محرم الحرام ،امن کمیٹی اور علما کرام کا کردار

محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی امن امن کی صدا بلند ہونا شروع ہوجاتی حالانکہ اسلامی تعلیمات اور قرآن کا مطالعہ کرنے والے اس بات کو بخوبی جانتے ہیں اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے امن وسلامتی اس کے مادے میں موجود ہے ،قرآن کریم میں’’ اشھر حرمـــ‘‘ کی حرمت کا تذکرہ موجود ہے جس کی لاج کفار و مشرکین بھی رکھتے تھے ،ان مہینوں میں جنگ و جدال بند ہوجاتا تھا محرم الحرام کی حرمت و احترام روز اول سے اور لوح قرآنی میں محفوظ ہے؂ حضرت حسین ؓ کی شہادت نے اس کی حرمت اور عظمت کو چار چاند لگا دیے ان پاکیزہ ہستیوں نے اپنے خون جگر سے گلشن اسلام کی آبیاری کی، حریت اور آزادی فکر کی شمع روشن کی۔محرم الحرام کی ابتدا میں ہماریہاں اس طرح کا ماحول بنتا ہے گویا پاکستان میدان جنگ ہے ،کاروبار زندگی کا مفلوج ہونا ،سیکورٹی کے مسائل کا پیدا ہونا اک عجب سی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ علما کرام اس نفرت کی آگ بجھانے میں مصروف عمل ہوجاتے ہیں ،اسی سلسلہ کی ایک کوشش گزشتہ روز علما امن کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبد الماجد قمر صاحب نے ہری پور میں مختلف مسالک اور مکاتب فکر کو جمع کر کے اتحاد ویکجہتی کی صورت میں پیش کی بلاشبہ مختلف الخیال علما کا ایک جگہ جمع ہونا سعادت ہے ،مقامی ہوٹل میں ہونے والی اس تقریب میں انتظامیہ انٹیلی جینس کے افراد اور علما کرام نے شرکت کی جس میں محرم الحرام کے حوالے سے پائی جانے والی امن وامان کی صورتحال پر بات چیت کی گئی تمام احبا ب نے امن کی ضرورت اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں امن کے کردار پر بات کی ،انتظامیہ کے ساتھ تعاون کا یقین اور ہر ممکن کوشش کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا

مولانا عبد الماجد قمر چئیرمین علما امن کمیٹی نے اتحاد ویکجہتی اور امت مسلمہ کے لیے اس کی ضرورت پر روشنی ڈالی ،فرقہ وارانہ واقعات کی مذمت اور اسلام کے اجلے کردار کو سب کے سامنے رکھا اس ضمن میں علما امن کمیٹی کی فعالیت اور اس کے کاموں پر بھی روشنی ڈالی ،ان کا کہنا تھا علما امن کمیٹی صرف کاغذی کارروائی نہیں جو محرم الحرام میں سامنے آتی ہے بلکہ یہ ایک منظم نیٹ ورک ہے جو پورے سال فعال رہتا ہے اس میں مختلف الخیال علما تاجر برادری اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں جو ضلع کی سطح پر امن کی شمع روشمن کئے ہوئے ہیں۔بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے احباب میں قاری عبد الخالق ،مفتی اظہر اور ممتاز ہاشمی شامل تھے جنہوں نے امن کی کوششوں میں اپنے مکتب فکر کی طرف سے بھرپور حمایت کا یقین دلایا علما اہلسنت کے کردار اور امن کے لیے ان کی سعی کا بھی ذکر کیا ،اس موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انتظامیہ علما امن کمیٹی کی امن اور بھائی چارے کی کوششوں کو نظر انداز کرکے مخصوص ٹولے کو نوازنے کی روش سے باز آئے چند افراد علما کا نام استعمال کرکے ڈی سی اور ڈی پی او تک رسائی اور اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح اہلحدیث مکتب فکر کے مولانا عبد الوحید جماعت اسلامی کے یوتھ ونگ سے ملک احسن اقبال نے بھی نمائندگی کی ،افکار الاعوان تنظیم کی نمائندگی سماجی شخصیت ملک وجاہت محبوب اعوان نے کی ،دیوبند مکتب فکر کی نمائندگی راقم الحروف نے کی اور امن وامان کے لیے اپنے اسستاذ محترم کا مقولہ دہرایا ’’اپنا مسلک چھوڑونہیں دوسروں کا چھیڑو نہیں ‘‘مقدس شخصیات کے خلاف ہرزہ سرائی اور نفرت آمیزتقاریر معاشرے میں انارکی پھیلاتی ہیں ،سب مسال کے لوگوں کو اس ضابطہ اخلاق کی پیروی کرنی چاہیے ۔اس موقع پرنائب صدر علماامن کمیٹی قاری ضیاالرحمن ضیااور تھانہ سٹی کے ایس ایچ او اعجاز شاہ نے بھی علما امن کمیٹی کی سفارشات اور کام کو سراہا اور علما کرام کا شکریہ بھی ادا کیا ۔

