تحریر:ام محمد عبداﷲ ،جہانگیرہ
میں نے تو ڈیڈ سے کہہ دیا ہے اے لیول کے رزلٹ کے بعد مجھے تو ہائیر
ایجوکیشن کے لیے انگلینڈ بجھوا دیں یا پھر کینڈا،یہ ارسلان تھا نہایت نخوت
سے بولتا وہ اپنے ساتھیو پر خوب رعب جھاڑ رہا تھا۔ وہ سب اپنے مشترکہ دوست
دانیال کے گھر موجود تھے جس نے انہیں کوئی خوشخبری سنانے کے لیے بلایا تھا۔
اس وقت دانیال ڈرائنگ روم میں ان کے ساتھ موجود نہیں تھا۔ سب دوست اس سے
خوش خبری سننے کے لیے بیتاب تھے لیکن ہمیشہ کی طرح ارسلان نے یک طرفہ طور
پر بولنا شروع کر دیا تھا۔ کون سا مسئلہ ہے جو اس ملک میں نہیں ہے۔ کسی کو
مالی پریشانی ہے، توکوئی ملک کے حالات سے پریشان ہے ،تو کوئی صحت کے مسائل
سے دوچار ہے۔ پانی کی قلت، صفائی کا فقدان، بے روزگاری، دہشت گردی ، فرقہ
واریت، لگتا ہے تمام دنیا کے کے مسائل کا گھر پاکستان ہی ہے۔
تم لوگ بھی سوچو کہیں باہر جانے کا، شہریار نے بے چینی سے پہلو بدلا۔خیر
ایسی بھی کوئی بات نہیں، شہریار ارسلان کو کچھ جواب دینا چاہ رہا تھاکہ
دانیال مٹھائی لیے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔دوستو!یہ لو منہ میٹھا کرو،خوشی
کی خبر سناتا ہوں تم سب کو۔سب نے بے تکلفی سے مٹھائی کی جانب ہاتھ بڑھاتے
خو ش خبری سنائی جائے کا نعرہ لگایا۔سنو دوستو!’’گلف نیوز میں شائع ایک
رپورٹ کے مطابق برطانوی تنظیم برٹش بیک پیپرز سوسائٹی نے سیاحت کے لیے
پاکستان کو سب سے بہترین اور سب سے زیادہ دوستانہ ملک قرار دیا ہے جہاں کے
پہاڑ اور خوبصورت مناظر کسی کے بھی حلقہ خیال میں نہیں آسکتے‘‘۔
برٹش بیک پیپرزسوسائٹی نے اپنی فہرست جاری کرتے ہوئے 20 ایسے ممالک جانے کی
تجویز دی ہے جہاں وگوں کو سال 2018ء میں سیاحت کے لیے جانا چاہیے ان میں
پاکستان سرِفہرست ہے۔سوسائٹی نے اپنے فیس بک پیج پر لاہوراور ہنزہ کے ہن
پاس اور لیڈی فنگر پارک کی تصاویر بھی جاری کی ہیں۔سوسائٹی کے اراکین نے
101 ممالک کا دورہ کیا ہے اور اس کے بعد یہ فہرست جاری کی ہے، پاکستان کو
پہلا نمبر دینے کی وضاحت کرتے ہوئے برٹش بیک پیپرز سوسائٹی نے کہا ہے کہ
یہاں کے لوگ پوری زمین پر سب سے زیادہ دوستانہ برتاؤ کرتے ہیں اور انتہائی
شفیق ہیں، لوگ سیاحوں کو گھر پر بلاتے ہیں، کھانا کھلاتے ہیں اور سیلفیاں
بھی لیتے ہیں۔
پاکستان کی ہر ادا دیکھ آپ کو اس ملک کے بارے میں اپنا تاثربدلنے پر مجبور
ہوجائیں گے یوں بہترین ممالک کی فہرست میں پاکستان واضح طور پر سب سے آگے
ہے۔سوسائٹی کے چند ارکان نے اپنے فیس بک پیج پر قراقرم ہائی وے کو دنیا کا
سب سے خوبصورت اور ناقابلِ فراموش مقام قرار دیا ہے ۔برٹش بیک پیپرز
