوازلیگ گومگو
میں تھی لیکن پیپلزپارٹی پارلیمنٹ کا فورم استعمال کرنے کے حق میں تھی۔
چنانچہ فیصلہ ہوا کہ انتخابی دھاندلی پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر، دونوں
جگہ احتجاج کیا جائے گا۔ یہ بھی طے ہواکہ قومی یا کسی بھی صوبائی اسمبلی
میں تحریکِ انصاف کو ’’واک اووَر‘‘ نہیں دیا جائے گا۔ فیصلہ ہوا کہ قومی
اسمبلی میں وزیرِاعظم کے انتخاب میں نوازلیگ حصّہ لے گی جبکہ، سپیکر
پیپلزپارٹی اور ڈپٹی سپیکرایم ایم اے کے اُمیدوارہوں گے۔ اِسی فارمولے کے
تحت نوازلیگ نے پیپلزپارٹی کے سیّد خورشید شاہ اور ایم ایم اے کے اُمیدوار
کو ووٹ دیئے لیکن جب وزارتِ عظمیٰ کے انتخاب کی باری آئی تو زرداری صاحب
ایک دفعہ پھر یہ کہتے ہوئے صاف مُکر گئے کہ ’’وعدے قُرآن و حدیث نہیں ہوتے
‘‘۔ پیپلزپارٹی کی یہ دلیل انتہائی کمزور اور ناقابلِ قبول کہ نوازلیگ میاں
شہباز شریف کے علاوہ کسی بھی اُمیدوار کو سامنے لے آئے، وہ اُسے ووٹ دے گی۔
اگر یہی بات تھی تو پھر پیپلزپارٹی کو نوازلیگ کی طرف سے بلائی گئی ’’آل
پارٹیز کانفرنس‘‘ میں شرکت ہی نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ یہ تو طے تھا کہ
نوازلیگ کی طرف سے میاں شہبازشریف ہی وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار ہوں گے۔ اگر
میاں شہباز شریف کے ماضی میں کہے گئے جملوں پر اتنا ہی اعتراض تھا تو پھر
پیپلزپارٹی کو تحریکِ انصاف کے ڈی چوک اسلام آباد میں دیئے گئے دھرنے کے
دنوں میں بھی نوازلیگ کا ڈٹ کر ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا۔ دراصل بات کچھ
اور تھی۔ ہوا یہ کہ جونہی نوازلیگ اور پیپلزپارٹی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی
ہوئیں، مقتدر قوتیں حرکت میں آئیں اور آصف زرداری کے گرد گھیرا تنگ ہونے
لگا۔اُن کے انتہائی قریبی ساتھی انور مجید اور اُس کے بیٹے عبد الغنی مجید
کو مَنی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔ کراچی کی بینکنگ کورٹ نے جعلی
اکاؤنٹس سے متعلق آصف زرداری سمیت تمام ملزمان کو 4 ستمبر تک گرفتار کرکے
پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ آصف زرداری اور اُن کی بہن فریال تالپور کو پہلے
ہی ایف آئی اے نے طلب کر رکھا ہے۔ یہی وہ وجوہات تھیں جن کی بنا پر آصف
زرداری نے نوازلیگ سے فاصلہ رکھنے میں ہی عافیت جانی۔ اِسی لیے خواجہ سعد
رفیق نے طنزیہ انداز میں کہا کہ آصف زرداری کی ’’مجبوری‘‘ تھی۔
نوازلیگ کا صدر بن جانے کے بعد میاں شہباز شرف کا کردار بھی لائقِ تحسین
نہیں رہا۔ اُنہوں نے اپنے قول، فعل اور عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک
اچھے ایڈمنسٹریٹر تو ہو سکتے ہیں، لیکن پارٹی کی قیادت اُن کے بَس کا روگ
نہیں۔ اِس سارے عرصے کے دوران وہ مصلحتوں کے گرداب میں پھنسے رہے اور
’’کلمۂ حق‘‘ کہنے کی جرأت نہ کر سکے۔ میاں نوازشریف کی وطن واپسی پر وہ
استقبالی ہجوم کے ساتھ آسانی سے ایئرپورٹ تک پہنچ سکتے تھے مگر پتہ نہیں کس
مصلحت کے تحت وہ طے شدہ پروگرام سے لَگ بھگ تین گھنٹے بعد ریلی لے کر ایئر
