خبر یہ ہے کہ خان صاحب کے وزارت عظمی کے منصب پہ
براجما ن ہوتے ہی ملک کو روزانہ 51 ارب کا فائدہ ہو رہا ہے ۔ پرُمسرت خبر
ہے ، یقیناََ اس پہ عوام کو خوشی کا اظہار کرنا چاہیے ۔ اور کسی بھی طرح کے
بخل کے بغیر خان صاحب کی تعریف کرنا چاہیے۔51 ارب روپے کی روزانہ بچت کا
مطلب ہے سال میں 18615 ارب حکومت بچا پاکر ملکی خزانہ میں جمع کرائے گی۔ اس
وقت ملک پہ غیر ملکی قرضہ ریکارڈ سطح کو چھو رہا ہے۔ بیرونی قرضے 91 ارب76
کروڑڈالر تک پہنچ چکے ہیں ۔ حکومت نے ملک کو قرضوں سے نکالنے کے بلند و باگ
دعوے تو بہت کیے ہیں ،وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر نے کشکول توڑنے جیسے عزائم
کا اظہار کیا ہوا ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ رواں مالی سال کے
ابتدائی 6 ماہ کے دوران حکومت نے اوسط ایک ماہ میں ایک ارب ڈالر کا قرضہ
لیا۔ جون 2017 سے مارچ 2018 کے دوران بیرونی قرضوں میں8 ارب 33 کروڑڈالر کے
اضافے سے ملکی قرضہ ریکارڈ ساز بلندی تک پہنچ گیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا بیڑا اٹھایاہے
۔ خان صاحب جس ملک کوبطور رول ماڈل پیش کرتے ہیں وہ سویڈن ہے۔ حکومت کا
کہنا ہے کہ وہ سویڈن طرز حکومت کی پیروی کرے گی۔سویڈن یورپی یونین کا رقبے
کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے۔اس کی آبادی ایک کروڑ دو لاکھ ہے ،جس میں 24
لاکھ غیر ملکی ہیں۔سویڈن کے صرف 30 اعشاریہ7 فیصد لوگ شہروں میں رہتے
ہیں۔سویڈن حکومت پہ قرضوں کا بوجھ بالکل نہیں ہے ،جب کہ شرح مہنگائی اور
بینکاری نظام بھی یورپی ملکوں سے بہتر ہے۔ سویڈن کی کل جی ڈی پی 601 ارب
ڈالرز یعنی پاکستان سے دگنی ہے۔ فی کس جی ڈی پی 58345 ڈالرز ہے۔سویڈن نے90
کی دہائی میں مالی مسائل پر جدید اصلاحات متعارف کراکر قابو پایا تھا۔ اس
کے بنک غیر مستحکم ہوگئے تھے جس کی وجہ سے دو بنکوں کی نجکاری کرنا پڑی ۔
ملک قرضوں میں ڈوب گیا۔حکومتی خرچے بڑھ گئے ۔بے روزگاری پھیلنے لگی ۔اس
بحران سے نکلنے کے لیے حکومت سویڈن نے جدید طرز کی اصلاحات متعارف کرائیں ۔ایک
عرصہ تک انہوں نے اپنے نظام کو متوازی رکھا۔ انہوں نے حکومتی اخراجات کو
جامد کرنے کا طریقہ متعارف کرایا ۔ ا س کے ساتھ بجٹ کے لیے سر پلس گول رکھا
گیا ۔ جس کی وجہ سے ملک قرضوں سے بچا رہا ، اوروہ ر قرضہ نئی نسل میں منتقل
نہیں ہوا۔ سویڈن نے ایک ’’مالیاتی پالیسی کمیٹی ‘‘ بنائی۔ ماہرین کی اس
کمیٹی کا کام حکومتی پالیسی کے فیصلوں کا آڈٹ کرنا تھا۔ حکومت کا کوئی بھی
فیصلہ جو عوامی مالیاتی سے متعلق ہوتا،اس کمیٹی کے سامنے ضرور آتا۔ یہ
کمیٹی اس فیصلے کی اجازت اس صورت میں دیتی کہ وہ کام عوامی ترقی ، دیرپا
استحکام کاحامل ہے۔ جن حکومتوں کو بڑے بجٹ خسارے کا سامنا ہوتا ہے وہ ٹیکسز
میں اضافہ اور عوامی اخراجات میں کمی کرکے کفایت شعاری کا طریقہ اپناتی ہیں۔
