اگر غور کیا جائے تو ان کے ساتھ ایسا سلوک ہو رہا ہےجیسے
کے ایک مزدور دن کو مزدوری کر کے اور گھر کا خرچ پورا کرتا ہے صبح ہوتے ہی
پھر پیٹ کے لیے نکل پڑتا ہے۔ملازمین کی پینشن ختم کرنےکی بجاےقومی اسمبلی
کے رکن اور صوبای اسمبلی کے رکن کی تنخواہیں کم کی جائیں حیرانی کی بات یہ
ہے کے حکمران جب حرم کعبہ جاتے ہیں تو ان کے سات تب بھی 40 یا50 لوگ جائیں
گے اور مفت مین حج عمرہ ادا کر کے اجائیں گے مگر ان ملازمین کے بارے میں
کسی نے نہی سوچا ان کو 60 سال میں ایک عمرہ یا حج نصیب ہو ۔اگر سوچا جائے
تو یہ حکمران بھی ان ہی اساتذا سے پڑ لکھ کر ہی ان سیٹوں پہ آکر بیٹھے
ہیں۔صدر کی تنخواہ لاکھوں میں شمار ہوتی ہے ان کو ٹی۔اے۔ڈی۔اے عام ملازمین
کی پینشن کے برابر دیا جاتا ہے جتنی عام ملازمین کی پینشن ہوتی ہے۔کیا ایک
عام ملازم کا اتنا حق نہیں اس ملازمت میں اس نے کتنی خواہشات دل میں دبا
رکھی ہوتی ہیں۔مگر ہر طرف سے عوام کو لوٹا جا رہا ہےہسپتال گورنمنٹ کے مگر
علاج پرائویٹ ہوتا ہے ایک عورت بچے کو جنم دینے کے بعد اپنے لیے 2 گھنٹون
کے لیے 7 ملازم750 روپے کا بیڈ لیتی ہے۔
آخر یہ عوام کو ہی کیوں لوٹ رہے ہیں ۔اگر دیکھا جائے تو قرضے عوام اتار رہی
ہے۔پہلے حکمران نے قرضہ سکیم شروع کی تو اب بھی وہی حالات ہیں اور نتیجہ یہ
نکلے گا کہ یہی ملازمین اپنی تنخواہیں کاٹ کاٹ کے ساتھ سال بعد بھیک مانگیں
گے ۔
حضرت یوسف (علیہ سلام) کو خواب میں آیا تھا کے اگلے ساتھ سال قحط سال ہو گی
۔لہذا حضرت یوسف (علیہ سلام) غلہ جمع کرنا شروع کر دیا تھا۔رعایا سے چھینا
نہیں تھا۔
یہاں تو ہر طرف عوام کچلی جا رہی ہے ۔
ہر جگہ عوام قربانی دے رہی ہے چاہے وہ جان کی ہو یا مال کی مگر حکمران کو
اپنی کرسی کی پڑی ہے ۔ |