پورٹ کی طرف روانہ ہوئے اور صرف ’’بھٹہ چوک‘‘ تک ہی پہنچ سکے۔ الیکشن کمیشن
اسلام آبادکے سامنے احتجاج کا اعلان خود میاں شہباز شریف نے کیا لیکن وہ
غیرحاضر رہے۔ بہانہ یہ بنایا کہ موسم خراب تھا، فلائیٹ نہیں جا سکی۔ اگر وہ
احتجاج میں شریک ہونا چاہتے تو آسانی سے بذریعہ موٹر وے اسلام آباد پہنچ
سکتے تھے لیکن شاید اُن کی جانے کی نیت ہی نہیں تھی۔ شنید ہے کہ وہ وزارتِ
عظمیٰ کے انتخاب کے بعد پارلیمنٹ میں احتجاج کے حق میں بھی نہیں تھے لیکن
اپنی پارلیمانی پارٹی میں بغاوت کے آثار دیکھ کر وہ احتجاج پر مجبور ہوئے۔
شائد اُنہیں ادراک ہی نہیں کہ نوازلیگ کو ووٹ میاں نوازشریف کے ’’بیانیے‘‘
پر پڑے، اُن کے ترقیاتی کاموں پر نہیں۔ اُنہیں سمجھ لینا چاہیے کہ
قیس سا پھر نہ اُٹھا کوئی بنی عامرمیں
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص
شریف خاندان میں وہ لائقِ فخر شخص میاں نوازشریف ہے، صرف میاں نوازشریف جو
ڈَٹ کر کھڑا ہو ا اور تاریخ رَقم کر گیا۔
17 اگست کو کپتان 176 ووٹ لے کر وزیرِاعظم منتخب ہو گئے جبکہ میاں شہباز
شریف کو پیپلزپارٹی کی مہربانی سے 96 ووٹ ملے۔ یہ تو طے تھا کہ میاں شہباز
شریف کسی بھی صورت میں وزارتِ عظمیٰ کا انتخاب نہیں جیت سکتے لیکن
پیپلزپارٹی کا سیاسی کردار بھی کھُل کر سامنے آگیا جس نے وزارتِ عظمیٰ کے
انتخاب سے لاتعلقی کا اظہار کرکے یہ ثابت کر دیا کہ اُس کی سیاست اُس کے
ذاتی مفادات کے گرد ہی گھومتی ہے۔ پاکستان کے 22 ویں وزیرِاعظم کے خطاب کے
دَوران ایوان انسانوں کے جنگل میں دنگل کا سا سماں پیش کرتا رہا۔ ایوان میں
پارلیمانی تاریخ کی بدترین ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی۔ خواجہ آصف ایجنڈے
کی کاپیاں پھاڑ پھار کر عمران خاں پر پھینکتے رہے۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد
میاں نوازشریف کی تصویریں اُٹھا کر سپیکر کے ڈائس کے سامنے دھرنا دے کر
بیٹھ گئیں۔ پھر قائدین کی جانب سے ہدایت ملنے پر خواتین نے اپنا رُخ عمران
خاں کی طرف موڑ دیااور انتہائی اشتعال انگیز نعرے بازی شروع کر دی۔ ایوان
،نوٹ دو،ووٹ لو ،چور چورووٹ چور، عمران خاں ووٹ چور، جعلی مینڈیٹ نا منظور،
جعلی وزیرِاعظم نا منظورکے نعروں سے گونجتا رہا۔ خیال یہی تھا کہ پندرہ بیس
منٹ میں یہ ہنگامہ آرائی ختم ہو جائے گی تو نئے وزیرِاعظم خطاب کریں گے
لیکن ہو ایہ کہ جونہی ایک گروپ نعرے لگاتا لگاتا تھک جاتا تو تازہ دَم گروپ
اُس کی جگہ لے لیتا۔ بلاول زرداری نے میاں شہباز شریف سے احتجاج ختم کرنے
کی درخواست بھی کی لیکن میاں صاحب نے صاف انکار کر دیا۔ پھر تحریکِ انصاف
کے شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک اور شیریں مزاری کی درخواست کو بھی میاں
صاحب نے دَرخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ چارونا چار کارروائی پندرہ منٹ کے لیے
ملتوی کر دی گئی لیکن جب عمران خاں نے خطاب شروع کیا تو ایک دفعہ پھر نون
لیگ کے ارکان جعلی وزیرِاعظم، کٹھ پُتلی وزیرِاعظم کے نعرے لگاتے رہے اور
ایوان مچھلی بازار بنا رہا۔ اب قوم خود ہی اندازہ کر لے کہ جس ایوان کی
ابتداء یہ ہے، انتہا کیا ہوگی۔ |