سویڈن نے اس طریقہ سے اجتناب کیا ۔ بل کہ شدید ترین بحران میں سویڈن کے
ٹیکس کی سطح انتہائی کم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صحت، تعلیم،اور تحقیق
پر سرمایہ کاری جاری رکھی۔
حکومت کی کفایت شعاری مہم کا آغاز اچھا سہی مگر اس میں دوام کس حد تک ممکن
ہے ،اس کے آثار قابل تحسین نظر نہیں آتے۔خود انحصاری کی چادر اوڑھنے کے
ساتھ اپنی شان بان میں بھی کمی لانا ہوگی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سادگی
و بچت کی باتیں ،باتوں کی حد تک تو خوش کن ہیں، لیکن عمل کے میدان میں
قناعت پسندی کی ابتدا ہونی چاہیے۔پی ٹی آئی میں شامل موروثی سیاست دانوں
کوسادگی کا سبق، آسانی سے سمجھ نہیں آئے گا ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دربار میں
دال کو ناپسند کرتے ہیں ۔ البتہ اس صورت حال میں حکومت وزرا ء کی مراعات پہ
نظر رکھ سکتی ہے اور ان میں کمی کے جو وعدے کیے ہیں ان کو پورا کرنا چاہیے۔
حکومت کا سال بھر کا خرچہ 218ارب روپے ہے۔ یہ وہ پیسا ہے جس پہ تنازعات پید
اہوتے ہیں۔اسی پیسے سے حکومت پورا سال کام کرتی ہے۔ یعنی پیٹرول سے پانی تک
ہر چیز اسی پیسے کی مرہون منت عوام تک پہنچتی ہے ۔ یہ وہ روپیہ جس کی وجہ
سے ملک میں ہر وقت شور مچا رہتا ہے۔ حکومت اپنی قدر پہچانے کے ملک کے غریب
و اجڑ عوام نے انہیں کیوں کر منتخب کیا ؟ حالات کیا تھے؟ معیشت کی کشتی دن
بدن بھنور میں پھنستی جارہی تھی ۔نوجوان طبقہ اس امید سے تحریک انصاف کے
ڈبوں میں ووٹ ڈالنے گیا کہ انہیں اچھا اور باعزت روزگار ملے گا ۔ تعلیم،
صحت کے مسائل نزع کی حالت کو پہنچ چکے ہیں ۔ صوبوں میں عوامی سہولیات بس
نام کی رہ گئی ہیں ۔ سرکاری اداروں میں اقربا پروری عروج پہ ہے ۔حکومت عوام
کی قربانیوں کا بدلہ شرمندگی کی صورت تو نہ دے ۔ حکومت کے حالیہ واقعات اور
سینئر ترین وزرا ء اگر ملک میں اچھا کام کرنے والوں کی سر عام عزت نفس
مجروح کریں گے تو یاد رکھنا چاہیے یہ وہی عوام ہے جس نے بھٹو کو سر آنکھوں
پہ بیٹھایا تھا ۔
آج پاکستان کو بھی انہی مالی مسائل کا سامنا ہے۔ افسوس کہ سابقہ حکمراں اس
کاادراک کرتے ہوئے ملک کو مالی عفریت سے نکالتے ، اپنا الو سیدھا کرتے رہے
۔ تحریک انصاف نے برسراقتدار آنے سے پہلے جو دعوے کیے،اورانتخابی منشور میں
جو کچھ بیان کیا ،اس پر عمل درآمدکرنااب تحریک انصاف کی ذمہ داری ہے۔ تحریک
انصاف کے حکومتی ارکان سابقہ حکومتوں میں جن خرابیوں کو اچھالتے رہے ،بجائے
ان کو درست کرنے کے، خود ان میں ملوث ہورہے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم
اپنارول ماڈل اپناتے ہوئے دعوؤں کو عملی شکل دیتے ہیں یا نہیں ۔ معیشت اس
وقت سب سے بڑا مسلہ ہے۔ اس لیے حکومت سویڈن طرز کی اصلاحات نافذ کرکے ملکی
معیشت کو ترقی دے ۔
|