تقریر نہیں اعمال پہ غور

تمام اہل اسلام کا بالعموم اور پاکستان کے مسلمانوں کا بالخصوص المیہ ناخواندگی ہے۔ اوّل تعلیم سرے سے ہے ہی نہیں۔ اگر ہے تو وہ تعلیم روزگار حاصل کرنے کے لئیے ہے۔ مطلوبہ مخصوص روزگار کے لئیےحاصل کی گئی تعلیم ذہن کو جلا نہیں بخشتی۔ شعور حاصل نہیں ہوتا۔ جاب کی حد تک معلومات ملتی ہیں وہ بھی شائید پوری طرح سے نہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج بھی عامتہ الناس نواز شریف ،زرداری،اور عمران خاں کے نعروں اور بلند بانگ دعووں اور وعدوں سے مرعوب ہوکر یقین کر لیتے ہیں۔ اور انکی تقاریر کے سحر میں کھو کر دیوانہ وار انکو اپنا رہبر و رہنما مان کر ان سے عشق کی حد تک محبت بھی کرتے ہیں اور ووٹ بھی دیتے ہیں۔ تعلیم نہ ہونے کے سبب سوچ سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اچھے برے،کھرےکھوٹے،کی پہنچان ہی نہیں ہے۔ رہزن اور رہبر میں فرق نہیں کر سکتے۔ وجہ تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ اوردنیا کی تیسری ذہین ترین قوم کو ایک پروگرام کے تحت تعلیم سے دور رکھا گیا ہے۔ پاکستانیوں کو تعلیم سے بہرور نہ ہونے دینے کے لئیے یہودو نصاریٰ نے اربوں ڈالر خرچ کئیے ہیں۔ یہی رہبری کا لبادہ اوڑھے رہزن انکے گماشتے ہیں اور انکے ایجنڈے کی تکمیل کے اہم کردار۔ریاست مدینہ کا حوالہ دیکر کس ڈھٹائی کے ساتھ منکر ختم نبوت ،اور منکر آئین پاکستان عاطف میاں کو مشیر خزانہ مقرر کر دیا اور پوری حکومتی مشینری اسکے حق میں توپوں کے منہ کھول دئیے۔ بلکہ حکومت سے باہر لبرل نے بھی عاطف میاں کے گیت گانے شروع کر دیے۔ کسی نے ناموس ختم نبوت کا پاس کیا اور نہ آئین پاکستان کی حرمت کا۔ جبکہ ظفراللہ قادیانی اور ایم ایم احمد(پوتاغلام احمد قادیانی ،جسے ائیر مارشل نور خاں بنگلہ دیش بنانے کا ذمہ دار ٹھہرا چکے ہیں) کے تجربات و مشاہدات پہلے سے موجود تھے۔یہ تو اللہ بھلا کرے علماء اکرام کا جنہوں نے بروقت ایکشن لیا تو حکومت کو عاطف میاں کی تعیناتی کے احکامات واپس لینے پڑے۔اب واپسی کے احکامات پہ جمائما کا غصہ اور ٹسوے کیا معنی رکھتے ہیں۔کس ایجنڈے کی ناکامی کی غماضی کرتا ہے جمائما کا رنج و غصہ۔ اس سارے قضیہ سے کیا تعلق ہے جمائما کا۔ کیا کسی نے سوچا۔ نہیں اس لئیے نہیں کہ تعلیم جیسی عظیم نعمت سے قوم کو محروم رکھا گیا ہے۔ عقل و شعور اور سوجھ بوجھ سے دور رکھا گیا ہے اس قوم کو۔ یعنی قوم کا سب سے بڑا مسلۂ تعلیم۔

