نئے پاکستان کی تقریبِ حلف برداری میں ہندوستان سے نوجوت
سنگھ سدھو اور جنرل باجوہ کی چند منٹوں پر محیط ملاقات پر انڈیا میں لے دے
ہو رہی ہے۔ ۔ تاریخ کا شعور رکھنے والے اصحاب اس بات سے متفق ہو ں گے کہ یہ
مختصر ملاقات دراصل ہندوستان کے تین بڑے مذہبی گروہوں کا نوحہ تھی۔
ہندوستانیوں کی نالائقیوں کی وجہ سے انگریز اِن پر مسلط ہوئے تھے۔ انگریزی
راج کے دوران جب آزادی کی تحریک زور پکڑنے لگی تو سب سے توانا آواز
سیکولر انڈیا کی دعویدار کانگریس کی تھی۔ جو انگریزی حکومت کےخاتمے اور
مقامی راج کی آواز تھی۔ اس نازک موڑ پر بد قسمتی سے کانگریس مسلمانوں کو
مطمئن نہ کر سکی۔ لہذا انہوں نے علیحدہ وطن کا مطالبہ کر دیا۔ تاریخِ
ہندوستان میں یہ ایک انوکھا مطالبہ تھا۔ کیونکہ دس صدیوں سے زائد عرصے سے
یہ دونوں قومیں اکٹھی رہتی آ رہی تھیں۔ پنجاب میں سکھ تیسری اقلیت کے طور
پر موجود تھے۔ اور وہ اپنے آپ کو اس دھرتی کا وارث اور فرزند سمجھتے تھے
کیونکہ سکھ مذہب کا وجود خالصتاً پنجاب میں ہی ہوا تھا۔ لیکن تلخ حقیقت یہ
ہے کہ تحریکِ پاکستان کے انتہائی اہم مرحلے پر سکھ قوم کسی بصیرت کا مظاہرہ
نہ کر سکی۔ اُن کے ہاں وہ دانش اور تنظیم موجود ہی نہیں تھی جو منقسم
ہندوستان میں اپنی جماعت کے وجود اور اپنےمفادات کا تحفظ کر سکے۔ وہ کبھی
کانگریس کی طرف بھاگتے تو کبھی مسلم لیگ سے بے نتیجہ ملاقاتیں کرتے رہے اور
پانی سر سے گذر گیا۔ تقسیم کے بعد اُن پر دوہری مصیبت آئی۔ پہلی بغیر
منصوبے کے انتقالِ آبادی کے مرحلے پر آئی۔ مشرقی پنجاب سے مسلمانوں اور
مغربی پنجاب سے سکھوں کی ہجرت ایک ایسا اندوہ ناک واقعہ ہے کہ جس کی نظیر
صدیوں میں نہیں ملتی۔ بچے، بوڑھے، مرد، عورت بلا تخصیص قتل ہوئے اور المیے
کی ایسی داستانیں وقوع پذیر ہوئیں کہ انسانیت ہار گئی اور درندگی جیت گئی۔
آج پاکستان میں صرف مسلمانوں اور انڈیا میں سکھوں کے قتلِ عام کی داستان
سنائی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دردندگی سرحد کے دونوں اطراف ہوئی۔
خون کی ہولی دونوں طرف کھیلی گئی۔ عزتیں اور مال و دولت دونوں طرف لوٹے گئے۔
مسلمانوں کی دو نسلیں یہ المیہ لے کر قریباً رخصت ہو چکی ہیں۔ ستر برس
گزرنے کے بعد اب ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے افراد کم ہی زندہ ہیں۔
اگلی نسلوں کے لئے یہ ایک کہانی اور افسانہ ہی ہے۔ یہی حال سکھوں کا مشرقی
پنجاب میں ہے۔ البتہ وہاں ایک ایسا گھاؤ لگ چکا ہے کہ جس کو نجانے کتنی
نسلوں نے بھگتنا ہے۔ وہ زخم سکھوں کے وہ مذہبی مقامات ہیں جو اس وقت
پاکستان میں موجود ہیں۔ جن کے درشن کے لئے دنیا بھر کے سکھ تڑپتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں سکھوں کے بیسیویں مذہبی مقامات موجود ہیں۔ لیکن اُن میں سے چند
ایک ایسے ہی ہیں جیسے مسلمانوں کے لئے کعبہ شریف۔ سکھ مذہب کے بانی بابا
گورونانک صاحب ننکانہ میں پیدا ہوئے۔ یہاں گوردوارہ جنم استھان ہے۔ جو بابا
جی کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے سکھوں میں نہایت قابلِ تکریم ہے۔ حسن
ابدال میں واقع گوردوارہ پنجا صاحب ہے جہاں ایک پتھر پر سکھ روایات کے
مطابق بابا جی کے ہاتھ کا نشان کندہ ہے۔ یہاں بھی سکھ پوری دنیا سے زیارت
کے لئے آتے ہیں۔باباجی نےاپنی زندگی میں ریاضت، تعلیم و تربیت کے لئے بہت
سفر کئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق بابا جی نے قریباً ۲۸ ہزار کلو میٹر کا
فاصلہ پیدل طے کیا تھا۔ جو دنیا میں ،سوائے ابنِ بطوطہ کے سیاحتی سفروں کے
،سب سے زیادہ پیادہ مسافت مانی جاتی ہے۔ بابا جی نے اپنے آخری سفر کے بعد
نارووال میں کرتارپور کواپنا مسکن بنایا تھا۔ اور اپنی زندگی کے آخری لگ
بھگ پندرہ سال وہاں کھیتی باڑی کی۔ا ور مخلوق کو انسانیت کا درس دیا۔ یہیں
پر بابا جی فوت ہوئے تھے اور یہی جگہ اُن کی اس دنیا میں آخری آرام گاہ
بنی۔ جس کی وجہ سے یہ سکھوں کا نہائت عقیدت کا مقام ہے۔ اس جگہ ایک
گوردوارہ تعمیر کیا گیا جس کا نام گوردوارہ دربار صاحب ہے۔ یہ گوردوارہ
پاکستان اورانڈیا کے درمیان سرحد سے صرف تین چار کلو میٹر پاکستانی علاقے
میں واقع ہے۔ سرحد پاراس کے بالمقابل ڈیرہ بابا نانک ہے جہاں بابا جی عبادت
اور گفتگو کے لئے جایا کرتے تھے۔ کرتار پور اور ڈیرہ بابا نانک کے درمیان
راوی بہتا ہے۔ صبح سویرے ہندوستانی سکھ ڈیرہ بابانانک اور پاکستانی کرتار
پور میں عبادت کرتے ہیں۔ دونوں اطراف کی آوازیں بھی دوسری طرف سنائی دیتی
ہیں۔ اور مناظر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ہندوستانی سکھ کرتار پور نہیں
آسکتے اور پاکستانی ڈیرہ بابا نانک نہیں جا سکتے۔ یہ کیسی تقسیم ہے کہ
انسانوں کو تڑپائے ہوئے ہے۔ سکھوں کے لئے کرتار پور کا راستہ کھلنا ایک
عظیم فتح ہے اور بقول نوجوت سنگھ سدھو کے یہ حاصلِ کائنات ہے۔ جنرل باجوہ
نے وزیرِ اعظم کی تقریبِ حلف برداری میں سدھو کو یہ راستہ کھلنے کی خوشخبری
سنائی ہے۔
سرحد کے دونوں طرف کی حکومتیں پاکستانی اور ہندوستانی عوام کے بلا روک ٹوک
ملنے کے حق میں نہیں ہیں۔ حالانکہ صرف دس سال کے لئے عوام کو ایک دوسرے سے
ملنے دیا جائے تو اِن دونوں ممالک کی خوفناک دشمنی کی شدت میں خاطر خواہ
کمی آسکتی ہے۔ اور اگر یہ عمل پچیس سال تک جاری رکھا جائے تو تمام نزاعی
معاملات طے ہونے کی توقع ہے۔ دونوں ملکوں نے جنگ اور حکومتی مذاکرات کر کے
دیکھ لئے ہوئے ہیں۔ اِن دونوں سے نزاعی معاملات کا حل نہیں نکل پایا ہے۔
مذاکرات کے ساتھ ساتھ عوام کو سرحد پار ملنے دیں تو برِصغیر کی فضا میں
تلخی کم ہو جائے گی۔ آخر الذکر بات یہ ہے کہ خلیفہ دوم جناب عمر بن خطاب
نے جب مسجد اقصی فتح کی تو آپ بیت القدس تشریف لے گئے۔ وہاں موجود گرجا
گھر میں جب نماز کا وقت آیا تو آپ سے کہا گیا کہ نماز یہیں ادا کر لیں۔
لیکن آپ نے صرف اس لئے گرجا گھر سے باہر نماز ادا کی تھی کہ آنے والے وقت
میں مسلمان اس گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل نہ کر دیں۔ گویا آپ نے عیسائیوں
کی عبادت گاہ کی تکریم کی۔ تو ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم اپنی سرزمین پر
موجود تمام دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کا وجود کھلے دل سے تسلیم کریں اور
انہیں اُن کے مذاہب کے پیروکاروں کے لئے کھول دیں اور اِس سلسلے میں سکھوں
سمیت تمام غیر مسلموں کو سہولت پہنچایئں۔ کیونکہ اسلام دینِ رحمت ہے۔ دینِ
فساد نہیں۔ اور یہ بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ اسلام ایک بہت مضبوط بنیاد پر
استوار دین ہے جس کے وجود میں مذہبی رواداری کے تصور سے قطعاً کو ئی خطرہ
نہیں ہے۔ سکھوں کو کرتار پور آنے جانے دیں ، اس سے کسی کو نقصان نہیں
ہوگا۔ بلکہ آنے والی نسلیں خون خرابے سے بچ جائیں گی۔ |