ترکی امریکہ تصادم کے اسباب ووجوہات:ایک جائزہ

ترکی کے خلاف امریکی جارحیت اصل میں ترکی میں بڑھ رہی اسلام پسندی اور اسلامی احکام کی نشأۃ ثانیہ ہے.
جس کی وجہ سے امریکہ ویوروپ ترکی حکومت سے خائف ہیں.

کبھی قریبی دوست رہے ترکی اور امریکہ کے مابین ان دنوں تلخی وکشیدگی زوروں پر ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ تلخی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ابھی دور دور تک اس کشیدگی کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔کشیدگی کی شروعات اس وقت ہوئی جب ترکی میں رہائش پذیر ایک امریکی پادری کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کیاگیا۔پادری کی گرفتاری نے امریکہ کو برافروختہ کر دیا،اس نے ترکی حکومت پر پادری کی رہائی کے لئے دباﺅ بنایالیکن تاحال ترکی نے تمام طرح کے دباﺅ کو مسترد کرتے ہوئے پادری کو رہا کرنے سے انکار کردیاہے۔اسی سے تلملا کر امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ(Donald Trump )
نے ترکی سے امریکہ آنے والی اسٹیل ،فولاداور المونیم کی مصنوعات پر ٹیکس کی شرحوں کو20 سے 50 فیصد تک بڑھا دیا ہے،ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر ان کے پادری کو جلد رہا نہیں کیا گیا توترکی پر مزید معاشی پابندیاں لگائیں جائیں گی۔
دوسری طرف ترکی کا کہنا ہے کہ2016ءمیں ہونے والی بغاوت اور تختہ پلٹ کی سازش میں پادری شامل تھا اس لئے ترک قوانین کے مطابق ٹرایل کیا جائے گا اور ترک عدلیہ جو فیصلہ دے گی اسی کے مطابق پادری کے ساتھ سلوک کیا جائے گا۔لیکن امریکہ نے ترک حکومت کی بات کو ماننے سے صاف انکار کرتے ہوئے اس پر دباﺅ بنانے کے لئے انتقامی کاروائی شروع کردی ہے،اور اسی وجہ سے ترکی کرنسی لیرا(Lira)کی مارکیٹ ویلو بہت زیادہ ڈاﺅن ہوگئی ہے۔

*ترک کرنسی کی پوزیشن*:

پانچ سال پہلے ترک کرنسی بہت مضبوط پوزیشن میں تھی،محض دو لیرا(Lira)کے دیکر ایک ڈالر خریدا جاسکتا تھا یعنی ترکی کرنسی ڈالر کے آس پاس ہی تھی۔لیکن امریکی پابندیوں کی وجہ سے ترکی کرنسی مسلسل کمزور ہورہی ہے اور اس سال لیرا قریب چالیس فیصد تک کمزرو ہوئی ہے جس کی وجہ سے ایک ڈالر خریدنے کے لئے 6.5لیرا خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔حالانکہ ترک صدر رجب طیب نے اس دھمکی کو ہوا میں اڑاتے ہوئے امریکی مصنوعات پر بھی ٹیکس کی شرحیں بڑھا دی ہیں،ساتھ ہی عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈالر دیکر اپنی کرنسی لیرا خریدیں تاکہ امریکہ کو منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔انہوں نے یہ بھی کہا ایک پادری کے لئے انصاف کو پامال نہیں کیا جاسکتا ۔
اس سخت موقع پر قطر حکومت نے ترکی کا ساتھ دیتے ہوئے15000ڈالر کا انویسٹ مینٹ(investment)کرنے کا اعلان کیا ہے۔چائنا نے بھی ترکی کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے پچاس بڑے کاروباریوں کے ایک گروپ کو ساجھے داری اور انویسٹ مینٹ کرنے ترکی بھیجا ہے۔ان کاروباریوں میں ہر ایک کا بزنس قریب 15سے 30ارب ڈالر کا ہے۔فلسطین نے بھی ترکی کی حمایت کی ہے۔ان سارے اقدامات کی وجہ سے ابھی فی الحال ترک کرنسی کو استحکام ملا ہے،امید ہے آگے کچھ اور بہتری آئے گی۔

*قضیہ امریکی پادری کا*:

جس پادری کو لیکر دونوں ممالک کے مابین تلخیاں بڑھ رہی ہیں وہ پروٹسٹنٹ پادری اینڈریو بروسن ہے۔یہ پادری کافی عرصے سے ترکی کے شہر "ازمر" کے ایک چرچ میں بطور پادری رہائش پذیر تھا۔اس چرچ سے قریب دودرجن عوامی گروپ وابستہ ہیں2016میں ترک فوج نے ترکی صدر رجب طیب اردغان کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی سازش کی تھی اور فوج منتخبہ حکومت کو بے دخل کرنے کے لئے ہتھیاروں سمیت سڑکوں پر نکل آئی تھی.اس موقع پر پوری دنیا کو رجب طیب صاحب کی غیر معمولی عوامی مقبولیت کا اندازہ ہوا کہ ان کی اپیل پر
ترک عوام نے عزیمت واستقامت کی وہ مثال پیش کی جس کو دیکھ کر دنیا نے حیرت سے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔!!

ترک عوام گھروں سے باہر آکر فوجی ٹینکوں کے سامنے آکر لیٹ گئے کہ تختہ پلٹ کرنا ہے تو پہلے ہمیں ختم کرو!!
سو دوسو لوگ ہوتے تو فوج حملہ کرسکتی تھی لیکن یہاں تو بچے بوڑھے جوان،عورت مرد سب سڑکوں پر آکر لیٹ گئے جس کی وجہ سے فوج کی سازش بری طرح ناکام ہوئی۔بعد میں جب اس سازش کے پردے چاک ہونا شروع ہوئے تو کئی سارے بیوریکٹس،فوجی افسران،ججز اور کئی غیر ملکی حکومتوں کے نمائندگان بھی اس سازش میں ملوث پائے گئے، سازش کے تار اس پادری تک بھی پہنچے جس کی بنیاد پراکتوبر 2016ءمیں دیگر سازشیوں کے ساتھ اسے بھی گرفتار کر لیا گیا۔گرفتار شدگان کی تعداد قریب پچاس ہزار ہے اور ان میں 20 امریکی باشندے بھی شامل ہیں۔

*امریکہ ناراض کیوں*؟

بغاوت فروہونے کے بعد احتساب کا سلسلہ شروع ہوا،جس کی زد میں یہ امریکی پادری بھی آیا۔ترک حکومت کا کہنا ہے کہ پادری کو اپنی برأت ظاہر کرنے تمام قانونی مواقع فراہم کرائیں جائیں گے اورترک قوانین کے مطابق اسے اپنی صفائی کا ہر موقع دیا جائے گا!!

اصولاً ترکی کی بات انصاف کے عین مطابق ہے لیکن امریکہ کی ہٹ دھرمی دیکھئے کہ اس نے انصاف کے تمام طریقوں کو ٹھکراتے ہوئے سیدھا مطالبہ کیا ہے کہ ہمارے شہری کو بغیر کسی مواخذہ کے رہا کرو،ورنہ انتقام کے لئے تیار رہو۔
دنیا کے تمام مہذب ممالک اور اقوام متحدہ کا اصول ہے کہ اگر کسی ملک میں کوئی غیر ملکی شہری کسی جرم کا

مرتکب ہوتا ہے تو اسی ملک کے قانون کے مطابق اس پر کاروائی ہوگی اور اگر متاثرہ فرد کا ملک اس ملک کی قانونی کاروائی سے مطمئن نہ ہو تو عالمی عدالت انصاف(international court of justice )میں اپیل کر سکتا ہے،جہاں دونوں ہی فریقین اپنا مدعا پیش کرنے کے لئے آزاد ہوتے ہیں،لیکن چودھراہٹ شاید اسی کا نام ہے کہ امریکہ انصاف کے کسی قاعدہ کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔

*امریکی چودھراہٹ*:

دنیا بھر کو جمہوریت،انصاف اور مساوات کا سبق پڑھانے والا امریکہ خود کو ہر قانون سے ماورا سمجھتا ہے اسی لئے گرفتار پادری کی بلا شرط رہائی چاہتا ہے۔جبکہ پادری عام شہری نہیں بلکہ ایک ٹرینڈ جاسوس ہے اسی لئے امریکہ تلملا رہا ہے،نہیں تو ایک عام شہری کے لئے کسی ملک سے آمادہ پیکار ہوجانا کسی کے گلے نہیں اتر رہا ہے۔اسی لئے تما م اخلاقی ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دھمکیاں دے رہا ہے۔امریکی ہٹ دھرمی کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے،دنیا بھر میں اس کی مثالیں موجود ہیں لیکن ہم یہاں ترکی معاملہ سے ملتی جلتی ایک مثال پیش کرتے ہیں جہاں امریکہ نے اسی طرح کی ہٹ دھرمی سے کام لیا تھا۔

*ریمنڈ ڈیوس قضیہ*:27جنوری 2011ءکو پاکستان میں رہائش پذیر ایک امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس (Remand Dewis)نے دو پاکستانی افراد کو گولی مار کر قتل کردیاتھا۔ریمنڈ اصل میں امریکی خفیہ ایجنسی CIAکا ایجنٹ تھا۔قتل کے بعد اسے گرفتارکر لیا گیا،عدالتی کاروائی کے بعد اس پر قتل ثابت ہوا،جس کی سزا عمر قید یا پھانسی تھی۔لیکن امریکہ نے پاکستانی حکومت پر دباﺅ بنایا کہ ریمنڈ کو رہا کیا جائے ،جب پاکستان نے ماننے سے انکار کردیا تو امریکہ نے 21ہزار ڈالر کی امداد بند کردی،مزید معاشی پابندی کی دھمکی دی،جس سے گھبرا کر پاکستانی حکومت نے مقتولین کے ورثا کو دیت پر راضی کرکے ریمنڈ کی رہائی کرائی اور خصوصی طیارے سے اسے امریکہ بھجوایا۔جوکھیل امریکہ نے پاکستان میں کھیلا وہی ترکی میں بھی کھیلنا چاہتا ہے،ابھی تک تو رجب طیب اردغان نے جھکنے سے انکار کردیا ہے آگے کیا ہوتا ہے یہ مستقبل کے پردوں میں چھپا ہے،لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قاعدہ قانون صرف کمزروں کے لئے ہے امریکہ جیسے طاقتور ممالک خود کو ہر ضابطے سے مستثنی سمجھتے ہیں۔

*دوست سے دشمنی کیوں*؟

امریکہ اور ترکی کے مابین طویل عرصے سے دوستانہ تعلقات ہیں۔کاروبارسے لیکر تعلیم،اقتصادیات اور معاشیات جیسے امور میں بھی دونوں ممالک کی فکری یکسانیت رہی لیکن اچانک ایسا کیا ہوا کہ ترکی میں ہونے والی بغاوت کے تار امریکہ سے جڑتے دکھائی دے رہے ہیں؟
بغاوت کے معاملے پر جہاں دنیا بھر کے ممالک نے ترکی حکومت کی کھلی حمایت اور بغاوت کی سخت مذمت کی وہیں امریکہ کا رویہ چل چلاﺅ والا تھا ،جس سے شک مزید گہرا جاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں پانی مر رہا ہے!!

اس معاملے پرتجزیہ کیا جائے تو جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ ترکی کا اسلام پسندی کا طرف بڑھتا رجحان ہے جس سے امریکہ ویوروپ سخت خائف ہیں۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لئے آپ کو پیچھے کے منظرنامے پر ایک نظرڈالنا پڑے گی تاکہ معاملہ کا ہر سین آپ کی نگاہوں کے سامنے آسکے تب آپ بخوبی جان سکیں گے کہ کل کا دوست امریکہ آج دشمنی پر کیوں آمادہ ہے۔

*ترکی پر ایک نظر*:

اب تک ترکی ایک ایساآئینی جمہوریہ تھا جس کا سیاسی نظام 1923ءمیں سقوط سلطنت عثمانیہ کے بعداتاترک مصطفی کمال پاشا کی زیر قیادت تشکیل دیا گیاتھا۔ ترکی1949ءسے اقوام متحدہ کا بانی رکن اوریورپی یونین(E.U) اور 1952ءسے شمالی اوقیانوسی معاہدے(NETO) کا رکن ہے۔ترکی کے یورپین اتحاد میں شمولیت کے لیے طویل عرصے سے مذاکرات چل رہے ہیں۔ترکی کی سرحدیں8 ممالک سے ملتی ہیں جن میں شمال مغرب میں بلغاریہ، مغرب میں یونان، شمال مشرق میں گرجستان (جارجیا)، مشرق میں آرمینیا، ایران اور آذربائیجان کا علاقہ اور جنوب مشرق میں عراق اور شام شامل ہیں۔ علاوہ ازیں شمال میں ملکی سرحدیں بحیرہ اسود، مغرب میں بحیرہ ایجیئن اور بحیرہ مرمرہ اور جنوب میں بحیرہ روم سے ملتی ہیں۔

*ترکی میں مسلمانوں کی آمد*:

ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں ہی مسلمانوں نے شام اور مشرقی ترکی کو فتح کر لیا تھا جس کی وجہ سے رومی سلطنت صرف اناطولیہ کے مغربی علاقوں تک سمٹ گئی۔ 1037ءمیں اس علاقے میں طغرل بیگ نے سلجوقی سلطنت کی بنا ڈالی۔ مشرقی اور وسطی اناطولیہ پر سلجوقوں اور مغربی ترکی پر رومنوں کی حکومت رہی۔
مسلمانوں نے ابتدائی فتوحات ہی میں موجودہ ترکی کے مشرقی علاقوں کو اپنے زیر نگیں کر لیا تھا لیکن اناضول (اناطولیہ) کے درمیانی علاقے
9ویں صدی میں سلجوقوں کی آمد تک مسلم ریاست نہ بن سکے۔ بلاد اسلامیہ پر چنگیز خانی یلغار کے بعد ترکوں نے وسط ایشیا سے ہجرت کر کے اناطولیہ کو اپنا وطن بنایا۔ جنگ ملازکرد میں رومیوں پر سلجوقیوں نے یادگار فتح حاصل کی اور اسی فتح نے علاقے کے مستقبل کا فیصلہ کر دیا۔اس طرح ترکی کا بیشتر علاقہ ہمیشہ کے لیے بلاد اسلامیہ کا حصہ بن گیا۔ سلجوقیوں کے زوال کے بعد ترکی کے

سیاسی منظر نامے پر عثمانی ابھرے جنہوں نے اسلامی تاریخ کی سب سے عظیم ریاست "سلطنت عثمانیہ" کی بنیاد ڈالی۔
سلطنت عثمانیہ 631 سال تک قائم رہی اور 16 ویں اور 17 ویں صدی میں دنیا کی سب سے طاقتور سیاسی قوت تھی۔ عثمانیوں کی فتوحات ہی کے نتیجے میں اسلام وسط یورپ تک پہنچا اور مشرقی یورپ کا علاقہ عرصہ دراز تک مسلمانوں کے زیر نگیں رہا۔ زوال کے دور کے بعد سلطنت عثمانیہ نے پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کا ساتھ دیا اور بالآخر شکست کھا کر خاتمے کا شکار ہو گئی۔ جنگ کے بعد طے پانے والے معاہدہ سیورےSevres of Treaty کے مطابق فاتح اتحادی قوتوں نے سلطنت عثمانیہ کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹ کر آپس میں تقسیم کر لیا۔

*خلافت عثمانیہ کا زوال*:

پہلی عالمی جنگ میں خلافت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا اس لیے جرمنی کی شکست کے اثرات اس پر بھی پڑے اور یورپی قوتوں نے شکست خوردہ ممالک کے حصے بخرے کیے تو اسی بندر بانٹ میں استنبول پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس وقت کے عثمانی خلیفہ سلطان
عبد الوحید تھے۔اس وقت مصطفی کمال جو کمانڈر انچیف تھے،انہوں نے قابض متحدہ فوجوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا اور یورپی ملکوں سے مطالبہ کیا کہ ان کی فوجیں ترکی کی حدود سے باہر نکل جائیں اور ترکی کی خودمختاری اور وحدت و آزادی کو تسلیم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے مصطفی کمال نے یونان کے ساتھ دوبدو جنگ بھی لڑی اور اس مہارت کے ساتھ ترک فوجوں کی کمان سنبھالی کہ یونانی فوج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اس طرح مصطفی کمال،ترک قوم کے نجات دہندہ اور آزادی کی علامت کے طور پر ترک قوم کے ہیرو بن گئے۔

*مصطفی کمال اور جدید ترکی*:

مصطفیٰ کمال پاشا(ولادت1881ء/متوفی1938ء) کوجدید ترکی کا بانی اور معمار کہا جاتا ہے، جنہوں نے 1923ءمیں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کرکے جمہوریہ ترکیہ کی بنیاد رکھی اور ترکی اس کے بعد سے انہی کے متعین کردہ خطوط پر پوری سختی کے ساتھ گامزن رہا۔ انہوں نے ایک طرف یورپی ملکوں بالخصوص یونان کا مقابلہ کرتے ہوئے ترکی کی داخلی خودمختاری کی حفاظت کی اور بیرونی حملہ آوروں کو نکال کر ترکی کی وحدت کا تحفظ کیا جبکہ دوسری طرف خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر کے ترکی کو عالم اسلام سے بھی الگ کر لیا۔ مصطفی کمال نے اسلام پسندی چھوڑ کرترک قوم پرستی کا نعرہ دیااور اسی بنیاد پر ترک قوم کو بیدار کرنے، اس کے جداگانہ تشخص کو دنیا کے نقشے پر نمایاں کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ۔
19مئی 1919ءکو ترکوں نے اتحادی جارحیت کے خلاف تحریک آزادی کا اعلان کیا جس کی قیادت مصطفی کمال پاشا کر رہے تھے۔ 18 ستمبر 1922ءکو تمام جارح افواج کو ترکی سے نکال باہر کیا ۔اسی وجہ مصطفی کمال پورے ترکی کے ہیرو بن گئے اور قوم نے انہیں”اتاترک“ کا خطاب دیا۔لیکن یہ آزادی ترک عوام کوبہت مہنگی پڑی بقولے۔ع

وہ اندھیرے ہی بھلے تھے کہ قدم راہ پہ تھے
روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور مجھے

اصلاً مصطفی کمال پاشا کو خلافت سے چڑھ تھی یہ مغربی تعلیم یافتہ اور مغربی تہذیب و ثقافت کا دلدادہ تھا۔ 1919ءسے لیکر 1924ءتک پانچ چھ سال میں اسلامی خلافت کو بالکلیہ ختم کرنے اور مغربی جمہوریت لانے کی تیاریاں ہوتی رہیں۔ مئی 1920ءمیں بننے والی ترکی کی قومی اسمبلی نے بالآخر یکم نومبر 1922ءکو خلافت سے آخری اور رسمی رابطہ بھی ختم کردیا۔ اور اس طرح 631 سالہ عثمانی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔
خلافت کے خاتمے کے اعلان پرترکی کو سیکولر اسٹیٹ ڈیکلیئر کردیا گیا۔ سیکولر ترک قومی اسمبلی نے ایک قانون منظور کیا، جس کی رو سے خاندان عثمانیہ کا کوئی فرد بھی سرزمین ترکی میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اس طرح سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد عثمانی خاندان کی خلافت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ 20 اپریل 1924ءکو ترکی کی قومی اسمبلی نے آئین جاری کیا، جس کے مطابق ”اعلیٰ اختیارات کا سر چشمہ ترکی جمہوریہ کا صدر ہوگا۔ ترکی کا پورا آئین مغربی طرز کا آئین تھا۔"

*خلافت کا خاتمہ اور جدید ترکی*:

نومبر 1922ءمیں ترکی کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے یورپی ملکوں کی کانفرنس ہوئی جس میں مصطفی کمال پاشا کی طرف سے ان کے رفیق خاص عصمت انونو نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں برطانوی وفد کے لیڈر لارڈ کرزن نے ترکی کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کرنے کے لیے چار شرائط پیش کیں۔
🔸نظام خلافت مکمل طور پر ختم کیا جائے۔
🔸خلیفہ عبد الحمید ثانی کو ملک بدر کر دیا جائے۔
🔸خلیفہ کے تمام اموال قومی تحویل میں لیے جائیں۔
🔸ترکی کے سیکولر ریاست ہونے کا اعلان کیا جائے۔
اس وقت عصمت انونو ان شرائط کو تسلیم کیے بغیر کانفرنس سے واپس آگئے مگر بعد میں ترکی کی نئی قومی لیڈرشپ نے ان تمام شرائط کو تسلیم کر لیا۔ چنانچہ تین مارچ 1924ءکو خلافت کا نظام ختم کر کے خلیفہ کے خاندان کو جلاوطن کر دیا گیا اور جمہوریہ ترکیہ کے قیام کا اعلان کر کے اسے سیکولر ریاست بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات کئے گئے:

🔹دستور سے سرکاری مذہب اسلام کی شق خارج کر دی گئی۔
🔹دینی مدارس اور خانقاہوں پر پابندگی لگا ک

ر مذہبی تعلیم کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔
🔹 پردے کو قانوناً جرم قرار دے دیا گیا۔
🔹 یورپی لباس پہننا اور ننگے سر رہنا ضروری قرار دے دیا گیا۔
🔹 پیری مریدی ممنوع قرار دی گئی اور مزاروں پر جانے اور دعائیں مانگنے پر پابندی لگا دی گئی۔
🔹 ہجری تقویم ختم کر کے شمسی کیلنڈر رائج کیا گیا۔
🔹 جمعہ کی چھٹی ختم کر اتوار کی چھٹی کا اعلان کیا گیا۔
🔹 عربی زبان میں قرآن کریم کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی اور ترکی زبان کا عربی رسم الخط منسوخ کر کے رومن رسم الخط اختیار کر لیا گیا۔
🔹 نماز، دعا اور قرآن کریم کی تلاوت ترکی زبان میں لازمی قرار دے دی گئی۔
عثمانی سلطنت کے خاتمے کے بعد مسلمانانِ عالم کے ساتھ کیا ہوا یہ ایک خونچکاں داستان ہے۔حرمین شریفین پر برطانیہ کی مدد سے وہابیوں نے غاصبانہ قبضہ کیا اور حرمین کے تقدس کو پامال کیا اب ان شریروں کی پکڑ کرنے والا کوئی نہیں تھا،کیوں کہ اب تک ترکی کا سلطان پوری اسلامی دنیا کا خلیفہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ اگرچہ خلافت برائے نام ہی رہ گئی تھی، لیکن مسلمان اسے اسلامی اتحاد کی علامت تصور کرتے تھے۔ اسی بناپر ترکی کی حکومت کے ساتھ ان کا جذباتی تعلق تھا۔ تمام مسلمان خلیفہ وقت کی عزت کرتے تھے۔ مسلمانوں کا سیاسی وقار بھی اس سے وابستہ تھا!!

برصغیر کے مسلمانوں کا یہ دینی و سیاسی مرکز بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ترکی میں خلافت کو بچانے کے لیے ہندوستان میں "خلافت بچاؤ تحریک" شروع ہوئی، اور یہاں کے سرخیل عالم دین امام احمد رضا قادری بریلوی نے ترک مسلمانوں کی حمایت کے لئے
"جماعت انصارالاسلام"
قائم کی اور ان کی قیادت میں مسلمانوں نے ترک بھائیوں کی بھرپور حمایت اور مدد کی تھی۔ ترکی کی خلافت وحدت کا مشکل فریضہ سرانجام دے رہی تھی۔ اس خلافت کا خاتمہ مسلمانوں کے سیاسی انحطاط کا نقط آغاز تھا۔ اس حادثہ کے بعدسے ابھی تک مسلم اُمّہ پنپ نہیں سکی ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے بڑے کرب کے ساتھ کہا تھا:

چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی د،یکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ

*مصطفی کمال کی اسلام دشمنی*:

ترکی کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کے بعد وہاں مغربی طرز زندگی کو عام کیاگیا،اسلامی تعلیمات پر پابندیاں لگاکرفحاشی و عریانی عام کردی گئی۔ تمام اسلامی قوانین کو ختم کردیا گئے، مذہبی علما و صلحاکو پھانسیاں دی گئیں۔غرضیکہ 1924ءسے لے کر 1930ءتک چھ سالوں میں مصطفی کمال پاشا نے پورے ترکی سے دین اسلام اور مذہبی شعائر کو مٹانے کی پوری کوشش کی اور ایک مطلق العنان حکمران بن بیٹھا۔ اپنے طور پر وہ دینِ اسلام کا نعوذ باللہ قلع قمع کرچکا تھا، لیکن یہ چراغ بجھنے والا کہاں تھا۔ اس کی چنگاریاں کہیں نہ کہیں سے سلگتی رہتی تھیں۔ع

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
جتنا ہی دباﺅگے اتنا ہی یہ ابھرے گا

ٹھیک 20 سال بعد عدنان مندریس ترکی کے وزیراعظم بن گئے۔ عدنان مندریس اسلام پسند تھے، یہ 1899ءمیں پیدا ہوئے۔ دینی و عصری تعلیم حاصل کی، سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ یہاں تک 1950ءمیں ترکی کے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔مصطفی کمال پاشا کے بعد یہ پہلے وزیراعظم تھے جو 1950ءسے مسلسل تین بار وزیراعظم منتخب ہوئے۔ عدنان مندریس نے ترکی کے وزیراعظم بننے کے بعد ترک فوج کے سیکولر اقدامات کی بجائے اسلامی اقدامات کو ترجیح دی۔ 25 سال بعد ان کی حکومت میں 423 افراد نے پہلی مرتبہ فریضہ حج کی سعادت حاصل کی۔ مساجد میں لگائے گئے تالے کھلوائے، قرآن پڑھنے کی اجازت دی گئی۔لیکن 1960ءمیں ترکی فوج نے وزیراعظم عدنان میندریس کو اسلام پسندی کی وجہ سے پھانسی دے دی۔لیکن جو پودا عدنان میندریس نے لگایا تھا وہ ختم نہیں ہوا ،اور بعد میں نجم الدین اربکان منظر عام پر آئے۔ اربکان صاحب فوج کے سامنے ایک مضبوط چٹان ثابت ہوئے۔مغرب پرستوں کی نجم الدین اربکان کو راستے سے ہٹانے کی ہر کوشش ناکام ہوئی ،ان کی جماعت پر بار بار پابندیاں لگائی گئیں لیکن فوج اور مغرب پرست اس دروازے کو بند نہیں کر سکے۔رفاہ سے فضیلت،فضلیت سے جسٹس اینڈ ڈویلپ منٹ پارٹی
(justice & Development )تک سفر کرتے ہوئے اسلام پسندوں نے حکمت ودانائی کے ساتھ اپنا سیاسی سفر جاری رکھا یہاں تک کہ نجم الدین اربکان کے تربیت یافتہ اور سیاسی جانشین رجب طیب اردغان منظر عام پر آئے۔اب تک ان حضرات کی کوششوں سے ترک معاشرہ کافی بدل چکا تھا اس لئے رجب طیب صاحب کی پارٹی واضح اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی۔بس یہیں سے ترکی میں اسلام کی نشاہ ثانیہ کا دور شروع ہوا،اور ترکی نے واپس اپنے مرکز اسلام کی
طرف سفر شروع کردیاہے۔

*اصل مسئلہ اسلام پسندی ہے*:
رجب طیب صاحب کی اسلام پسندی کی وجہ سے ترک معاشرے میں اسلامی بیداری آئی ہے،جس کی وجہ سے مساجد آباد ہوئیں،مدرسوں کی رونق بحال ہوئی، قرآن پاک کی تلاوت سے فضائیں معطر ہیں،مغربی رسومات روبہ زوال ہیں اور ترک معاشرہ ایک بار پھر اپنے شاندار ماضی کی طرف چل پڑا ہے.
آج پورے عالم اسلام میں ترک صدررجب طیب اردغان ایک بہادر،نڈر بیباک لیڈر کے طور پر

سامنے آئے ہیں۔کل تک ترکی واحد مسلم ملک تھا جس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات تھے لیکن فلسطینی امداد لیکر جارہے جہاز فریڈم فلوٹلا پر اسرائیلی حملے پر ترک صدر کے جرأت مندانہ موقف نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیااور انہوں نے اسرائیل کے سفیر کو ملک بدر کرتے ہوئے اس کا مکمل بائیکاٹ کیا اور اقوام متحدہ میں سخت ایکشن لیا. ان کے اسی موقف اور جرأت مندی نے انہیں ترکی سے اٹھاکر عالمی سطح پر لاکھڑاکیاہے۔
حب تک ترکی ایک اسلام بیزار ملک بنا رہا تب تک امریکہ ویوروپ کی آنکھوں کا تارا بنا رہا. لیکن جب سے اسلام پسندوں کی حکومت آئی اور اسلامی احکام کی نشأۃ ثانیہ ہوئی بس امریکہ ویوروپ سازشوں پر اتر آئے. 2016کی ناکام بغاوت انہیں عوامل کا نتیجہ تھی. جس پر انہیں منہ کی کھانا پڑی. ناکام ہونے کے بعد اب یہ دھمکیوں پر اتر آئے ہیں!!

ترک صدر کی حکمت ودانشمندی،عزیمت استقامت کی وجہ سے آج ترکی ایک مضبوط معاشی طاقت بن کر منظر عام پر ابھرا ہے،بس امریکہ ویوروپ کی سب سے بڑی پریشانی ایک امریکی جاسوس نہیں بلکہ ترکی کی اسلام پسندی ہے،کہیں ترکی میں "احیائے خلافت" عالم اسلام کو متحد نہ کر دے۔
حالانکہ ایک خدشہ بھی ہے. ابتداءً مصطفی کمال کے اقدامات بھی بہت عمدہ تھے. جس کی پوری ملت اسلامیہ میں پذیرائی ہوتی تھی.حتی کہ اسے "غازی مصطفیٰ کمال" کہا جاتا تھا. لیکن بعد میں اسی شخص نے اسلام کو دیس نکالا دیا تھا.
خدا کرے کہ رجب طیب اردغان عثمانی سلطانوں کے سچے جانشین ثابت ہوں،ترکی میں اسلام ومسلمانوں پر جو مظالم ہوئے ہیں وہ ان کی تلافی کرنے والے مرد میداں ثابت ہوں اور ایک بار پھر ٹوٹے دانوں کی طرح بکھری ہوئی ملت اسلامیہ کو ایک لڑی میں پرونے میں کامیاب ثابت ہوں!!

اللہ تعالیٰ وہ مبارک دن جلد لائے۔آمین بجاہ سید المرسلین

Ghulam Mustafa Raza
About the Author: Ghulam Mustafa Raza Read More Articles by Ghulam Mustafa Raza: 2 Articles with 4022 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.