دمہ کا مریض مگر بہترین ایتھیلیٹ اور شطرنج کا شوقین شخص
جس کو اپنی نوجوانی سے ہی کتب بینی کا علمی مرض لاحق تھا جو سیاحت کو دل و
جان سے پسند کرتا تھا اور جس کو دنیا چی گویرا کے نام سے جانتی ہے وہی چی
گویرا جس نے تقریباََ آٹھ ہزار کلومیٹر کا سفر موٹر سائیکل پر طے کیا اس
سفر کے دوران جہاں چی کے مشاہدے میں بے پناہ اضافہ ہوا وہیں دیہاتوں ،
قصبوں، چھوٹے شہروں کے باسیوں نے اس کی آنکھیں کھول دیں جو کہ غربت، افلاس
و کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے دوران سفر چی نے چلی، پیرو، ایکواڈور،
کولمبیا، وینزویلا، برازیل، بولیویا، کیوبا اور پانامہ جیسے ملکوں کا دورہ
کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ جنوبی امریکہ اس وقت کٹھ پتلی حکمرانوں کے
زیر تسلط ہے اور ان کی آڑمیں سرمایہ داری نظام میں جڑ پکڑ رہا ہے جس کے
پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ امریکہ خود ہے اور امریکہ کبھی بھی غریبوں کا
دوست نہیں ہو سکتا ، چونکہ چی گویرا نے میڈیکل کی تعلیم بھی حاصل کر رکھی
تھی چنانچہ 1954 میں چی گویرا میکسیکو چلا گیا اور مقامی ہسپتال میں الرجی
کا شعبہ سنبھال لیا جبکہ اس دوران انقلاب اس کی رگوں میں پنپتا رہا 1955میں
اس کی ملاقات کیوبا کے نئے ابھرتے انقلابی لیڈر فیدل کاسترو کے بھائی راؤل
کاسترو سے ہوئی جس نے چی کی سوچ سے متاثر ہو کر اسے اپنے بھائی فیدل کاسترو
سے ملوایا جو کہ چی گویرا کی انقلابی زندگی کی جانب پہلا قدم تھا چی اور
فیدل کاسترو کا نشانہ امریکی نواز کیوبن حکمران باتستا تھا جو کہ ملک کو
دیمک کی طرح دن رات کھوکھلا کرنے میں مصروف عمل تھا بات کو مختصر کرتے ہوئے
یہ بیان کرتا چلوں کہ چی گویرا نے اپنی خوشحالی کی زندگی کو خیر باد کر کے
غریبوں کے لئے انقلابی تبدیلی کا نعرہ لگایا مگر جلد ہی 7 اکتوبر1967میں
مقامی مخبر کی اطلاع پر فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا اور دو دن بعد 9
اکتوبر1967 کو شرابی جلاد کے ہاتھوں 9 گولیاں کھا کر ہلاک ہو گیا۔
چی گویرا کی انقلابی زندگی ہمارے ملک پاکستان کے انقلابی لیڈروں سے تھوڑی
مماثلت رکھتی ہے اس لئے چی گویرا کی شخصیت کو سامنے لانا ضروری تھا تا کہ
عوام کو دو مختلف قوموں کے انقلابی لیڈروں کے درمیان موازنہ کرنے میں آسانی
رہے ۔
ہمارے ملک پاکستان میں حال ہی میں انقلاب آیا ہے یہ انقلاب لانے والی شخصیت
کوئی اور نہیں مشہور کرکٹر عمران خان ہیں ، عمران خان نیازی جنہوں نے
1969میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا 1992میں ورلڈ کپ جیتا دوران
کرکٹ عمران خان نے پوری دنیا کا سفر کیا اور بہت سی کامیابیاں سمیٹیں کرکٹ
کھیلنے کے علاوہ عمران خان نے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پاکستان
میں کینسر ہسپتال اور یونیورسٹی تعمیر کی اس کے علاوہ عمران خان نے کافی
شہرت بھی کمائی وہ اپنے جوانی کے حلقہ احباب میں پلے بوائے کے نام سے بھی
مشہور رہے اس دوران سیتا وائٹ جیسے سکینڈل بھی سامنے آئے مگر اچانک یہ شہرت
، پلے بوائے والی زندگی چھوڑ کر 1996میں عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے
نام سے سیاسی جماعت بنا کر عملی طور پر سیاست میں شامل ہو گئے اور اس جماعت
کا نعرہ ’’ انصاف، انسانیت اور خودداری‘‘ رکھا ۔
تبدیلی آ گئی ہے یا آ کر چلی گئی یہ وہ سوال ہیں جو مجھ سمیت نظام کے ستائے
لاکھوں لوگوں کے ذہن میں ابھرتے ہیں کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کوبھاری
مینڈیٹ لے کر کامیاب ہوئے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا ہے کہ تحریک انصاف
خبروں کی ذد میں آ گئی ہے کبھی تحریک انصاف کے اراکین بانی رہنما سمیت ہیلی
کاپٹروں میں محو اُڑان نظر آتے ہیں تو کہیں پروٹو کول کے نام پر لمبی
گاڑیوں کی ریل پیل دیکھنے کو مل رہی ہے ، کہیں معمولی رنجش پر حاضر سروس ڈی
