ــ1896میں یہودی مصنف تیوورہیزل نے کتاب ’’دی جیوش‘‘ لکھی
۔ اس کتاب میں یہ مصنف یہودیوں کے الگ ملک کی اہمیت پرزور دیتا ہے اور کہتا
ہے کہ دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کو چاہیے کہ ان کا اپنا ایک الگ ملک
ہو جہاں یہودی قانون لاگو ہواور ہم وہاں آزادی سے اپنی معاشرتی، معاشی اور
مذہبی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں ۔اپنی اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے
کے لیے اس یہودی مصنف تیووزہیزل نے اگست 1897 میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے
والے 300طاقت ور اور امیر ترین یہودیوں کو جمع کیااور اپنی اس خواہش کہ
یہودیوں کا الگ ملک ہو ، کی اہمیت پر زور دیا ۔سیمینارزمیں جہاں اس کے اس
خیال کو سراہا گیا وہاں یہ سوال بھی جنم لیا کہ دنیا کا وہ کون سا خطہ ہو
جہاں یہودی اپنا الگ ملک بناسکیں اوراس خطہ پرسارے یہودی راضی بھی ہوں کیوں
کہ دنیا کے کونے کونے میں بکھرے یہودیوں کو وہا ں سے اکھاڑ کر ایک جگہ
بسانا مشکل تھا جس کے لیے بہت کم یہودیوں نے رضامندی ظاہر کی۔ اس لیے جہاں
یہ سوال پیچیدہ تھا وہاں ہی اس سوال کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بڑی
محنت بھی درکار تھی ۔
یہودیوں کوکیسے ایک جگہ بسایا جائے ؟ اس سوال کو پس پشت ڈال کر خطہ کے چناؤ
کے بارے میں غور وغوض کیا گیا اور آخر کار سیمینارز میں یہ فیصلہ کیاگیا کہ
فلسطین کی زمین کو یہودیوں کامسکن بنایا جائے ۔فلسطین کی زمین کو یہودیوں
کا مسکن چننے کی ایک وجہ یہ تھی کہ فلسطین سے یہودیوں کی روحانی وابستگی
تھی ۔اس روحانی وابستگی کی وجہ سے یہ امید باور تھی کہ دنیا کے کونے کونے
میں بکھرے یہودی اس سرزمین پر آبادہونے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کاشکار نہیں
ہوں گے۔ سیمینارز میں کیے جانے والے اس فیصلہ کے بعد تیوور ہیزل نے اپنا
کام شروع کیا اور سلطان عبدالمجید ثانی کو تحفے بھیج کر درخواست کی کہ دنیا
کے یہودیوں کو فلسطین میں داخلہ کی اجازت دی جائے ۔مگر سلطان عبدالمجید
ثانی نے یہودی مصنف تیوور ہیزل کی اس درخواست کورد کردیا۔
سلطان عبدالمجید ثانی کے انکار کے بعد یہودی مصنف تیوور ہیزل نے امریکہ ،
یور پ اور برطانیہ کے یہودیوں کے ساتھ مل کر ایک کمپنی بنائی۔اس کمپنی
کامقصد فلسطین میں رہنے والے یہودیوں کو معاشی ومعاشرتی طور پر طاقت ور
بنانا تھا تاکہ یہ یہودی خاندان فلسطین میں زمینیں اور مکانات خریدیں او
دوسرے یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر خوش آمدید کہیں ۔خیر یہ اتنا آسان
بھی نہیں تھا مگر یہودیوں نے اپنے عزائم کی تکمیل تو کرنی تھی اس لیے وہ ہر
وقت کسی نہ کسی موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد
کرسکیں ۔فلسطین میں آباد ان چند سو یہودیوں نے 1896سے 1914تک فلسطینیوں سے
مہنگے داموں زمینیں اور مکانات خریدلیے ۔اسی دوران جنگ عظیم اول 1914کاآغاز
ہوا تو یہودیوں کو فلسطین میں بسنے کا بہانہ مل گیا اور تقریباً چھے لاکھ