سوسائٹی کے دو اراکین سیموئیل جانسن اور ایڈم سلوپرنے کہا ہے کہ پاکستان کا
حسن اور لوگوں کی محبت آپ کا دل پگھلانے کے لیے کافی ہے۔یہ دونوں 2016ء کے
موسمِ گرما میں پاکستان آئے تھے اور کاغان، ناران، گلگت، قراقرم سمیت لاہور
اور اسلام آباد کا سفر طے کیا تھا۔
انہوں نے برطانوی کوہ پیما کا پاکستان کے ہن پاس کے بارے میں ایک تبصرہ بھی
نقل کیا ہے جس میں ایرک شپٹن نے کہا تھا کہ اگر آپ کو پہاڑوں کے حسن کا
نظارہ کرنا ہوتو پاکستان دنیا کا سب سے بہترین مقام ہے۔ خوشی سے تمتماتا
چہرہ لیے دانیال جوش سے ان سب کو یہ خبر سنا رہا تھا۔ ارے واہ! سب نے اپنی
خوشی کا اظہار کیا۔ سنا تم نے ارسلان؟ ہمارا وطن دنیا کا سب سے پیارا وطن
ہے اور یہاں کے لوگ دنیا کے سب سے زیادہ امن دوست اور محبت دوست لوگ ہیں۔
بالکل شہریار، یہ دیکھو میرے پاس ایک ڈاکومینٹری ہے پاکستان ’’پہاڑوں کی
سرزمین‘‘۔
احتشام نے جیب سے اپنا سیل فون نکالا جسے دانیال نے دیوار گیر سکرین کے
ساتھ منسلک کر دیا، وہ سب دیکھنے لگے۔مسحور کن مناظر کے پس منظر سے ابھرتی
متاثر کن آواز،سکرین پر پاکستان کے فلک بوس پہاڑ دکھائے جا رہے تھے۔ دنیا
میں 8 ہزار میٹر سے بلند صرف چودہ چوٹیاں ہیں، جن میں سے پانچ پاک سرزمین
کا حصہ ہیں۔ جن میں کے ٹو، نانگا پربت، گاشر برم ون، بروڈ پیک اور گاشر برم
ٹو شامل ہیں، جبکہ سات ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کی تعداد 108 ہے، جن میں
سے پانچ ٹاپ ٹین بلند چوٹیاں پاکستانی چوٹیوں کا حصہ ہیں۔’’کے ٹو‘‘ جسے
’’ماؤنٹ گڈون آسٹن اور شاہ گوری‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی سب سے بلند
جب کہ ماؤنٹ ایورسٹ کے بعد پاکستان کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جس کی بلندی
8611 میٹر ہے اور یہ سلسلہ کوہِ قراقرم میں واقع ہے، اسے دو اطالوی کوہ
پیماؤں نے 31 جولائی 1954کو سب سے پہلے سر کیا تھا۔کے ٹو کو ماؤنٹ ایورسٹ
کے مقابلے میں زیادہ مشکل اور خطرناک سمجھا جاتا ہے، کے ٹو پر 246 افراد
چڑھ چکے ہیں جب کہ ماؤنٹ ایورسٹ پر 2238۔
’’نانگا پربت‘‘ دنیا کی نویں اور پاکستان کی دوسری سب سے اونچی چوٹی ہے، اس
کی اونچائی 8125 میٹر ہے اور اسے دنیا کا ’’قاتل پہاڑ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ اس
پر چڑھنے میں اب تک سب سے زیادہ کوہ پیما مارے گئے ہیں اسے ایک جرمن آسٹرین
ہرمن بہل نے سب سے پہلے 3 جولائی 1953 میں سر کیا تھا۔فیری میڈو یا پریوں
کا میدان نانگا پربت کو دیکھنے کی سب سے خوبصورت جگہ ہے، اس جگہ کو یہ نام
