افغانستان میں طالبان جنگ پرڈٹ گئے اورلڑائی جاری رکھنے
کااعلان کردیاہے۔طالبان نے افغانستان کے طول وعرض میں اپناجہادجاری
رکھاہواہے اوروہ آہستہ آہستہ غزنی ، فراہ اوردیگر علاقوں پرقبضہ کرنے
بعدآگے بڑھ رہے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق فراہ کے ورچمن ضلع پربھی طالبان
کاقبضہ ہوگیاہے اوراب فراہ،جنوبی غزنی اورقندوزبھی طالبان کے رحم وکرم پر
ہے ۔طالبان ایک خاص جنگی حکمت عملی کے تحت آہستہ آہستہ جہادکودیگرملحقہ
علاقوں میں پھیلارہے ہیں جبکہ افغان حکومت بے بس ہوکرافغان طالبان سے امن
کی بھیک مانگ رہی ہے لیکن طالبان اپنی منزل کے حصول کیلئے دباؤ بڑھاتے
جارہے ہیں۔جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ رمضان المبارک کے دوران عارضی جنگ
بندی کی گئی جس میں افغان طالبان نے بھرپورامن پسندی کاپیغام دیتے ہوئے نہ
صرف جنگ بندی پرعملدر آمدکیابلکہ افغان شہریوں کواپناپیغام پہنچاکران کی
مزیدہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہے لیکن مستقل جنگ بندی سے انکارکرتے
ہوئے افغان طالبان نے دوبارہ اپنے عہدپرقائم رہتے ہوئے افغانستان سے تمام
غیرملکی افواج کے انخلاء تک جہادجاری رکھنے کے عزم کودہراتے ہوئے کئی نئے
محازوں پرجہادجاری رکھتے ہوئے مزیدعلاقوں پر قبضہ بھی کرلیا۔
طالبان کومستقل جنگ بندی پرآمادہ کرنے کیلئے امریکااورنیٹوکی تمام سازشیں
ناکام ہوگئیں اور افغان طالبان نے افغان حکومت کی اپیل پربھی جنگ بندی سے
انکارکردیا اور رمضان المبارک کے بعدسخت گرمی کے باوجودجہادجاری وساری
رکھااوراب آئندہ آنے والے دنوں میں شدیدفیصلہ کن جنگ کے اامکانات کاخدشہ
ظاہرکیاجارہاہے۔ دوسری جانب افغان طالبان نے امریکی جنرل نکلسن
کوجھوٹاقراردیتے ہوئے کہاکہ اس کے دعوے میں کوئی صداقت نہیں کہ افغان
طالبان کے ساتھ مذاکرات ہورہے ہیں اورجنگ بندی کی دوبارہ کوشش ہورہی
ہے۔افغان طالبان کا کہناہے کہ قندوزمدرسہ پرحملے کے بعد مذاکرات کاعمل سختی
سے روک دیاگیاہے اوران بدعہدوں کے ساتھ مزیدمذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں۔
امریکی جنرل اپنی ناکامی چھپانے کیلئے گؤجھوٹے دعوے کررہاہے کیونکہ امریکی
جنرل کوان کی ناکامی پرہٹادیاگیاہے اوران کی جگہ عراق میں تعینات سکاٹ ملر
کونیاجنرل مقررکیاگیا ہے ۔وہ اپنی ناکامی چھپانے کیلئے ایسے بیانات دے رہے
ہیں ۔افغان طالبان بامقصدمذاکرات کیلئے پہلے بھی تیارتھے اوراب بھی تیارہیں
تاہم یہ مذاکرات قطرمیں ہونے چاہئیں ۔افغانستان میں مذاکرات کرنے والوں کے
بارے میں امریکاتحقیق کرلے ،ایسانہ ہوکہ پہلے کی طرح کسی نے امریکی فوج
کوالوبنادیاہواورافغان طالبان کانام استعمال کرکے مذاکرات کئے ہوں۔افغان
طالبان قطردفترمیں ہی مذاکرات کریں گے جسے مذاکرات کرنے ہوں وہ قطردفترسے
رابطہ کرے ۔افغانستان کے مسئلے کاحل بامقصد مذاکرات ہیں تاہم افغان طالبان
الخندق آپریشن جاری رکھیں گے اورافغان حکام سے مذاکرات نہیں کریں گے جس طرح
کے مذاکرات کیلئے امریکاڈھنڈوراپیٹ رہاہے۔ امریکی جنرل نہ صرف جھوٹا ہے
بلکہ جنرل نکلسن مکمل طورپرناکام ونامراد ہو چکا ہے۔گزشتہ سترہ سالوں میں
گیارہ سے زائدامریکی جنرلزکوبرطرف کیاجاچکاہے جس کاصاف مطلب یہ ہے کہ
امریکاافغانستان میں افغان طالبان کے مقابلے میں ہرقسم کی جنگی چالوں میں
نہ صرف ناکام ہوچکاہے بلکہ اس کی طاقت کاتکبراور نشہ بھی بری طرح سے
خوارہوچکا ہے۔ہرجنرل اپنی ناکامی اور برطرف ہونے سے قبل افغان طالبان کے
ساتھ مذاکرات کاڈھونگ رچاتاہے ،اس سے قبل بھی جانے والے جنرل نے مذاکرات
کابہت واویلا کیاتھاجوبالآخراس کی ناکام اوربرطرفی پرمنتج ہوا۔
افغان طالبان کاکہناہے کہ وہ کسی بھی سطح پرمذاکرات نہیں کررہے اورمسلح
