ہندوستان کی جمہوری صحافت وسیاست کے عظیم علمبردار تھے''کلدیپ نیر''

میرے نوجوانی کے ایام تھے،میں مدرسے کامحدودخیال طالب علم تھاکوشش ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ معلومات دین ودنیاکی اکٹھی کروں ایک دن اپنے کرم فرماجناب اسلام الدین صاحب کے ساتھ بیٹھاہواتھااورباتیں کچھ سیاست کی ہورہی تھی کہ اسلام الدین صاحب جوالٰہ آبادہائی کورٹ میں کسی اچھے عہدے پرتھے میری طرف متوجہ ہوکرکہنے لگے کہ ''آؤٹ لک پڑھاکیجئے اوراس میں کلدیپ نیرجی کی تحریرچھپتی ہے اسے ضرورپڑھیئے،بہت اچھے اورسچے رائٹرہیں،جوکچھ لکھتے ہیں انسانی جذبے کے ساتھ لکھتے ہیں،کبھی کسی کی طرفداری نہیں کرتے ،ہندوستانی سیاست میں ان کی اونچی فکرکوبڑی معنویت حاصل ہے''میں نے اس کے بعدکلدیپ نیرجی کوپڑھاشروع کیا،جب بھی کہیں ان کی کوئی تحریرنظرآجاتی پہلی نظرمیں ہی اسے پڑھ ڈالتا،تقریبابیس سال کے اس عرصے میں ان کی سیکڑوں تحریریں پڑھنے کاموقع ملالیکن میں نے کبھی بھی ان پرکسی نظریے کارنگ چڑھاہوانہیں پایا،بسااوقات انہوں نے مسلم فرقہ واریت پربھی قلمی نشترچلایا،گہرائی کے ساتھ سوچنے پران کے خیال کی تائیدہی کرنی پڑتی ہے۔میں ان کوآزادی کے ساتھ انسانی ہمدردی کے نیک جذبے کے ساتھ بھی لکھنے والاپایا،کلدیپ نیرجی جیسے اہل قلم جمہوری ملک کی شان ہوتے ہیں جوکسی بھی حال میں اپنے ضمیرکاسودانہیں کرتے۔کلدیپ نیربیک وقت کئی بڑی زبانوں میں لکھتے تھے اورملک وبیرون ملک کی کئی بڑی نیوزایجنسی کے ساتھ ۸۰؍سے زائداخبارات میں ایڈیٹوریل پیج پران کی گراں قدررائے کوہمیشہ جگہ دی جاتی تھی۔

کلدیپ نیرموجودہ پاکستان کے شہرسیال کوٹ میں ۱۴؍اگست ۱۹۲۳ء میں پیداہوئے اورلاہورسے قانون کی تعلیم میں فراغت حاصل کی،تقسیم وطن کے بعدہندوستان آگئے۔تقسیم وطن ایک سچے محب وطن کی طرح ان کے لئے بھی سہان روح تھی،اس کی یادیں اوربربادی کاسماں ان کے دماغ میں ہمیشہ گردش کرتارہتا،جس کی جھلک ان کی تحریروں میں بھی نظرآتی ہے۔کلدیپ نیراتنے بے باک شایداس لئے بھی تھے کہ انہوں نے تباہی وبربادی کامنظربہت قریب سے دیکھاتھا،شایدیہی وجہ تھی کہ وہ اس خوف کے منظرکی وجہ سے بے خوف ہوگئے تھے اورکبھی بھی ملک دشمن عناصرکی قوت کاخوف دل ودماغ پرطاری نہیں ہونے دیا۔ان کامذہب انسانیت تھا،وہ انسانی فکرونظرسے دورہٹ کرکبھی نہیں سوچتے۔وہ اپنی تحریرمیں کسی خاص نظریے کی کبھی حمایت نہیں کرتے،جوبات سچی ہوتی یاجس فکرسے ملک وقوم کونقصا ن پہنچ رہاہوتابلادریغ اس کااظہارکرتے،نہ حکومتی عملہ کی ناراضگی کاخیال کرتے اورنہ ملک دشمن طاقتوں کے ظالمانہ خوف سے لرزہ براندام ہوتے۔پچھلے کچھ دنوں سے جہاں ہمارے ملک کاطاقتورمیڈیاایک خاص فکرونظرکاغلام بن چکاہے اوربہت سے حق گواظہارحق سے کنی کاٹ جاتے ہیں۔ایسے حالات میں یقیناآپ کوبھی خریدنے کی کوشش کی گئی ہوگی لیکن انسانیت کے اس عظیم سپاہی نے اپنی بے باک سپاہیانہ فن کاسودانہیں کیا۔آپ نے موب لنچنگ پرلکھااورخوب لکھا۔اپنی تحریرمیں یہ اشارہ بھی دیاکہ ''موب لنچنگ کلچر''موجودہ حکومت کی خاص فکرہے اورحکومت کی شہ پراسے فروغ مل رہاہے۔

