تبدیلی آ چکی نہیں بلکہ آکر چلی بھی گئی ہے

سو پردوں میں چھپے نئے پاکستان کی دریافت کا عمل جاری ہے۔ ہر پردے کو چاک کرنے کے بعد تبدیلی کے آثار پوری تابناکی کے ساتھ ظاہر ہورہے ہیں۔

کہیں نایاب گیس نئی چھیالیس فیصد اضافے کی دریافتی قدروقیمت کے سات نمودار ہوتی ہے تو کہیں سے ڈالر کی طرز پر بڑھتی فیسز پورے جوبن کے ساتھ آ وارد ہوتی ہیں۔ کہیں کہیں عاطف میاں جیسے چٹکلے تو کہیں وزیر اطلاعات کے فن پارے اور گریجویٹ چئیرمین اور ایف اے پاس گورنر جیسے عجائبات بھی افشاں ہورہے ہیں۔

کل اس سلسلے کی ایک کڑی ایسی نمودار ہوئی ہے کہ قومی جوش وجذبے کو بھی امتحاں میں ڈال دیا گیا ہے۔ انہوں نے سوچا کہ اگرحکومت چلنے سے انکاری ہے تو اس کو این جی اوز کی طرز پر چلانے کا تجربہ بھی کر لیتے ہیں۔ پانی کے بند باندھنے کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ڈکلئیر کر دیا گیا۔ اور تو اور چیف جسٹس پاکستان نے ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی رکھوالی کا عندیہ اپنا مقصد حیات ٹھہرا لیا ۔ بعید از قیاس نہیں کہ وزیراعظم اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کو آپریٹ کرنا بھی ، شوکت خانم اور نمل کے ساتھ ساتھ مقصد زندگی بنا لیں ۔

پانی کے بند باندھنے سے یاد آیا کہ کسی زمیندار نے ہندو بنئیے سے اپنی زمین رہن رکھ کر کچھ رقم لی جو وہ واپس نہ کر سکا تو بنئیے نے زمین کو قبضے میں لے لیا اور اس کی کاشت شروع کردی ۔ ایک دن اس نے کھیت کو پانی لگوایا اور سپروائز کر رہا تھا، پانی کے بند کو باندھنے کے لئے ملازم کو کہنے لگا کہ ایک چھٹانک مٹی کی لگا دو ، جب دیکھا کہ چھٹانک سے کچھ نہیں بن پایا تومٹی کی مقدار بڑھواتا گیا ، مگر پانی تھا کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا ، اور وہ اپنے تجربہ کی بنیاد پر مٹی کی مقدار کو بڑھواتا جا رہا تھا مگر کام نہیں بن پا رہا تھا ، اس نے جب مقدار دس کلو کروائی تو بھی مٹی نظر نہیں آرہی تھی۔ تو بے بسی کے عالم میں اٹھا اور ملازم کو کہنے لگا چلو چلیں یہ ہمارے بس کی بات نہیں ۔
تو جناب یہ کام چھٹانکوں سے ہونے والا نہیں ۔
یہ چندہ گری کے ہنر اور تجربے ضرور آزمائیے گا مگر صدقہ خیرات کے متلاشیوں کی دادرسی کو بھی دل و نظر میں رکھئیے گا۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ ڈیم ہمارا مسئلہ نہیں ہیں ، مگر معزرت کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ قطعاً بھی نہیں ۔ انرجی کی کمی کو پورا کرنا ہو ، ترقیاتی پراجیکٹس ہوں یا شہریوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ہو اس طرح کے انتظامات تو حکومت کے روز مرہ کی زمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر اشارۃً کہوں گا کہ یہ تو قدرتی سائیکل ہے اور خشک سالی کی قدرتی پندرہ سالوں کا وقت تو ہم گزار چکے اور اب آنے والے سال تو بارشوں کے آرہے ہیں اور چند سالوں تک پھر سے پاکستان تیزی سے سیم تھور کی زد میں آنے والے ملکوں میں شمار ہورہا ہوگا۔ مصر اور دوسرے عرب ملکوں کی جغرافیائی ضروریات اور ہیں ، یورپ کی ضروریات اور ہیں۔ خیر۔۔۔۔۔

ایک معصومانہ سا سوال ہے کہ کیا انصاف کا حصول اور شہریوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا فضول کام ہیں؟ جو ادارے خود کو بھی اور قوم کو بھی پانی کے بند باندھنے پر لگا رہے ہیں۔ جرمانے ہوں ، چندہ ہو یا ٹیکسز پانی کے بند باندھنے کے کھاتے میں جارہے ہیں۔

کس نے کہا تھا کہ قوم بنا دیں بس باقی سب خود بخود ہی ٹھیک ہو جائے گا؟

معزرت کے ساتھ قومیں بنتی ہیں تعلیم ، ہنر اور سب سے بڑھ کر کردار سازی سے جس کی مثال پیش کرکے ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔

جناب ہمارا اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ بلا بحث ومباحثہ بدعنوانی کا خاتمہ ہے۔ جس کے دعوے اور وعدے بھی کئے گئے ہیں ۔ اور ہم اس سوچ اور ارادے کو داد بھی دیتے ہیں اور یقیناً خوش آئیند بھی ہے۔ تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے جنگی بنیادوں پر اس ناسور کو جڑوں سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے اور اچھی بات کی گئی کہ آغاز اپنی ذات اور ارد گرد کے لوگوں سے ہو۔

کہیں اس طرف سے توجہ ہٹانا تو مجبوری نہیں بنتا جارہا؟

مجھے تو یہ سو پردوں کو چاک کرنے کے بعد کی صورتحال کچھ ایسی دکھائی دیتی جارہی ہے۔
’’ کھودیا پہاڑ تے نکلیا چوہا ‘‘

پھر نعرہ ہوگا

’’ تبدیلی آ چکی نہیں بلکہ آکر چلی بھی گئی ہے‘‘

سمجھ نہیں آرہی یہ تبدیلی لوگوں اور ملکی حالت زار میں لائی جارہی ہے یا ہر روز کے ارادوں ، وعدوں اور ترجیحات میں۔
 

Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 124278 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More