تحریر۔۔۔ڈاکٹر سید فہیم کاظمی الچشتی
انتخابات 2018 کے نتائج کے مطابق اس وقت پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی
حاصل کی ہے اور حکومت بناچکی ہے اﷲ رب العزت نے پاکستان کو ایسے لوگوں کے
چنگل سے چھڑا لیا ہے، جو اﷲ کے محبوب ؐ کی عظمت و شان کالحاظ بھی نہ رکھتے
تھے اور وہ اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ ملک گیری ایک مشکل ترین کام ہے
اورحقیقت یہ ہے کہ عمیق بصیرت اور عظمت کردار و استقلال کے بغیر ملک گیری
ممکن نہیں اگر کوئی اس بصیرت اور کردار سے متصف ہوئے بغیر مسند حکمرانی تک
پہنچتا ہے تو وہ ملک کو ایسا کچھ نہیں دے سکتا، جس سے ملکی سلامتی و بقاء و
استحکام میں مضبوطی و پائیداری پیدا ہو۔ چند تعمیراتی منصوبہ جات پایہ
تکمیل تک پہنچانے سے آدمی امرنہیں ہو جاتا بلکہ قوم کو سوچ، نظریہ، فکر،
شعور دینا اور قو م کے اندر جذبہ حب الوطنی، مساوات و ایثار کو بیدار کرکے
متحرک کر ناایک لیڈر کا کارنامہ ہوتا ہے۔ جبکہ گزشتہ حکمرانوں میں ایسی
کوئی بات نہیں تھی آج کی دنیا اورعالمی منظر نامہ اتنا گنجلنگ اور گھمبیر
ہے اور اغیار فکری گہرائی کے اتنے منازل طے کر چکے ہیں کہ فکری اور نظریاتی
لحاظ سے سطحی سوچ رکھنے والے لوگ، اغیار اور وطن عزیز کے بد خواہوں کے
سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں ۔کمزور ویژن اور سطحی سوچ کے حامل حکمران
چند تعمیراتی منصوبہ جات تو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے اور کارگزاری
دکھانے کے لیے کچھ اور کام اپنے کھاتہ میں ڈال سکتا ہے ، لیکن وہ قوم کو
ایسا کچھ نہیں دے سکتا کہ افراد ملت وطن سے کچھ لینے والے نہیں بلکہ کچھ
دینے والے بن جائیں۔ ہمارے ہاں ایسے لیڈر ناپید رہے ہیں جو افراد کو ملک و
ملت کو کچھ دینے و الا بنا سکیں۔ پاکستان اغیار اور اپنے بد خواہوں کی
آنکھوں میں کھٹک رہا ہے ۔یہ واحد اسلامی ملک جوایٹمی طاقت ہے، کو دشمن کیسے
برداشت کرسکتا ہے۔ اس نے تو اپنی شاطرانہ چالیں چلنی ہی تھیں اور سطحی قسم
کی فکر و نظریہ رکھنے والے حکمران ان لوگوں کی زمین دوز سازشوں کا آسانی سے
شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے اندر فکری و نظریاتی پحتگی میں و ہ استقلال نہیں
ہوتا کہ وہ دشمن کے نرغے سے بچ سکیں۔ ہماری موجودہ دنیا میں حکومتوں میں
اپنے مرضی کے مہرے لانے کے لیے عالمی طاقتو ں کے پاس بے شمار حربے ہیں۔ یہ
حربے اورہتھکنڈے اتنے زمین دوز اور تہہ در تہہ ہیں کہ بعض اوقات ان کا
ادراک کرنامشکل ہو جاتا ہے۔ ہمارے اندر نظریاتی و فکری محاذ آرائیاں ہمیں
منقسم کیے ہوئے ہیں اورہم مذہبی حوالے سے بھی مسلکوں اوردیگر دھڑے بندیوں
کا شکار ہیں۔ یہ ایک ایسی کمزوری ہے کہ جو ہمارے دشمن کے لیے ترنوالہ ثابت
ہو رہی ہے۔ مذہبی متشددانہ سوچ اور دہشتگردی اس کی واضح مثالیں ہیں اور
عوام کے اندر ایسی سوچ کا پنپنا تو صریحاً موت ہے۔ ایسی متشدد مذہبی سوچ کے
تمام ماخذوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا ورنہ جس طرح ہم صدیوں سے بھٹک رہے
ہیں، مزید کئی صدیاں آوارہ ریوڑ کی طرح بھٹکتے رہیں گے۔
دشمن ہر ہرلمحہ ہم پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ وہ ہماری خفیف سے خفیف حرکت اورطرز
عمل نوٹ کررہاہے اور اس کے مطابق اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لا رہا ہے۔ ایسی
فضا اور منظر نا مہ میں وہی حکمران ملک کو اس پر خطر راستہ سے گزار سکتے
ہیں، جو عمیق بصیرت رکھتے ہوں اور یہ بصیرت صرف صوفیاء کرام کی بصیرت ہی ہو
سکتی ہے۔ پوری تاریخ اسلام کا مطالعہ کر لیں ، آپ کو حکمرانوں کی بے شمار
معرکہ آرائیوں، سیاسی محاذ آرائیوں اور اقتدار کی رسہ کشیوں میں صرف
صوفیائے کرام کا کردار ایسا نظر آئے گا جنہوں نے کبھی ان محاذ آرائیوں میں
حصہ نہیں لیا بلکہ قوم کو فکر و نظر اورعظمت کردار کی وہ بنیاد فراہم کی جس
سے ایسے افراد تیار ہوئے جو امت مسلمہ میں روشن و تابناک کردار کے حامل ہیں۔
ان ہی کے دم قدم سے مسلم سلطنتوں میں استحکام قائم رہا آج اگر وطن عزیز میں
ایسے لوگ اقتدار پر قابض ہوتے ہیں جو صوفیانہ بصیرت کو تسلیم نہیں کرتے تو
ملک کی بقاء و سلامتی اوراستحکام کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ کیونکہ ان میں
وہ فکر، عظمت کردار اور بصیرت ہی نہیں ہے جو ملک کو دشمنوں کی پرپیچ تہہ
دار سازشوں سے نکالنے کا موجب بن سکے۔
انقلاب اور تبدیلیاں راتوں رات نہیں آجا تیں اس کے لیے عشروں محنت و ریاضت
کرنا پڑتی ہے۔ ہر ہر معاملہ کو ان گنت پہلوؤں سے جانچنا پڑتا ہے او رافراد
معاشرہ کو نظریاتی و فکری لحاظ سے اس کے لیے تیار کرناپڑتا ہے اور پھر
تبدیلی اور انقلاب کی کھیتی اگتی ہے، جس کو اگر جوبن تک پہنچنے کا موقع ملے
تو ایسے انقلاب اور تبدیلیاں آتی ہیں جو تاریخ کو ہزاروں سال میں دیکھنی
نصیب ہوتی ہیں۔ بہر حال ملک اور قوم ایک انتہائی نازک صورت حال سے نکل چکے
ہیں ۔ پاکستان کے محافظ ادارے دشمنوں کو ہرمحاذ پر منہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔
دشمن جن مہروں کو ہماری اپنی ہی صفوں سے حرکت میں لاتا تھا، ان کے غبارے سے
ہوا نکل چکی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ ہماری صفوں کے ایسے مہرے جو دشمن کے اہداف
کو تقویت پہنچاتے ہیں اور اس کے عزائم پورے کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں،
ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں کیونکہ سامنے والے دشمن سے بچنے کی تدبیر سوچی
جاسکتی ہے ، مگر آستین کے سانپ سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔ وطن عزیز کا موجودہ
منظر نامہ ہم سے اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ ہم صوفیانہ بصیرت کو اپنا کر
اپنی بقاء و سلامتی کے لیے اس بصیرت کوبروئے کار لائیں توہر ہر محاذ پر
دشمن کے عزائم خاک میں مل سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ صوفیانہ بصیرت سے مراد و
بصیر ت نہیں ہے جس کا نقش ہمارے مروجہ ماحول میں موجودہے بلکہ صوفیانہ
بصیرت وہ ہے، جس سے افراد اور ہماری قوم ماضی میں تمام دنیا کی اقوام سے
ممتاز مقام حاصل کر چکی ہے۔ اﷲ تعالیٰ افواج پاکستان اور پاکستان کی حفاظت
فرمائے ۔ (آمین)۔
|