کلدیپ نیرایک بے باک صحافی تھے،سفارتکارتھے ،سیکولرزم اورجمہوریت کے مضبوط محافظ تھے۔سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی انہوں نے ملک کی سیکولرجمہوری قدروں کے دفاع کے لئے طویل جدوجہدکی۔ہندوپاک کے درمیان عوامی اورسفارتی رشتوں کومضبوط کرناان کاسب سے بڑامشن تھااوروہ 14-15اگست کی درمیانی شب میں واگہہ سرحدوں پرموم بیتوں کاایک جلوس لے کرجایاکرتے تھے۔دونوں ملکوں کے درمیان خوشگواراورصحت مندتعلقات ان کی پہلی اورآخری خواہش تھی۔جس وقت انہوں نے آنکھیں موندی ہیں تودونوں ملکوں کے درمیاں تعلقات اتنے سنگین دورمیں داخل ہوچکے ہیں کہ دوملکوں کے باشندوں کاایک دوسرے سے بغل گیرہونابھی تنازع کاسبب بننے لگاہے۔

''شہدمحبت اندراگاندھی''کے زمانے میں ایمرجنسی کادورجن لوگوں نے دیکھاہے وہ اسے کسی بھی طورپربھول نہیں سکتے۔کلدیپ نیرنے بھی آزادہندوستان میں غلامی کایہ زمانہ دیکھاتھااوربہت قریب سے دیکھاتھا،میڈیاکوہرحال میں اظہاررائے کی آزادی ہونی چاہئے،اپنی اس فکرکی وجہ سے ان کوسلاخوں کے پیچھے کی دنیابھی آبادکرنی پڑی تھی۔اپنے ایک کالم میں ایمرجنسی کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں''اندراگاندھی نے جمہوریت کی روشنی بجھاکرہمیں پولس راج کے اندھیرے میں دھکیل دیاتھا......''ساتھ ہی ملک کے موجودہ الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیاکے کردارکے حوالے سے بھی انہوں نے لکھاکہ''مجھے نہیں لگتاکہ اب پریس کوکنٹرول کرنے کے لئے حکومت کوکوئی غیرآئینی اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی.....میڈیاخودہی اتنی حکومت نوازہوگیاہے کہ اسے کنٹرول کرنے کے لئے حکومت کوکچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے''۔میرے خیال سے اگراندراگاندھی کے زمانے میں پریس اوراہل پریس اس قدرغلامانہ بودے پن کااظہارکرتے اورضمیرکاسوداکرلیتے توایمرجنسی کی نوبت ہی نہیں آتی۔ غلامی کی زنجیریں توڑنے والے جب خودہی غلامی کاطوق اپنی گردن میں فخریہ لٹکارے گھورم رہے ہیں توآزادی کے نغمے گنگنانے کی جرأت کون کرے گا؟؟۔

اخبارورسائل کی آزادی کی فکر کے تئیں ان کے پاس بین الاقوامی تجربہ تھا،۱۹۹۰ء میں وی پی سنگھ کے زمانے میں وہ انگلینڈمیں انڈیاکہ ہائی کمشنرتھے،انگلینڈمیں رہ کرکلدیپ نیرنے برطانوی ذرائع ابلاغ کی آزادی کوبالکل قریب سے دیکھااسی وجہ سے لاکھ کوشش کے باوجودان کی تحریرنے دہشت گردانہ رنگ اختیارنہیں کیا۔نیرصاحب ایوان بالاکے ممبربھی منتخب کئے گئے تھے اوراس عہدے پررہتے ہوئے بھی آپ نے ملک وقوم کی بھلائی کے لئے مفیدوکارآمدمشورے دئے۔یہ بھی ایک سچائی ہے کہ نیرصاحب اردوکے آدمی نہیں تھے پھربھی حالات کی مجبوری کی وجہ سے انہوں نے اپنے کیریئرکی شروعات اردوسے کی پھراردوسے بچھڑنے کے بعدبھی اردونے ان کاساتھ نہیں چھوڑااورنہ ہی انہوں نے اردوکے پاکیزہ دامن سے خودکوالگ کرنے کی کبھی کوشش کی۔اہل اردوکے لئے بھی وہ مستقل لکھتے رہے اورسلطنت اردوکووسعت عطاکرتے رہے۔

اب ان کی آپ بیتی کے کچھ اوراق پلٹتے ہیں اورسچائی جاننے کی کوشش کرتے ہیں،اپنی آپ بیتی میں وہ خودلکھتے ہیں''بی،اے میں اردومیرااختیاری مضمون تھا......اوراس وقت میرے خواب وخیال میں بھی نہ تھاکہ ایک ایسی زبان جسے میں تفریحاپڑھاکرتاتھاایک دن میری زندگی کاپہلاذریعہ معاش بنے گی،میراارادہ وکالت کرنے کاتھااورمیں نے اس کی سندبھی حاصل کرلی تھی.....لیکن وکالت ایک ایسی زہدشکن حسینہ ہے جسے مسکرنے پرامادہ کرنے کے لئے برسوں ایڑیاں رگڑنی پڑتی ہیں۔تقسیم وطن کے بعدمیں بے سروسامانی کے عالم میں تھا......چنانچہ میں جلدازجلداپنے پیروں پرکھڑاہوناچاہتاتھا۔یہ وہ دن تھے جب بہت سے مسلمان دہلی چھوڑ کرچلے جارہے تھے۔اردواخبارات پرخصوصیت سے ضرب پڑی تھی۔بلی ماران سے شائع ہونے والاروزنامہ 'انجام'اپنے بیشترملازمین سے ہاتھ دھوچکاتھااورجس وقت میں نے اس کادروازہ کھٹکھٹایااس وقت پریشانی میں وہ کسی بھی آدمی کورکھنے کے لئے آمادہ تھے''۔

اپنے اداریے کے متعلق صاف گوئی کے ساتھ لکھتے ہیں کہ''میراترجمہ کافی ناقص ہوتاتھالیکن جب مجھے اداریہ لکھنے کے لئے کہاجاتاتووہ بہت ہی ناقص ہوتاتھا۔ایک روزکاواقعہ ہے کہ ہمارے ایڈیٹرصاحب اپنے ایک ہفتہ کے دورہ سے واپس نہیں آسکے تھے،مالک اخبار'نے مجھے ایڈیٹوریل لکھنے کوکہا،سچ پوچھئے تویہ ایک سنہراموقع تھا۔لیکن اس میں یہ معنی مضمرتھے کہ اپنی خامی کوبے نقاب کرنے کاخطرہ مول لیاجائے لیکن میرے سامنے کوئی دوسراچارہ کاربھی نہ تھا۔'مالک 'نے مجھے قارئین کے خطوط کاایک بنڈل تھمادیاتاکہ میں اپنے مطلب کے خطوط نکال کرانہیں استعمال میں لاسکوں ۔خطوط کالہجہ سخت ہی تھا،'انجام'جومسلم لیگ کی پالیسی پرعمل پیراتھااوراس کے دوقومی نظریے کاپرچارکیاکرتاتھا،اب اس سے سوال کیاجارہاتھاکہ کیااس کی روش اب بھی وہی ہے جوپہلے تھی ''نیرصاحب اپنے حافظے پرزوردے کراپنے پہلے اداریے کے متعلق لکھتے ہیں کہ ''میں نے دوقومی نظریے پرقلم اٹھانے کافیصلہ کیا۔یادآتاہے کہ میں نے کچھ اس طرح کااداریہ لکھاتھا......ہم سے سوال کیا جارہاہے کہ کیاہم اب بھی دوقومی نظریے میں یقین رکھتے ہیں؟ہماراجواب ہے ہاں۔ہم اب بھی دوقومی نظریے میں یقین رکھتے ہیں۔ہندوستان ہی کیوں ساری دنیامیں ہرجگہ دوقومیں موجودہیں۔امیراورغریب۔کالے اورگورے۔آسودہ اورمحروم وغیرہ وغیرہ۔

۱۹۷۲ء میں پٹنہ میں'اردوایڈیٹروں کی کانفرنس'منعقدہوئی جس کے آپ صدمنتخب کئے گئے اس کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں ''اردوصحافت سے میرارشتہ 'وحدت'کوچھوڑنے کے ساتھ ہی ختم ہوگیالیکن اس زبان سے میری دلچسپی برقراررہی۔کوئی چیزکیسے چھوٹ سکتی ہے جس سے آپ کوپیارہوگیاہواورجوآپ کی نس نس میں سرایت کرچکی ہو۔۲۴؍سال بعدمجھے اردوکی حمایت کرنے والوں کی صف میں کھڑے ہونے کاموقع ملا۔جب مجھے اردوایڈیٹروں کی کانفرنس منعقدہ ۱۹۷۲میں صدارت کے لئے کہاگیا۔مجھے ایک دریچہ ملا،جاماضی میں کھلتاتھا،اوراس دریچے کے اس پارجوکچھ دیکھ سکتاتھاوہ بہت طلسماتی تھا، کیوں کہ وہاں جوکچھ دکھلائی دے رہاتھاوہ مستقبل کی روشنی سے چمک رہاتھا'' کلدیپ نیرصاحب نے حسرت موہانی کے اخبار''وحدت''کے بعدانگریزی اورہندی اخبارورسائل کے لئے لکھناشروع کیااوراردوکے لئے بھی مسلسل لکھتے رہے۔نیرصاحب کے تمام اردومضامین کتابی شکل میں آجاتے تواردوکابیش بہاذخیرہ اکٹھاہوجاتا۔ایک سچائی یہ بھی ہے کہ سلطنت قرطاس وقلم کے اس بے باک سپاہی کوجس قدرایوارڈ ملنے چاہئے تھے نہیں ملے۔اس سے ایک بات صاف ہوجاتی ہے کہ ایوارڈتقسیم کرنے والے کام نہیں دیکھتے بلکہ کام کے لئے اپنااختیارکردہ نظریہ دیکھتے ہیں۔

Md Sadre Alam Misbahi
About the Author: Md Sadre Alam Misbahi Read More Articles by Md Sadre Alam Misbahi: 87 Articles with 78175 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.