جب سے میں نے "ہولوکاسٹ کارٹون کانٹیسٹ" کروانے کی تجویز
دی، سوشل میڈیا مجاہدین نے لبیک کہا اور الحمداللہ اب ہر طرف ہولوکاسٹ پر
پوسٹ ہوتی نظر آ رہی ہیں، یہاں تک کہ عمران خان نے بھی سینیٹ تقریر میں"
ہولوکاسٹ" کا لفظ استعمال کیا۔
بدقسمتی سے آج مسلمانوں کی نئی نسل لفظ "ہولوکاسٹ" سے بلکل ناواقف ہے۔
مسلمانوں نے تحقیق کرنا ہی چھوڑ دی ہے اور صرف یہود و نصاریٰ کی تخلیق کردہ
اشیاء کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہے ہیں۔ افسوس۔
لفظ "ہولوکاسٹ" بظاہر بہت چھوٹا لفظ ہے، لیکن اس کے پیچھے بہت بڑی تاریخ
چھپی ہے، جس پرایک بڑی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ میں یہاں مختصرا ہولوکاسٹ کا
ذکر کروں گا تاکہ ہماری نئی نسل ہولوکاسٹ کے پیچھے چھپی اصل کہانی کو آسان
الفاظ میں سمجھ سکے۔
پہلے صیہونیوں کا عقیدہ تھا کہ جب تک ان کا مسیحا یعنی دجال نہیں آئے گا ان
کے لیے اس دنیا میں الگ وطن حاصل کرنا ناممکن ہے۔ ہولوکاسٹ سے پہلے تک
صیہونیوں کا یہی عقیدہ رہا لیکن بعد میں صیہونیوں کے دانا بزرگوں نے اس
عقیدہ کی تھوڑی مختلف تشریح پیش کی ، جس کے مطابق اپنے مسیحا کے انتظار سے
پہلے ہمیں اپنی معاشی برتری حاصل کرنی چاہیے اور اس معاشی طاقت کے بل بوتے
پر یہودیوں کو الگ وطن حاصل کر لینا چاہیے اور اس وطن میں اپنے مسیحا یعنی
دجال کا تخت بنانا ہو گا جب ہی ہمارا مسیحا (دجال) آئے گا۔
یہ نئی تشریح یہودی نوجوانوں کو بھا گئی، یہودیوں کی نوجوان تحریکوں نے زور
پکڑا اور انہوں نے الگ وطن کی آواز کو سیاسی ایشو بنایا۔ ہر طرف تحریکیں
شروع کر دی گئیں۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ دنیا بھر میں موجود یہودی ہجرت کر
کے فلسطین آنے کو راضی نہیں ہو رہے تھے۔ اور اسی مقصد کے لیے صیہونیوں نے
قتل عام شروع کروایا۔
صیہونیوں کی یہ نئی تشریح عام یہودیوں کے لیے تھی مگر اس کے پیچھے اصل
کہانی کچھ اور تھی۔ صیہونیوں کا اصل پلان یہ تھا کہ پہلے پوری دنیا میں
معاشی بحران پیدا کیا جائے، جس کے نتیجے میں عالمی جنگ کروائی جائے اور جنگ
کے اختتام پر ایک آزاد یہودی ریاست (اسرائیل) کا اعلان کیا جائے۔ ساتھ ساتھ
دنیا بھر میں موجود یہودیوں کو فلسطین منتقل کیا جائے ۔ جو نہ آنا چاہیں
انہیں ہر حربہ استعمال کر کے ہجرت کرنے پر مجبور کیا جائے، چاہے اس کے لیے
کچھ یہودیوں کو قتل ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
یاد رہے دوسری عالمی جنگ سے پہلے صیہونی کا پلان کردہ عالمی معاشی بحران
1929 میں پیدا کیا گیا جس کے نتیجے میں کئی ممالک ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے
اور وہ جنگ صیہونیوں کے عین منصوبے کے مطابق ایک عالمی جنگ کی شکل اختیار