جب دلیل اور مکالمہ ناپید ہو جاتاہے ،جب اختلاف برائے اختلاف رہ جاتا ہے، فریق مخالف بات چیت کے دروازے بند کردیتا ہے،مسلکی خول جب آنکھوں پر چڑھا دیا جاتا ہے اور حق جب صرف خود تک محدود ہوتا ہے،اس کے علاوہ سب باطل دکھتا ہے تو ایسے میں شدت پسندی پروان چڑھتی ہے ،معصوم لوگوں کی زندگی کے چراغ گل کئے جاتے ہیں، قاتل بھی مسلما ن مقتول بھی مسلمان ۔۔اسلام ان چیزوں کی مذمت کرتا ہے ،قرآن تفرقہ بازی کے مقابلہ میں’’ حبل اﷲ ‘‘دین کی رسی کو تھامنے کا حکم دیتاہے۔اور اتحاد واتفاق کا درس بھی قرآن میں موجود ہے ،باہمی منازعت اور رسہ کشی قوت کے بجائے ضعف کے اسباب پیدا کرتی ہے ،ولا تنازعوا فتفشلو ا وتذھب ریحکم واصبروا‘‘جھگڑو مت کمزور ہو جا و گے تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔جیسے واشگاف الفاظ بھی قرآن کا حصہ ہیں۔

رسول خدا ﷺ کی سیرت سے بڑھ کر کسی سیرت ہوسکتی ہے بھلا ؟ثمامہ بن اثال کا واقعہ احادیث کی کتب میں موجود ہے ،باوجود کافر ہونے کے مسجد نبوی ﷺ کے ستونوں سے باندھ دیے جاتے ہیں ،آپ ﷺآتے جاتے حال دریافت کرتے اور اسلام کی دعوت دیتے ہیں چنانچہ حسن اخلاق سے متاثرہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہیں ،لیکن ان کے جانے کے بعدآپ ﷺنے مسجد کو دھونے کا حکم صادرنہیں فرمایا اور ہمارا حال کہ کافر نہیں مسلمانوں کے مسجد داخل ہونے پر پابندی اور پھرداخلہ کے بعدمساجد کو دھونا ،کہاں رہ گئی مسلمانیت اور کدھر ہے انسانیت ؟حکیم الامت اشرف علی تھانوی رحمہ اﷲ کا مشہور مقولہ ’’اپنا مسلک چھوڑو نہیں دوسروں کا چھیڑو نہیں ‘‘کیا کمال کا مقولہ ہے ،کیا اختلافات کے باوجود ہم بھائی بھائی بن کر نہیں رہ سکتے ،یونس بن عبد الاعلی امام شافعی رحمہ اﷲ کے خاص تلامذہ میں سے ہیں ،کہتے ہیں میں نے امام شافعی سے زیادہ عقل مند کوئی انسان نہیں دیکھا ،ایک مرتبہ میرا ان سے مناظرہ ہوگیا ،کچھ عرصہ بعد ملاقات ہوئی تو میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ،’’اگر ہمارا کسی مسئلے میں بھی اتفاق نہ ہو توکیا ہم بھائی بھائی بن کر نہیں رہ سکتے ‘‘۔یعنی تمام مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود اخوت کا رشتہ قائم کیا جا سکتا ہے ۔ہمارے بیشتر مسائل ایسے ہیں جن میں اتفاق ہے ،کلمہ نماز ،روزہ ،زکوۃ اور حج سبھی کے نزدیک مسلم ہیں ،توحید ورسالت بھی مشترک ہے پھر فروعی اختلافات کیوں کر اس حد تک ہیں کہ ایک دوسرے کی جان کے پیچھے پڑے ہیں ۔

مفتی محمد شفیع مرحوم کے صاحبزادے مفتی رفیع عثمانی نے اپنے ایک خطاب میں جو بعد میں ایک رسالے ’’اختلاف رحمت ہے ،فرقہ بندی حرام ہے ‘‘کے نام سے طبع ہوا ،مختلف فرقوں کے باہمی اختلافات کے حوالے سے کہا کہ ان اختلافات کو اس تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے کہ ایک کا موقف یقینا غلط اور دوسرے کا یقینا صحیح ،بلکہ اس حوالے سے دیکھنا چاہیے کہ جس پر ہمارا اطمینان ہے اس کے صحیح ہونے کا غالب امکان ہے اگرچہ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ وہ غلط ہو ۔اسی طرح دوسرے کا موقف بھی ہمارے گمان کے مطابق خطا پر مبنی ہے تاہم اس کی صحت کا بھی احتمال ہے ۔یحیی بن سعید انصاری جلیل القدرتا بعی فرماتے ہیں اہل علم وسعت اختیار کرنے والے ہوتے ہیں ،اس لیے ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے ۔

امام مالک رحمہ اﷲ سے جب خلیفہ وقت نے درخواست کی کہ ان کی تصنیف کردہ کتاب موطا کو خلافت کی عملداری والے علاقوں میں نافذ کردیا جائے تو امام مالک نے اس رائے کو ناپسند کیا کہ ان کی رائے کو تمام لوگوں پر نافذ کیا جا ئے ،لوگوں نے مختلف احادیث سن رکھی ہیں اب جس چیز کو وہ درست سمجھ کر اختیار کر چکے ہیں انہیں روکنا سنگین ہوگا ۔اس طرح کی وسعت قلبی اگر علماء اختیار کریں اور منبر و محراب سے محبت رواداری اور برداشت کا درس دیں اختیار تو مسالک کے درمیان توازن کے ساتھ اخوت کا رشتہ قائم کیا جا سکتا ہے ،مسلکی اختلافات قدیمی ہیں لیکن اس کے باوجود کیا ممکن نہیں کہ اختلاف کے باوجود سماجی تعلق قائم رہے ،اس میں دراڑیں نہ پڑھیں ،رواداری کا مظاہرہ کیا جائے ،دوسرے کے مقدسات کا لحاظ رکھا جائے ،بدگمانی سے حتی الوسع گریز کیا جائے کیوں کہ بہت سے مسائل اور اختلافات غلط فہمی اور بدگمانی پر قائم ہیں اور ان میں شدت پیدا ہوتی جارہی ہے لیکن باہمی مکالمہ اور گفت وشنید سے دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں آسانی ہو تی ہے ،مکالمہ سے اختلاف ختم تو نہیں البتہ کم ضرورہوتے ہیں ،آئیے محبت بانٹیں ،رواداری کا مظاہرہ کریں ،امن دشمنوں کا اتحاد و اتفاق کے ذریعے قلع قمع کریں ۔رسول خداﷺ تو سراپا محبت اور امت سراپا نفرت کیوں ؟؟ْ

Mufti Touseef Ahmed
About the Author: Mufti Touseef Ahmed Read More Articles by Mufti Touseef Ahmed: 35 Articles with 35077 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.