1932 کی جرمن امریکی مہم کے سربراہ ولی مرکل نے دیا۔ سیاحوں کی اکثریت فیری
میڈو آتی ہے یہ 3300 میٹر بلند ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس پہاڑ کو دیکھنے سے
خوبصورتی سے زیادہ ہیبت انسان کے دل پر اثر کرتی ہے۔
’’گاشر برم ون‘‘گاشر برم ون پاکستان کی تیسری اور دنیا کی گیارہویں سب سے
اونچی چوٹی ہے، اسے کے فائیو اور چھپی چوٹی کے ساتھ بلتی زبان میں
’’خوبصورت پہاڑ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ پاکستان کے شمال میں سلسلہ کوہ قراقرم
میں واقع ہے اور اس کی بلندی 8080 میٹر ہے۔گاشر برم ون کو سب سے پہلے 5
جولائی 1958 میں دو امریکیوں پیٹ شوننگ اور اینڈی کافمان نے سر کیا۔
’’بروڈ پیک‘‘بروڈ پیک دنیا کی 12 ویں اور پاکستان کی چوتھی سب سے اونچی
چوٹی ہے، یہ قراقرم کے سلسلے میں پاکستان اور چین کی سرحد پر واقع ہے اور
اس کی بلندی 8047 میٹر ہے، اسے سب سے پہلے 9 جون 1957 کو ایک آسٹرین ٹیم نے
سر کیا۔یہ کے ٹو سے 8 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، اس کی چوٹی قریباً ڈیڑھ کلو
میٹر لمبی ہے۔ اس لیے اس کا نام ’’بروڈ پیک‘‘ ہے۔ مقامی نام فائے چان کنگری
یا پھلچن کنگری ہے۔دلچسپ بات یہ ہے اس میں ایک نہیں دو چوٹیاں ہیں اور اکثر
کوہ پیما اسی باعث غلطی سے 8015 میٹر بلند چوٹی پر رْک کر واپس چلے جاتے
ہیں اور 8047 میٹر کی بلندی تک نہ جانے پر کامیاب قرار نہیں پاتے۔
’’گاشر برم ٹو‘‘گاشر برم ٹو دنیا کا تیرہواں اور پاکستان کا پانچواں سب سے
اونچا پہاڑ پے، یہ قراقرم سلسلے میں واقع ہے اور اس کی بلندی 8035 میٹر ہے۔
یہ پاکستان اور چین کے درمیان واقع ہے۔اسے سب سے پہلے 1956 میں ایک
آسٹریائی ٹیم کے موراویک، لارچ اور ویلن پارٹ نے سر کیا۔
’’گاشر برم فور‘‘گاشر برم فور دنیا کا 17 واں جبکہ پاکستان کا چھٹا بلند
ترین پہاڑ ہے، جس کی بلندی 7925 میٹر ہے اور یہ پاکستان اور چین کے درمیان
گاشر برم کی چوٹیوں میں سے ایک ہے۔اس پہاڑ کو سب سے پہلے 1928 میں اطالوی
کوہ پیماؤں کی ٹیم نے سر کیا۔’’دستاغل سر‘‘یہ قراقرم کے ایک پہاڑی سلسلے
ہسپر موزتاگ کا سب سے بلند پہاڑ ہے جو کہ شمالی علاقہ جات میں گوجل کے
علاقے میں واقع ہے، یہ دنیا کا 19 واں جبکہ پاکستان کا ساتواں بڑا پہاڑ ہے
جس کی بلندی 7885 میٹر ہے۔اس پہاڑ کی خاص بات اس کی پانچ کلو میٹر طویل
ڈھلوانی اونچائی ہے اور 7400 میٹر سے اوپر اس میں تین چوٹیاں ہیں، جن میں
سے شمالی چوٹی 7885 میٹر، وسطی 7760 میٹر اور جنوب مشرقی 7535 میٹر بلند
ہے۔اسے سب سے پہلے 1960 میں آسٹرین کوہ پیماؤں کی ٹیم نے سر کیا تھا۔