جہادجاری رکھے ہوئے ہیں۔اگرافغان طالبان مذاکرات کرنا چاہتےاورجس طرح کے
مذاکرات کے بارے میں امریکی جنرل ڈھنڈوراپیٹ رہاہے توافغان طالبان کوفروری
میں اشرف غنی کی پیشکش کو قبول کرلینا چاہئے تھاتاہم افغان طالبان سمجھتے
ہیں کہ افغانستان کاحل صرف امریکاکے ساتھ بامقصد مذاکرات میں ہے اس لئے
امریکی حکومت کومذاکراتی فریق کے طورپراپنے آپ کوپیش کرناہوگااورمذاکرات
صرف قطردفترمیں ہی ہوسکتے ہیں۔امریکاخو د کومذاکرات سے دور رکھنا چاہتا ہے
اورافغانحکومت کوآگے لاناچاہتاہے جواس کی افغانستان میں شکست کے بعدایک
سیاسی چال ہے۔افغان طالبان کاکہناہے کہ مذاکرات کاعمل اسی وقت کامیاب نہیں
ہوسکتاجب تک افغانستان سے امریکااورنیٹوافواج انخلاء کا عملی ثبوت کااعلان
نہیں کرتے۔افغانستان سے انخلاء ہی جنگ بندی کی ضمانت ہے او ر عدم انخلاء کی
صورت میں افغانستان میں بدامنی اورجنگ جاری رہے گی۔
دوسری جانب کابل میں علماء کانفرنس نے افغانستان کے طول وعرض میں خودکش
حملوں کوحرام قراردے دیاتھاجس کے تھوڑی دیربعدداعش نے علماء کونسل پرخودکش
حملہ کردیاتھا۔ علماء نے افغان طالبان کانام لیے بغیرکہاتھاکہ ملک میں کسی
بھی گروہ کی جانب سے خودکش حملے حرام ہیں۔ 2100سے زائدعلماء نے متفقہ
طورپرافغان حکومت سے سوشل میڈیاپر شراب کی فروخت اورمنشیات کے استعمال
پرپابندی کامطالبہ کرتے ہوئے اس بات پربھی زوردیاکہ غیرملکی افواج
افغانستان میں موجودمسائل کی جڑہیں ان تمام غیرملکیوں کے مکمل انخلاء کیلئے
ایک اورکانفرنس بلانے کی بھی درخواست کی۔افغان علماء نے افغان حکومت سے
درخواست کی وہ طالبان سے جھگڑاختم کرنے کیلئے بعض مثبت قدم اٹھائے جس میں
قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ رات کے چھاپے اوربمباری روکنے کی بھی درخواست
شامل ہے۔
مشترکہ فتویٰ کوسراہتے ہوئے محمدمحسنی نے بتایاکہ علمائے کرام نے متفقہ طور
پر افغانستان کے اندر ہونے والے حملوں کوقرآن وحدیث کی روشنی میں غیراسلامی
قراردیتے ہوئے افغان طالبان اوردیگرگروپوں سے خودکش حملوں کوفوری
طورپرروکنے کامطالبہ کیا ہے کیونکہ خودکش حملوں سے بے گناہ لوگ متاثرہورہے
ہیں۔عنایت اللہ بلیغ کے مطابق علمائے کرام میں اکثریت کا جنگ ختم ہونے
اورافغان جنگ کے اصل مسئلے پرگفتگوتھی اوراکثریت کایہ مانناتھاکہ امریکی
موجودگی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے اس لئے امریکاافغانستان سے نکالنے کیلئے
ضروری ہے کہ ایک اورلویہ جرگہ، علماء کانفرنس مشترکہ طورپربلائی جائے ۔افغان
علماء کونسل کے فتوؤں کے بارے میں طالبان کاباضابطہ ردِّ عمل بھی جلدسامنے
آجائے گاتاہم اس وقت طالبان نے اس فتوے پرکوئی ردّ ِ عمل ظاہرنہیں کیاہے
بلکہ علماء کونسل پرہونے والے حملے کی مذمت کی ہے لیکن موجودہ جاری جنگ میں
افغان طالبان جس عسکری حکمت عملی سے آگے بڑھ رہے ہیں اس سے محسوس ہوتاہے کہ
اگلے چندماہ میں کوئی بڑابریک تھروسامنے آجائے گاکیونکہ افغان طالبان نہ
صرف امریکاونیٹوافواج کے خلاف کاروائیوں میں مصروف ہیں ،وہ امریکی پشت
پناہی سے کام کرنے والی داعش سے بھی نبردآزماہیں۔ اہم ذرائع کے مطابق داعش
افغان نوجوانوں کوانتہائی پرکشش معاوضہ کالالچ دیکراپنے قریب کرنے کی کوشش
کررہے ہیں کیونکہ ان کے مربی سمجھتے ہیں کہ پچھلی تین دہائیوں سے مسلسل جنگ
کی حالت میں مبتلا نوجوان معاشی لحاظ سے کسی سہارے کے محتاج ہیں اوران کی
اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف افغان قوم میں تقسیم
وانتشارپیداہوگابلکہ خانہ جنگی کی بناء پرامریکی اورنیٹوافواج کواپنے قدم
جمانے میں آسانی میسر آ سکتی ہے۔ افغان طالبان کے اس امر کی طرف گہری توجہ
ہے ۔ |