سی پیک پہ غور فرمائیے کہ ہم پورے سات سال سی پیک کا ڈھنڈورہ پیٹتے رہے اسے پاکستان کی حیات نو قرار دیتے رہے۔ بعض حضرات تو دعویٰ کرتے رہے کہ سی پیک کی بدولت پاکستان میں اتنی زیادہ دولت آئیگی کہ پاکستان دنیا کا امیر ترین ملک بن جائیگا۔ہم نے امریکہ کی جنگ افغانستان کو اور ملک میں ہونے والے دھماکوں کو بھی سی پیک کے ساتھ نتھی کر دیا۔یعنی سی پیک کے دشمن پاکستان میں دھماکے کروا رہے ہیں۔ ایران میں چاہ بہار کے مقام پہ انڈین سرمائے سے بننے والی بندرگاہ کو بھی ہم نے سی پیک کے حصے گوادر بندر گاہ کی ضد قرار دیتے رہے ہیں۔ مندرجہ بالا مفروضے نہیں ہیں پچھلے سات برسوں کے اخبارات اور ٹی وی گواہ ہیں کہ یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم نے پوری دنیا کو بالعموم اور امریکہ کو بالخصوص ٹھکرا کر اپنی ساری کی ساری معاشی اور عسکری وابستگی چین کے ساتھ قائم کر لی۔ یورپ اور امریکہ کو کافی حد تک ناراض بھی کردیا۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم کافی حد تک چین کے محتاج بن چکے ہیں۔اور اب اچانک نہیں ایک خاص مقصد کے تحت پی ٹی آئی کی حکومت نے سی پیک پہ ایک خاص انداز سے بحث شروع کر دی ہے۔ عمران خاں کا وزیر اعظم بننے کے ساتھ ہی یہ فیصلہ کہ سی پیک منصوبوں کو دوبارہ کھولا جائیگا۔ اور یہ فیصلہ کابینہ کی سطح پہ کیا گیا ہے۔ جس سے امریکہ اور انڈیا کی خوشی دیدنی ہے۔ اور چین تشویش میں مبتلا ہو چکا ہے۔اسی تشویش کی وجہ سے چین کے وزیر خارجہ نے پاکستان پچھلے دنوں کا دورہ کیا۔ ستم ظریفی کی حد تک خلاف توقع اور خلاف روایت چینی وزیر خارجہ ہ کا استقبال اس طرح کیا گیا جیسے وہ انڈیا کا وزیر خارجہ ہو یعنی دشمن ملک کا وزیر خانہ ہو۔دفتر خارجہ کا ایک چھو ٹے درجہ کا افسر استقبال کے لئیے بھیجا گیا۔ جبکہ سعودی وزیر اطلاعات کے دورے پہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری بنفس نفیس ائیر پورٹ استقبال کے لئیے تشریف لے گئیے اور طمطراق کے ساتھ سعودی وزیر اطلاعات کا استقبال کی گیا۔ چین جیسے آزمودہ دوست ملک کے وزیر خارجہ کا استقبال دشمن ملک کی طرح۔ سب کچھ اخبارات میں چھپ چکا ہے۔ اور ابھی چینی وزیر خارجہ چین واپسی راستہ ہی میں تھے تو فنانشنل ٹائمز میں وزیر اعظم عمران خان کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد صاحب نے انٹرویو جڑ دیا کہ سی پیک پہ ایک سال کام روکنا پڑے گا۔ اب اس ساری صورت حال سے چین میں کس قدر بے چینی پائی جارہی ہے اور پاکستان دشمن ممالک کس قدر خوش ہونگے۔ اس پہ غور و فکر کون کرے گا۔ وہی تعلیم کی کمی اور عقل و شعور ناپید۔اللہ کے لئیے غور فرمائیے ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ دشمن اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئیے پاکستان پہ ڈالروں کی بارش کریگا۔ ترکی کی معاشی ناکہ بندی جاری ہے۔ بیت المقدس یہودیوں کی عبادت کے لئیے کھولنے کے لئیے تیاری مکمل ہو چکی ہےکیا ہم غور کریں گے۔ نہیں تو ہمارا نوحہ پڑھنے والا بھی کو ئی نہ ہو گا۔

Chaudhry M Zulfiqar
About the Author: Chaudhry M Zulfiqar Read More Articles by Chaudhry M Zulfiqar: 18 Articles with 19961 views I am a poet and a columnist... View More