’’کیونانگ چیش‘‘یہ ہسپر موزتاگ کے سلسلے کی دوسری بلند ترین پہاڑی ہے جس کی
بلندی ہے 7823 میٹر ہے، اسے دنیا کا اکیسواں جبکہ پاکستان کا آٹھواں بلند
ترین پہاڑ کہا جاتا ہے۔اسے سب سے پہلے 1971 میں ایک پولش ٹیم نے سر کیا تھا
اور اس کے بعد یہ صرف مزید ایک بار 1988 میں ہی سر ہو سکی، جس کے بعد سے اب
تک یہاں جانے والے کوہ پیماؤں کے ہاتھ ناکامی کے سوا کچھ نہیں آیا۔
’’ماشربرم‘‘ماشربرم جسے ’’کے ون‘‘بھی کہا جاتا ہے، گلگت بلتستان کے ضلع
گانچھے میں واقع ہے یہ 7881 میٹر بلند ہے اور دنیا کا 22 واں بلند ترین جب
کہ پاکستان کا نواں بلند ترین پہاڑ ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ماشربرم نام کا
مطلب ہی واضح نہیں، تاہم اندازہ ہے کہ یہ ماشادار (لوڈ گن) اور برم (پہاڑ)
سے مل کر بنا ہے کیوں کہ اس کی دوہری چوٹی کسی بھری ہوئی بندوق جیسی لگتی
ہے، تاہم ایک حلقے کا کہنا ہے کہ ماشا مقامی زبان میں ملکہ کو کہا جاتا ہے
اور درحقیقت اس کا نام چوٹیوں کی ملکہ ہے۔اسے سب سے پہلے 1960 میں امریکی
اور پاکستانی کوہ پیماؤں کی ٹیم نے سر کیا تھا۔
’’بتورا سر‘‘بتورا سر جسے 'بتورا ون' بھی کہا جاتا ہے، دنیا کا 25 واں جبکہ
پاکستان کا دس واں بلند ترین پہاڑ ہے، جس کی بلندی 7795 میٹر ہے۔راکا پوشی
کے قریب واقع یہ پہاڑ زیادہ مشہور نہیں کیونکہ یہ ہنزہ وادی کے آخری کونے
میں واقع ہونے کے باعث کوہ پیماؤں کی نظروں سے دور ہی رہتا ہے۔اس پہاڑ کو
1967 میں سب سے پہلے سر کیا گیا تھا۔ڈاکومینٹری کے اختتام پر سورہ الرحمن
کی اثر انگیز تلاوت لگا دی گئی تھی،’’تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی
نعمت کو جھٹلاو گے‘‘۔
دیکھا تم نے ارسلان یہ پاک سر زمین عطیہ خداوندی ہے۔ اس پر شکر اسکی قدر ہم
سب پر لازم ہے، احتشام جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر بولا۔یہ سب تو ٹھیک
ہے لیکن مسائل بھی حقیقت ہیں، ان سے بھی تو نظریں نہیں چرائی جا سکتیں۔ تم
خود دیکھو انڈیا میں نئے ڈیم بن رہے ہیں۔ وزیراعظم مودی نے اعلان کیا ہے کہ
دریائے سندھ جس کا 70 فی صد پانی پاکستان کے زیر استعمال ہے وہ اس کا قطرہ
قطرہ پاکستان آنے سے روک دے گا۔ ایسے میں پاکستانی زراعت کا کیا ہو گا؟
لہلاتی کھیتیاں خشک ہو جائیں گی۔ ہمارے بدعنوان حکمران ڈیم بنانے کا نہیں
سوچتے، سب کو اپنے اقتدار کی پڑی ہے، ارسلان ایک بار پھر شروع ہو چکا
تھا۔ارے ارسلان بھائی !اس مسلے کا حل ہے۔
ان سب کو اپنی باتوں میں پتہ نہ چل سکا تھا کہ دانیال کے دو چھوٹے چھوٹے
کزنز بھی ڈاکومینٹری دیکھنے کے دوران ان کے ساتھ آبیٹھے تھے۔5 سالہ مناہل