کے قریب یہودی فلسطین میں آبادہوگئے جن کی آباد کاری کا بندوبست پہلے سے
فلسطین میں آبادچند سو یہودیوں نے زمینیں اور مکانات خرید کرکیاہواتھااس
طرح ان لاکھوں یہودیوں کو ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑا جو مسائل ہجرت کے
بعد پیش آتے ہیں۔ اس طرح فلسطین میں چند سو یہودیوں کی تعداد 1914کے بعد
لاکھوں میں ہوگئی۔
1914جنگ عظیم اول کے بعد سلطنت عثمانیہ کی گرفت اتنی کمزور ہوگئی کہ اسے دو
حصوں میں تقسیم کرنا پڑا فاتحین جنگ برطانیہ اور فرانس نے تقسیم کرلیا اور
یوں فلسطین کاحصہ برطانیہ کے حصہ میں آیا اورساتھ ہی یہ اعلان کردیا کہ
فلسطین پر یہودی حکومت کی اجارہ داری کو تسلیم کرلیا جائے اور اس کے ساتھ
ہی نومولود اقوام متحدہ میں یہ قرارداد بھی پیش کردی ۔اس قراردار پر عمل
درآمد کے لیے ایک یہودی سمائل کو مقرر کیا گیا کہ وہ بیرونی دنیا سے رابطہ
کرکے ریاست کے قیام کی حتمی شکل ترتیب دے۔1920میں جنگ عظیم اول کا فاتح
چرچل القدس شریف کا دورہ کرتا ہے اور یہودیوں کے فلسطین میں الگ ملک کی
حمایت کا اعلان کرتا ہے ۔14مئی 1948کوبرطانیہ نے اعلان کیاکہ ہمارافلسطین
پر قانونی قبضے کا وقت ختم ہواچاہتا ہے اسی روز یہودیوں نے اپنے الگ ملک کا
اعلان کردیاجس کا نام اسرائیل رکھا گیا اور یوں فلسطین کا نام دنیا سے نقشے
سے مٹاکر باہرسے لائی ہوئی قوم کو فلسطین میں آباد کردیا گیا۔
یہ تمہید باندھنے کا مقصد ان مسلمان پاکستانیوں کی آنکھیں کھولنا ہے جو
قادیانی عاطف میاں یاماضی وحال میں ان جیسے اسلام دشمنوں کی تعیناتی بہ
طورمشیر عام بات سمجھ رہے ہیں بالکل یہی عام بات آج سے سواسو سال پہلے
فلسطینیوں نے بھی اپنی زمینیں اور مکانات چند سو یہودیوں پر فروخت کر کے
سمجھی تھی مگر آج فلسطینی اس عام سی بات کاخمیازہ اسرائیلی بمباری
اورفلسطینیوں کی لاشوں کے انباروں کے ذریعے بھگت رہے ہیں ۔
ماضی اور موجودہ حکومت میں قادیانی مشیر ان کی شمولیت کی طرف داری کرنے
والے اس بات پر مَصر ہیں کہ پاکستا ن کے قانون کے مطابق غیر مسلم اقلیتوں
کو حقوق حاصل ہیں کہ وہ ملکی معاملات میں بہ طور وزیر یا مشیر شمولیت
اختیار کرسکتے ہیں تو ان کے لیے عرض یہ کرنا ہے کہ قادیانی اپنے آپ کوغیر
مسلم اقلیت مانتے ہی نہیں ہیں حالاں کہ 7ستمبر 1974 کو پاکستان کی قومی
اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیاتھا ۔ دوسر ی بات اگر پاکستا
ن کے قیام اور قیام کے بعد ان قادیانیوں کی سرگرمیوں کو دیکھا جائے تو
انھوں نے کبھی بھی اسلام یا پاکستان سے خیر خواہی نہیں کی ہے ۔قیامِ
پاکستان سے قبل قادیانیوں نے حتیٰ الامکان کوشش کی کہ برصغیر کے مسلمانوں
سے جذبہ جہاد کو ختم کیاجائے جب اس میں ناکام ہوئے تو پاکستان کے قیام کے
لیے کی جانے والی ہرکوشش میں روڑ ے اٹکائے ۔جب پاکستا ن بن گیا تو تب بھی
انھوں نے پاکستا ن کی بقاء کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔تقسیم ہند
کے وقت باؤنڈری کمیشن میں مسلم لیگ کے قادیانی نمائندہ ظفر عبداﷲ خان