پی او کو او ایس ڈی بنایا جا رہا ہے تو کہیں کرسی کے نشے میں دھت تحریک
انصاف کے کارکن عام شہریوں کو تھپڑ رسید کر رہے ہیں گویا اقتدار کی جگہ ناگ
منی ہاتھ آ گئی ہو اور بندہ خود کو فرعون سمجھنے لگے چند ہی دنوں میں تحریک
انصاف کی حکومت پر مختلف طرح کے سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور ان حالات
میں وزیر اعظم عمران خان صاحب کی جانب سے کسی بھی قسم کی کوئی صفائی یا
بیان سامنے نہیں آ رہا جس سے اندیشہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم صاحب تمام
باتوں سے بخوبی آگاہ ہیں اور صدارتی انتخابات تک کسی بھی قسم کے سیاسی و
عوامی ٹکراؤ کو مول نہیں لینا چاہتے مگر عمران خان صاحب کو یہ بات ذہن نشین
رکھنی چاہئے کہ اس طرح کی خاموشی ان کے سیاسی کیرئیر کے لئے نقصان دہ ثابت
ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان کی عوام نے آپ کو چی گویرا کے روپ میں انقلاب
لانے والا شخص دیکھا مگر بد قسمتی سے چی گویرا اپنے انقلابی ویژن کو پایا
تکمیل تک نا پہنچا سکا اور آمریت کا شکار ہو کر اپنی عوام کو انقلابی پلیٹ
فارم مہیا کر گیا اور تاریخ میں امر ہو گیا آج بھی کتابوں میں چی گویرا کا
نام تاریخی انقلابی شخص کے طور پر پڑھایا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب عمران
خان کو اقتدار پر براجمان ہونے کا موقع ملا ہے اور تبدیلی کا جو خواب عمران
خان صاحب نے دیکھا تھا اب اس کی تعبیر کا وقت آ پہنچا ہے کیونکہ وزیر اعظم
عمران خان صاحب آپ نے ہی تبدیلی کا نعرہ لگا کر عوامی شعور کو بیدار کیا
تھا، آپ نے ہی دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگایا تھا، آپ نے ہی نسل در نسل
چلتی آ رہی موروثی سیاست کا خاتمہ کیا، آپ نے ہی پاکستان کو مدینہ جیسی
فلاحی ریاست بنانے کا عزم ظاہر کیا ، آپ نے ہی پروٹوکول نا لینے کا وعدہ
کیا، آپ نے ہی کفایت شعاری اپنانے کا اعلان کیا ، آپ نے ہی پولیس میں
ریفارم کرنے کا اعلان کیا مگر اقتدار میں آ جانے کے بعد آپ کے دعوے دھرے کے
دھرے ہی رہ گئے آپ کے وزیر اعلیٰ پنجاب نے پنجاب کو اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے
میاں چنوں کے ہسپتال میں پروٹوکول کے دوران ڈاکٹروں کی عدم توجہی کی وجہ سے
ایک دو سالہ بچی دم توڑ گئی، بابا فرید شکر گنج ؒ کے دربار کو دو گھنٹے کے
لئے نو گو ایریا میں تبدیل کر دیا گیااور گردو نواح کے بازار بند کروا دیے
گئے اور حال ہی میں لاہور کے مال روڈ کو پروٹوکول کے نام پر عام ٹریفک کے
لئے بندکر دیا گیا آخر یہ سب کیاہے؟ وزیر اعظم عمران خان صاحب کیا یہ وہ
اقبالؒ کا خواب تھا جس کو آپ نے نئے پاکستان کے نام سے موسوم کر کے شرمندہ
تعبیر کیا؟ ابھی تو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اور ٹھاٹھ باٹھ ہی بدل گئے
ہیں آپ کی کابینہ بھی پھیلنا شروع ہو گئی ہے ، وزارتوں کا بازار بھی لگنے
والا ہے جس میں صدارتی ووٹ کے بدلے وزارت دی جائے گی اور تو اور لوگ آپ کے
لگائے ہوئے وزیر کے ماتحت کام کرنے سے گریزاں ہیں آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن
سے اتنے سینئیر لوگ خائف نظر آ رہے ہیں ؟ میں عام پاکستانی شہری ہونے کے
ناطے یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستانی عوام نے آپ پر اعتبار کر کے آپ کو صحیح
معنوں میں تبدیلی کے لئے منتخب کیا اور امید بھی یہی رکھتا ہوں کہ آپ عوامی
امنگوں پر پورا اتریں گے اور جلد ہی قوم سے خطاب کر کے عوام کو اعتماد میں
لیں گے اور جوتبدیلی کی سیاسی جنگ سابقہ حکومت کے خلاف لڑی اُسی مشن کو
جاری رکھتے ہوئے اپنی موجودہ حکومت پر بھی مرتب کریں گے نہیں تو عوام
تبدیلی کے فارمولے کو سمجھ چکی ہے اور اب کی بار تبدیلی کے لئے زیادہ تگ و
دو بھی نہیں کرنا پڑے گی اور یہ فیصلہ بھی آپ ہی کو کرنا ہے کہ کتابوں میں
آپ کا نام کیسی شخصیت کے طور پر پڑھایا جائے۔
|