کہنے لگی، میری امی کہتی ہیں۔جب ہم استغفار پڑھتے ہیں تو اﷲ تعالی بارشیں
برساتے ہیں۔ ہم سب گھر والے چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے حتی کہ میں کھیلتے
ہوئے بھی استغفار پڑھتی ہوں کہ اﷲ تعالی میرے پیارے وطن میں خوب بارشیں
برسائیں اور پاک سرزمین کے کھیت ہمیشہ سر سبز رہیں۔ آمین
6 سالہ فیصل اپنی جیبیں ٹٹول رہا تھا۔ جیبوں سے ہاتھ نکال کر اس نے اپنے
پیارے پیارے ہاتھ ان کے سامنے کیے جو خوبانی۔ آلو بخارے اور جامن کی
گھٹلیوں سے بھرے تھے، میں یہ بیج اکھٹے رکھتا ہوں۔ میرے ابو کہتے ہیں ہم
انہیں سڑکوں کے کنارے اور خالی میدانوں میں دبائیں گے۔ کچھ دنوں بعد برسات
شروع ہوگی۔ ان سے پودے نکلیں گے درخت بنیں گے، بارشیں ہو گی، میرا وطن سر
سبز رہے گا۔ ان شاء اﷲ ہم سے تو یہ بچے بہادر ہیں دانیال، شہریار نے توصیفی
نظروں کے ساتھ بچوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
تو پھر ٹھیک ہے دوستو!ہم سب بھی استغفار کریں گے۔۔ اور اپنے کالج میں
باقاعدہ شجر کاری مہم کا آغاز کریں گے ان شاء اﷲ ۔دانیال کے ابا جان جو
ابھی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تھے، کہنے لگے ۔ پیارے نوجوانو!بہت اچھی سوچ
ہے تم بچوں کی ماشاء اﷲ لیکن انکل انڈیا کی پانی کی جارحیت سے ہم کیسے
نمٹیں گے؟ارسلان کا ذہن الجھا ہوا تھا۔ انڈیا کے ناپاک عزائم کے حوالے سے
تو ارسلان میاں یاد رکھو کہ انڈیا خود غربت اور جہالت کے مسائل میں بری طرح
گھرا ہوا ہے۔ انڈیا تو کیا دنیا کی کوئی بھی طاقت پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ
سکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تم نوجوان اس کی ترقی کے لیے پرعزم ہوجاؤ۔
کل کو تمہیں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، تمہیں بیوروکریسی ہوگے۔تمہیں
ہی ایوان اقتدار تک پہنچنا ہے۔ بس آج ہی سے اس بھاری ذمہ داری کو محسوس کرو
کہ پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانا ہے، اسلام کامضبوط قلعہ بنانا ہے ان
شاء اﷲ۔کیوں نہیں چچا جان، پاکستان اگر فلک بوس پہاڑوں کی سرزمین ہے تو ہم
بھی پرعزم اور بلند حوصلوں والے جوان ہیں، احتشام نے برجوش ہو کر جواب دیا۔
دوستو !میں بھی اس پیارے وطن کو چھوڑ کر کہیں جانے والا نہیں۔ مجھے تو
پاکستان سے متعلق ان باتوں کا علم ہی نہیں تھا۔ ان شاء اﷲ پاکستان کی ترقی
میں میں بھی اپنا حصہ ڈالوں گا۔ یہ ہوئی نہ بات، ارسلان کی بات سن کر سب
خوش ہوگئے۔ پاکستان زندہ بادانہوں نے مل کر پرجوش نعرہ لگایا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ |