بہزاد لکھنوی نے کہا تھا : اے جزبہ دل گر میں چاہوں ہرچیز
مقابل آجائے ۔۔منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے !جذبہ سچا ہو
تو منزلیں قدم چوم لیتی ہیں اوربالآخر عمران خان نے موروثی سیاست کی روایت
توڑتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 22ویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا
لیا ہے ۔تخت پنجاب بھی ن لیگ کے ہاتھ سے نکل گیا ہے کہ جنوبی پنجاب کے
سردار عثمان بزدار(تحریک انصاف) وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہو چکے ہیں اور
وزیراعظم عمران خان کی کابینہ نے بھی حلف اٹھا لیا ہے۔یوں ہم نئے پاکستان
میں داخل ہو چکے ہیں ۔۔کہا جا رہا ہے کہ سٹیٹس کو اور رعونت کو شکست ہوئی
ہے مگر بھارتی نوجونت سنگھ سدھو نے تقر یب حلف برداری کے بعد پریس کانفرنس
میں ایک شعر پڑھا ہے اوراسی میں شکست و ریخت کا سارا فلسفہ ہے ۔
منزلیں ان کو ملتی ہیں جن کے سپنوں میں جان ہوتی ہے
پنکھوں سے کچھ نہیں ہوتا حوصلوں سے اڑان ہوتی ہے
عمران خان کی تقریب حلف برداری میں یوں تو بہت سی باتیں قابل ذکر ہیں جن پر
ادبی ، سیاسی ،صحافتی اور تجارتی حلقوں میں بحث جاری ہے جیسا کہ روایت کے
برخلاف صدر مملکت نے عمران خان سے مصافحہ نہیں کیا اورعمران خان کو حلف
نامہ اردو میں بغیر ریہرسل کے پڑھایا گیا چونکہ وہ نیازی ہیں اور انگلش پر
عبور زیادہ ہے توکچھ الفاظ آسانی سے ادا نہیں کر پائے بلاشبہ وہ اردو دان
نہیں ہیں لیکن اردو ہماری قومی زبان ہے اور اتنی آسان نہیں ہے کہ ’’نہیں
کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو ۔۔آتی ہے اردو زباں آتے آتے‘‘ مگر یہ اچھی بات
ہے کہ مہمانوں کی تواضح کے لیے 9 ڈشز کا مینیو تیار کیا گیا تھا مگر عمران
خان نے قائد اعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صرف منرل واٹر پیش کرنے کا کہہ
دیا جسے سفارش کے بعد چائے میں بدل دیاگیا ۔ قائد اعظم نے پہلی کابینہ کے
اجلاس میں مہمانوں کی تواضع کے حوالے سے یہی کہا تھاکہ : ’’پاکستان ایک
غریب ملک ہے وہ اتنی عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا ‘‘۔امید ہے کہ اس روایت
کو مستقبل قریب میں برقرار رکھا جائے گا ۔اس تقریب میں جہاں پاکستان کی
تمام اہم ترین شخصیات مدعوتھیں وہاں بھارتی نوجونت سنگھ سدھو کی آمد مستقبل
کے لیے بہت سی امیدیں اور سوال چھوڑ گئی کہ بھارتی میڈیا سابق وزیراعظم اٹل
بہاری واجپائی جو کہ دو دن پہلے انتقال کر گئے تھے ان کی آخری رسومات بھلا
کر نہ صرف براہ راست اس تقریب کو دکھاتا رہا بلکہ نوجونت سدھو کی گرمجوشی
اور بغلیگیری کو لے کر بغلیں بجاتا رہا اور سدھو کی وطن وفاداری پر سوال
بھی اٹھائے جا چکے ہیں کہ بھارتی میڈیا نے کہا کہ سدھو آرمی چیف جنرل قمر
باجوہ سے اتنی گرمجوشی سے ملے جبکہ پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے سینے میں
خنجر گھونپا مگر سدھو صاحب نے کہا ہے کہ اگر 2023 میں عمران خان دوبارہ
وزیراعظم بنیں گے تو وہ دوبارہ پاکستان آئیں گے ۔اور ان کا کہنا تھا کہ
آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے مجھے کہا ہے کہ بابا گرونانک کے جنم دن پر سرحد
کھول دیں گے تو اس طرح بن مانگے مجھے کائنات مل گئی ہے۔یقینا ہم بھی امن کے
خواہاں ہیں مگر بنیادی تنازعات کے حل کے بغیر ایسے یارانے خود فریبی کے سوا
کچھ بھی نہیں ہیں ۔
عمران خان کا پہلا بڑا فیصلہ ہی متنازعہ ہو چکا ہے کہ انھوں نے وزیراعلیٰ
پنجاب کے لیے تونسہ شریف کے ایک قبیلے کے سردار فتح محمدکا بیٹا جو کہ اپنے
باپ کیوجہ سے سیاسی میدان میں ہمیشہ کامیاب رہا ا سے نامزد کیا اور وہ
وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہو چکاہے ۔عثمان بزدار کے والد تین دفعہ رکن پنجاب
اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں مگر قبائلی وڈیرے ہیں کہ اپنی اور بیٹے سردار
عثمان بزدار کی ذمہ دارانہ صلاحیتوں کا حال یہ ہے کہ اختیارات کے باوجود یہ
اپنے علاقے میں بجلی ، گیس اور پانی کی سہولیات مہیا نہیں کروا سکے اور
اپنے گھر میں سولر پینل لگے ہوئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ عثمان بزدار کے بارے
مبصرین اور سیاسی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ وہ ذمہ دار سیاستدان نہیں ہے کہ
قتل کے الزام میں نامزد کیا گیا مگر تفتیش میں ہی بری ہوگئے تھے اور
جہانگیر ترین کا آلہ کار ہیں جبکہ عمران خان کا کہنا ہے کہ سردار عثمان ایک
پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور پسماندہ علاقوں کے مسائل سے واقف ہیں
اس لیے یہ بہترین انتخاب ہونگے ۔اب یہ کہنا نا ممکن ہے کہ یہ فیصلہ کسی
دباؤ اور تعلق کا نتیجہ ہی ہے یا کٹھ پتلی وزیراعلیٰ کا انتخاب درکار تھا
کیونکہ اس منصب کے لیے بہت سے امیدوار موجود تھے جو قابل قبول ہو سکتے تھے
۔اب تو وقت بتائے گا کہ اس فیصلے کے کیا نتائج نکلیں گے اورکیا سوچ کر یہ
فیصلہ کیا گیا ہے مگر یہ واضح ہو چکا ہے کہ جناب عمران خان نے جوکابینہ
تشکیل دی ہے اس پر بہت سے سوالات اٹھیں گے کہ روایتی سیاسی نظام کا روایتی
خاکہ عوام اور سیاسی اکابرین کو اتنی آسانی سے ہضم نہیں ہوگا ۔ کیونکہ
نوجوانوں کی جماعت کا نعرہ لگانے والوں کی وفاقی کابینہ میں ایک بھی نوجوان
وزیر شامل نہیں ہے۔ اکثریتی ق لیگی اور پیپلز پارٹی کابینہ کے لوگ ہی خان
صاحب کی کابینہ میں نظر آرہے ہیں بے شک یہ وہی ہیں کہ جنھیں ن لیگ نے اپنے
دور حکومت میں کسی قابل نہ گردانا بلکہ گھسیٹنے اور منظر سے ہٹانے کی ہر
ممکنہ کوشش کی مگر منصب پانے والوں کو بھی یاد رکھنا ہوگا کہ یہ دنیا
مکافات عمل ہے آج کسی کی راہ میں تم پتھر رکھوگے تو آنے والا وقت تمہاری
راہ میں پہاڑ بن جائے گا ۔
تاہم اگر ملک کی اہم وزارتوں کی بات کی جائے تو اسد عمر کو وزیر خزانہ اور
شاہ محمود قریشی کو وزیرخارجہ کا قلمدان سونپا ہے معیشت تباہ حال ہے اور
اسد عمرکو ترجیحی بنیادوں پر ایسے اقدامات کرنا ہونگے جوکہ معیشت کی بحالی
کے لیے ہوں کہ کسی بھی ملک کی ترقی و کامیابی کا انحصار مضبوط معیشت پر ہی
ہوتا ہے اس لیے اس ضمن میں غلطی کی گنجائش نہیں ہے اور خارجہ پالیسی کا جو
حال ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے کہ ہمارا نام گرے لسٹ میں شامل ہو چکا ہے اور
ہمارے دوست ممالک بھی اس بات پر مصر ہیں کہ ہمارے ملک میں دہشت گرد تنظیمیں
کام کرتی ہیں اور ہم لاکھوں قربانیاں دینے کے باوجود دنیا کو یہ باور
کروانے میں ناکام ہیں کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکارہیں لہذا اب
دیکھنا ہے کہ اندرونی اور بیرونی ان دو بڑے بحرانوں پر تحریک انصاف کیسے
قابو پائے گی کہ پہلا دن تو جیسے تیسے ختم ہوگیا مگر اب وعدے کے سو دن شروع
ہو چکے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نیب کا شکنجہ کسے جانے پر کرپٹ سیاستدانوں کی چیخیں نکل رہی
ہیں مگر احتساب ہی اس کرپشن زدہ نظام کو صاف کرنے کا ذریعہ ہے ۔ یہ کس قدر
مضحکہ خیز ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے وقت کے جس بھی نامی گرامی سیاسی
پہلوان کو اکھاڑے میں اتارنے کا اعلان کرتے ہیں اسی کا ہی ماضی داغدار
ہوتاہے ۔ کیا ہمارے سیاسی نظام میں کوئی بھی ایسانہیں ہے کہ جس کی قسم دی
جائے تو حلف کس چیز کا لیتے رہے ہیں ؟؟؟ عجیب صورتحال ہے کہ عوام بھی ذہنی
کشمکش کا شکار ہیں مگر قصوروار وہ خوشامدی اور درباری ہیں جو اپنی بری
کارکردگیوں کو چھپانے کے لیے حکمرانوں کی غلطیوں پر پردے ڈالتے رہے
اورحکمرانوں نے بھی انھی مفادپرستوں کو قریب رکھا اور ناقدوں کو جبر و قہر
کا نشانہ بناتے رہے تو شہر تو جلنے تھے ۔۔
لگا کر آگ شہر کو یہ بادشاہ نے کہا ۔۔۔۔اٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت
!
جھکا کر سر کو سبھی شاہ پرست بول اٹھے ۔۔حضور کا شوق سلامت رہے شہر اور بہت
!
آگ سے یاد آیا پھر وہیں آگ لگ گئی جہاں ہاؤسنگ سوسائٹی اور دیگر مقدمات کا
ریکارڈ موجود تھا ۔۔تجربہ کار ٹیم کا سارا تجربہ دس برسوں میں ریکارڈ جلانے
میں صرف ہو گیا ہے اور اب جوٹیم بنے اﷲ کرے وہ حقیقی معنوں میں کام کرے کہ
اتفاق رائے سے مل جل کر عوامی فلاح و بہبود اور ریاست کی خوشحالی کے لیے
کام کرنا جمہوری طریقہ کہلاتا ہے ۔اب کہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ جمہوری حکومت
ہے نا کہ اشرافیائی آمریت جس میں جمہور کے لیے وعدوں کی چٹنی اور دعووں کی
روٹی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔
بہر حال ایوانوں کے قصے تو چلتے رہیں گے کہ تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کا
کڑا امتحان شروع ہو چکا ہے ! سب سے اہم یہ ہے کہ حج بیت اﷲ ادا کر دیا گیا
ہے۔لبیک اللھم لبیک (حاضرہوں ،اے اﷲ میں حاضر ہوں ) کی روح پرور صداؤں سے
فضا گونج اٹھی ہے ۔تمام حجاج کرام فرزندان اسلام کو حج اور عید الاضحی کی
بہت بہت مبارکباد کہ اب امت مسلمہ مذہبی جوش و جذبہ سے عید قربان منانے جا
رہی ہے ۔ قربان جائیے خلیل اﷲ پر کہ جو اپنے والد کے کہنے پر قربان ہونے کو
تیار ہوگئے ۔۔ یہ تھی محبت ،یہ تھی فرمابرداری ،یہ تھی اطاعت خداوندی ، یہ
تھی مسلمان کے دل کی حالت ، یہ تھا یقین اور یہ تھا ایمان ۔۔! ہمارا ایمان
اور یقین کس قدر کمزور ہوچکا ہے ۔ہم اپنے والدین کے بھی نافرمان ہیں اور اﷲ
کے بھی نافرمان ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہم خوار اور بد حال ہیں ۔۔ہمارے پاس
یہ بتانے کو تو بہت کچھ ہے کہ عید قربان کیا درس دیتی ہے مگر ۔۔اگر ہم اپنا
محاسبہ کریں توہمارے اعمال اس قابل ہی نہیں ہیں کہ ہم کسی کو نصیحت کریں کہ
اسی قول و فعل کے تضاد نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔۔ ریاکاری ، دکھاوا اور
ڈائیلاگ بازی بند کر دیں اور عید قربان اور حج کے فلسفے کو سمجھیں کہ
یہ فیضان نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
قارائین کرام ! آج مسلمانوں کو ان کی فرقہ بندیوں اور باہمی دنیاوی لالچوں
نے پارہ پارہ کر دیا ہے ایسے میں مسلمانوں نے خود کو ایک دوسرے کا دشمن بنا
رکھا ہے ۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم طاقتیں جو کہ ہمہ وقت مناسب مواقع تلاش
کرتی رہتی ہیں کچھ عرصہ سے حرکت اور سازش میں آچکی ہیں ایسے میں اﷲ تبارک و
تعالیٰ سے دعاہے کہ اے اﷲ! ہم ان دشمنوں کے مقابلے میں تیری حفاطت میں آتے
ہیں اور ان کے شر سے پناہ چاہتے ہیں ۔ہم تیرا شریک کسی کو نہیں ٹھہراتے اور
نہ ہی تیرے سوا کسی سے مدد چاہتے ہیں بلکہ صرف اور صرف تجھے اپنا مددگار
مانتے ہیں ہماری مدد فرما ! ٓمین |