آنجہانی نے پاکستان کے خلاف بھر پوروار کیا اور پٹھان کوٹ ، فیروز پور،
گورداش پور ، قادیان اور آدھے کشمیرکو پاکستان میں شامل نہ ہونے دیا جس سے
علامہ اقبال ؒ کی یہ بات کہ قادیانی اسلام اور وطن کے غدار ہیں حقیقت بن
کرسامنے آئی۔قیام پاکستان سے ۱۹۵۲ تک قادیانیوں نے اسلام اور پاکستان کے
خلاف خوب سازشیں کیں ،مرزابشیر الدین نے پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کا
پروگرام بنایا اور بلوچستان کو احمدی سٹیٹ بنانے کی منظم منصوبہ بندی مکمل
کرلی تھی جس میں اس وقت کے وزیر خارجہ پاکستان سر ظفر اﷲ (قادیانی) نے
قادیانیوں کے یہ ناپاک عزائم پورے کرنے میں ہر ممکن تعاون کیا مگر ناکام
رہا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قادیانیوں اور غیرمسلموں میں کیا فرق ہے تو اس
کاجواب نہایت سادہ سا ہے کہ غیر مسلم چاہے وہ ہندو ہیں ، عیسائی ہیں یا کسی
اور مذہب کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر اپنے عقائد
مسلمانوں پرتھوپ کر مسلمانوں کو کفر پر مجبور نہیں کرتے ہیں جب کہ قادیانی
اپنے کفریہ عقائد کی پرچاری کے لیے مسلمان ہونے کادعویٰ کرتے ہیں اور اپنے
کفرپر اسلام کا لیبل چپکاکر مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ یہی اسلام
ہے۔قادیانی مرتد اور زندیق ہیں ۔مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام کو ترک کرکے کوئی
مذہب اختیار کرلے اورزندیق وہ ہوتا ہے جو اپنے کفریہ عقائد کو اسلام کا نام
دے ۔
قیام پاکستا ن کے بعد قادیانیوں نے ہر دور میں سر اٹھایا اور حتی الامکان
کوشش کی کہ حکومت وقت کے قریب ہوکر اپنے اوپر لگے لیبل ’’غیر مسلم اقلیت‘‘
کو اتار سکیں اس کوشش میں جہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو معاشی نقصان ہوا
وہاں ہی جانی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے موجودہ حکومت سے گزارش
ہے کہ ماضی و حال میں کی جانے والی قادیانیوں اور اسلام دشمن عناصر کی
چالاکیوں کو بھانپا جائے اورحتیٰ الامکان کوشش کی جائے کہ ان کو ملکی
معاملات سے دور ہی رکھا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ علمائے کرام کو بھی چاہیے
کہ وہ موجودہ حکومت سے ہرطرح کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے موجودہ حکومت کے
قریب ہوں تاکہ اسلام دشمن عناصر علمائے کرام کی حکومت سے بائیکاٹ کافائدہ
اٹھاتے ہوئے حکومت کے قریب آکر اپنے مفادات کا حصول ممکن نہ بناسکیں ۔ کیوں
کہ کفار ہر دورمیں شاطر مزاج اورموقع پرست رہا اب جب کہ علمائے کرام سیاسی
چپقلش کی وجہ سے حکومت وقت کابائیکاٹ کر کے حکومت سے دور ہیں تو اس موقع کا
فائدہ اٹھا کر اسلام دشمن عناصر حکومت وقت کے قریب ہوں گے (جو ہوئے بھی ہیں
)اوراپنی شاطرانہ چالو ں سے اپنے مفادات کے حصول کویقینی بنالیں گے جس سے
نقصان یقینا اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ہی ہونا ہے جس پر رونے دھونے کا
فائدہ ہے اور نہ ہی دھرنوں،جلسے جلوسوں اور احتجاجوں کا۔۔۔
|