کر گئی۔ 1929 میں عالمی معاشی بحران پیدا کیا گیا، ٹھیک 10 سال بعد 1939
میں عالمی جنگ شروع کروا دی گئی جو 1945 تک جاری رہی۔ اس کے ٹھیک 3 سال بعد
14 مئی 1948 کو امریکی اور برطانوی صیہونیوں کی مدد سے فلسطین پر قبضہ کر
کے "اسرائیل" کا ناپاک وجود قائم کیا گیا۔
قارئین یاد رکھیں 1929 میں عالمی معاشی بحران پیدا ہوتا ہے اس کے چند سال
بعد جرمنی میں 1933 میں ہٹلر کی نازی پارٹی اقتدار میں آتی ہے۔ ہٹلر کی
یہودیوں سے نفرت کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں جن میں ہٹلر کے مطلق منفی
پروپیگنڈہ کہ وہ یہودی باپ کی اولاد ہے، ہٹلر کی ماں کی موت، صیہونیوں کی
جانب سے عالمی معاش بحران پیدا کرنا، دنیا بھر میں ہر برائی کی جڑ صیہونیت
سے شروع ہونا وغیرہ اہم ہیں۔ سب سے زیاد اہم بات جس پر ہٹلر یہودیوں سے
نفرت کرتا تھا وہ یہ تھی کہ ہٹلر جان گیا تھا کہ دنیا بھر میں بےحیائی،
معاشی بحران یا قتل و گارت گری وغیرہ الغرض ہر بڑی برائیوں کے پیچھے
صیہونیوں کا ہی ہاتھ ہے۔ اس لیے ہٹلر نے اپنے ملک جرمنی سے صیہونیوں کو
نکالنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ ایک طرف کی سوچ ہے اور دوسری سوچ یہ ہے کہ ہٹلر
خود بھی صیہونی صفت سفاک قاتل انسان تھا، اس نے صیہونیوں کی ہی مدد کی، ایک
طرف اپنے ملک سے یہودیوں کو نکالنا چاہا تو دوسری طرف ان یہودیوں کو جرمنی
چھوڑ کر فلسطین جانے کو کہا۔ بظاہر جرمنی سے نکالنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ
وہ فلسطین جا کر آباد ہوں اور پھر وہاں اسرائیل قائم کر دیا جائے۔
یاد رکھیں ہٹلر بذات خود کوئی عظیم ہیرو نہیں بلکہ وہ بھی قاتل سفاک اور
ظالم صفت انسان تھا۔ مگر یہاں کئی دانشور ایک بات نظر انداز کر دیتے ہیں کہ
ہٹلر کی نازی پارٹی کے صیہونیوں سے خفیہ یارانے تھے۔ آپ گوگل پر نازی پارٹی
کو سرچ کر یں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس پارٹی کا لوگو ہی صیہونی فری میسن
والا ہے۔ ہٹلر خود بھی اندر سے صیہونیوں سے ملا ہوا تھا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر ہٹلر صیہونیوں سے ملا ہوا تھا تو اس نے لاکھوں
یہودیوں کو کیوں قتل کیا؟ جناب یہی تو مسئلہ ہے کہ صیہونیوں نے معلومات کو
اتنا گڈمڈ کروا دیا ہے کہ کوئی انسان بھی اپنی سوچ کو کسی ایک زاویے میں
رکھ ہی نہیں سکتا۔ ہر طرف سے انہوں نے ایسے جاتا۔خیالات اور سوالات پرواں
چڑھائے ہوئے ہیں کہ انسان سوچ سوچ کر خاموش ہو جاتا ہے لیکن اسے سراغ نہیں
ملتا کہ آخر ہوا کیا تھا اور اس سب کے پیچھے تھا کون؟
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف، غور سے پڑھیے
عالمی معاشی بحران صیہونیوں نے ہی پیدا کیا، اس بحران کے چند سال بعد ہٹلر
برسر اقتدار آتا ہے اور پھر وہ صیہونیوں کو جرمنی سے نکالنا شروع کر دیتا
ہے، آخر کیوں؟ کیونکہ ہٹلر کا صیہونیوں سے خفیہ معاہدہ تھا جس کی رو سے
دونوں نے اتفاق کیا تھا کہ جرمنی میں موجود لاکھوں صیہونیوں کو نکال کر
فلسطین منتقل کرنا ہے۔ یہاں بھی بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ آکر
صیہونیوں نے یہودیوں کو نکالنے کے لیے ہٹلر کی مدد کیوں لی اور ہولوکاسٹ
کہاں سے آیا ؟
اصل میں جب صیہونی دانا برزگوں نے فلسطین کی مقدس سرزمین پر قبضے کا پلان
بنایا تو اس وقت یہودی پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے مگر ان سب میں سب سے
زیادہ یہودی ہٹلر کے ملک جرمنی میں موجود تھے جن کی تعداد تقریبا 40 لاکھ
کے اوپر بتائی جاتی ہے۔ اب یہ تمام یہودی عشروں سے جرمنی میں رہ رہے تھے
اور اپنے آباؤ اجدا کے گھر اور جائداد کو چھوڑنے پر ہرگز تیار نہیں ہو رہے
تھے دوسری طرف صیہونیوں کو معلوم تھا کہ جب تک یہ سب یہودی فلسطین منتقل
نہیں کیے جاتے ہم الگ ملک اسرائیل کا اعلان نہیں کر سکتے۔
توابلیس کی مجلس شوریٰ نے سر پکڑ لیا کہ اب کیا کیا جائے؟ کس طرح یہودیوں
کو زبردستی فلسطین پہنچایا جائے؟
ابلیس نے مشورہ دیا کہ ایسے حالات پیدا کیے جائیں جس سے یہودی یہ سمجھنے پر
مجبور ہو جائیں کہ پوری دنیا میں ان پر ظلم کیا جا رہا ہے انہیں اپنا نہیں
سمجھا رہا اور انہیں بےدردی سے قتل کیا جا رہا ہے، ٹھیک اس قتل عام کے وقت
صیہونی ان عام یہودی خاندانوں کی مدد کو کود پڑیں اور انہیں مجبور کریں کہ
تمہاری جان و مال دنیا میں کہیں بھی محفوظ نہیں سوائے فلسطین کے، فلسطین
چلو وہاں ہم یہودیوں کا الگ وطن اسرائیل قائم کریں گے۔
ابلیس کی مجلس شوریٰ کا مشورہ منظور کیا گیا اور ہٹلر کے ذریعے جرمنی میں
موجود یہودیوں کا نکالنے کا کام شروع کیا گیا۔ ہٹلر نے یہودیوں کو پکڑ پکڑ
کر نکالنے کا کام کیا جو نکلنے پر آمادہ نہ ہوتے انہیں ہٹلر کی فوجیں پکڑ
کر سرعام گولیوں سے بھون دیتیں۔ ہٹلر سے مدد لینے کے بعد صیہونیوں نے اسی
ہٹلر کو ہولوکاسٹ کے نام سے بدنام بھی کیا۔
یاد رکھیں ہٹلر کا مقصد یہودیوں کی نسل کشی نہیں بلکہ انہیں جرمنی سے
نکالنا تھا۔ بقول ہٹلر " ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک آخری
یہودی جرمنی سے نکل نہ جائے"۔ وہ جرمنی سے اسی لیے نکالنا چاہتا تھا کہ
یہودی جا کر فلسطین میں آباد ہو جائیں۔
اگر ہٹلر یہودیوں کی نسل کشی کرتا تو یہودیوں کے امراء کو کیوں چھوڑ دیتا؟
تاریخ گواہ ہے کہ ہٹلر نے امیر یہودیوں کو مال مسروقہ لیکر چھوڑ دیا اور
عام یہودیوں کو نکلنے پر مجبور کیا اور جو نہ نکلتا اسے قتل کر دیا جاتا۔
میرے خیال سے آپ کا دماغ چکرا گیا ہو گا کہ میں کبھی ایک بات کرتا ہوں کبھی
دوسری۔ میرے بھائیو ہولوکاسٹ ایک ایسا موضوع ہے جس کو سمجھنے کے لیے ہمیں
ہٹلر اور صیہونی دونوں کو سمجھنا ہو گا۔
ہٹلر نے جن یہودیوں کو جرمنی چھوڑنے پر مجبور کیا اور نہ جانے والوں کو قتل
کیا اسے یہودی "ہولوکاسٹ" کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ ہولوکاسٹ مطلب آگ سے
قتل عام کرنا۔
یہودیوں کے بقول ہٹلر نے 60 لاکھ سے زائد یہودیوں کو قتل کیا جبکہ بقول
ہٹلر "ہولوکاسٹ" محض جھوٹ اور صیہونیوں کی تخلیق کردہ فرضی کہانی ہے جس کی
بنیاد پر صیہونی دنیا بھر میں خود کو مظلوم بنا کر پیش کرتے ہیں جبکہ حقیقت
مین جرمنی میں عام یہودیوں کی نسل کشی کروانے کے پیچھے بھی انہیں صیہونیوں
کا اپنا ہاتھ تھا۔
قارئین ! ہولوکاسٹ ایک فرضی کہانی تھی جسے گھڑنے والے صیہونی تھے،یہ کہانی
سنا کر یہودی پوری دنیا میں روتے رہے کہ ہمارے ساتھ اتنا بڑا ظلم ہوا، قتل
عام چند لاکھ کا ہوا مگر یہودی کہتے رہے کہ ہٹلر نے 60 لاکھ سے اوپر
یہودیوں کا قتل عام کیا تھا۔ دنیا بھر کے مؤرخین حیران ہیں کہ اس وقت تو
پورے جرمنی میں 60 لاکھ یہودی ہی نہیں تھے تو اتنے قتل کیسے ہو گئے؟
کئی عالمی مؤرخین نے اس معاملے پر ریسرچ کرنی چاہی تو صیہونیوں نے نہیں
کرنے دی، فرانس کی " سوربون یونیورسٹی" کے سابق سربراہ "پروفیسر رابرٹ
فروسین" کا نام اس معاملے میں پوری دنیا میں مشہور ہوا۔ پروفیسر صاحب ایک
مانے ہوئے عالمی تاریخ دان تھے، انہوں نے اپنی کتاب لکھی جس میں یہودیوں کے
مفروضے ہولوکاسٹ کا پوسٹ پارٹم کر دیا، ایسے ایسے حقائق پیش کیے کہ جسے
کوئی انکار ہی نہ کر سکا۔ پروفیسر رابرٹ فروسین نے واضع کیا کہ اس وقت
جرمنی میں 60 لاکھ یہودی تھے ہی نہیں اور نہ ہی اتنے یہودیوں کا قتل عام
ہوا اور نہ ہی جرمنی میں کسی گیس چیمبر کا سراغ ملا۔ پروفیسر صاحب کے بقول
یہ سب صیہونیوں کا مفروضہ اور جھوٹی کہانی ہے جو جان بوجھ کر گھڑی گئی تاکہ
اس رولا ڈالنے پر عالمی شیطان امریکہ اور برطانیہ یہودیوں پر رحم کھا کر
انہیں فلسطین میں الگ وطن دلوا دیں۔
بالآخر بعد میں ہوا بھی ایسا ہی۔ جیسے ہی عالمی جنگ ختم ہوئی، امریکہ
،برطانیہ اور فرانس نے مل کر صیہونیوں کی مدد کرتے ہوئے فلسطینی مقدس
سرزمین پر ایک ناپاک ریاست اسرائیل کا اعلان کر دیا۔
پروفیسر رابرٹ فروسین کو اس تحقیقات کی پاداش میں "مسلح یہودی ملیشا" کے
گنڈوں نے تقریبا پانچ مرتبہ شدید تشدد کا نشانہ بنایا، انہیں نوکری سےنکلوا
دیا، ان کا پورے فرانس، برطانیہ اور امریکہ میں سوشل بائیکاٹ کروایا گیا
اورا نہیں ہر جگہ ذلیل و خوار کیا گیا مگر صیہونی آج تک پروفیسر رابرٹ کی
تحقیقات کو دلائل سے رد نہیں کر سکے۔
پروفیسر صاحب کے ہاتھوں صیہونیوں کے بےنقاب ہونے پر دنیا کے کئی مؤرخین اور
تاریخ دانوں نے ہولوکاسٹ پر تحقیقات شروع کر دیں، صیہونی ڈر گئے کہ اگر
تحقیقات کا سلسلہ چل نکلا تو ایک دن دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ ہولوکاسٹ
ایک جھوٹ ہے ، اس لیے صیہونیوں نے اپنے عالمی گماشتوں کی مدد سے یورپ،
امریکہ اور کینڈا و فرانس جیسے ممالک میں ہولوکاسٹ پر تحقیقات کرنے پر
پابندی لگوا دی، میڈیا کو ہولوکاسٹ پر بات کرنے سے روک دیا گیا یہاں تک کہ
کئی ممالک نے ہولوکاسٹ پر تحقیقات کرنے یا اسے مفروضہ یا جھوٹی کہانی کہنے
پر سزا موت کا قانون پاس کر دیا۔
صیہونی ویسے تو تحقیق کے بڑے شوقین ہوتے ہیں، انگریز خود ریسرچ پر اربوں
ڈالرز خرچ کرتے ہیں لیکن کیا وجہ تھی کہ ہولوکاسٹ پر تحقیقات کرنے کو جرم
قرار دیا گیا؟
وجہ صرف یہی تھی کہ ہولوکاسٹ پر تحقیقات ہونے سے صیہونیوں کا جھوٹ پکڑا
جاتا اور ان سے اسرائیل خالی کرنے کے مطالبے شروع ہو جاتے جو کہ صیہونی اور
ان کا ناجائز باپ امریکہ اور ان کی ناجائز ماں برطانیہ کبھی نہیں چاہیں گے۔
یاد رہے صیہونیوں کا اصل گڑھ برطانیہ ہے، اسرائیل تو بعد میں بنا ہے ۔
قصہ مختصر "ہولوکاسٹ" ایک فرضی جھوٹی کہانی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق
نہیں تھا۔ البتہ ہٹلر نے جرمنی سے یہودیوں کو نکالنے کے لیے بیشمار یہودی
خاندانوں کا قتل عام کیا۔ لفظ ہولوکاسٹ کا ڈرامہ صیہونیوں نے اس لیے رچایا
تاکہ جرمنی اور دنیا بھر میں آباد یہودیوں کو یہ باور کروایا جائے کہ تم
پوری دنیا میں کسی بھی ملک میں اتنے محفوظ نہیں رہ سکتے جتنے فلسطین میں۔
اس لیے اپنے اپنے ملکوں سے ہجرت کر کے فلسطین چلو جہاں اسرائیل کا اعلان
کیا جائے۔ چونکہ یہودی فلسطین جانے کو تیار نہیں ہوئے اس لیے ان کی نسل کشی
کروائی گئی، انہیں قتل کیا گیا، ان پر شدید تشدد کروایا گیا تاکہ وہ ہجرت
کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ اس زبردستی کی ہجرت کروانے کے بعد عالمی صیہونی
فری میسن نے امریکہ برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر اسرائیل کا ناپاک وجود
قائم کیا اور وجود قائم کرنے بعد یہ پوری دنیا کے سامنے مگرمچھ کے آنسو
بہاتے رہے کہ دیکھو ہمارے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہوا، 60 لاکھ کا جھوٹا عدد بتا
کے کہتے رہے کہ ہٹلر نے ہمارے 60 لاکھ سے اوپر یہودیوں کو قتل کیا، ہم
مظلوم ہیں، ہماری مدد کرو، یہ مسلمان اور نازی ہمیں مار دیں گے، یہ رونا
پیٹنا جاری رہا تاکہ عالمی طاقتیں صیہونیوں کی مدد کریں ۔ اس کے بعد امریکہ
برطانیہ نے مسلسل اسرائیل کو امداد جاری رکھی جو آج تک جاری و ساری ہے۔
آج اگر آپ ہولوکاسٹ کو جھوٹ کہیں تو یہودیوں کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے،
وہ یہ سننا بھی گوارا نہیں کرتے کہ کوئی ہولوکاسٹ کو جھوٹ کہے۔ کیونکہ اسی
جھوٹ کی بنیاد پر ان کے اسرائیل کی بیساکی کھڑی ہے۔ آپ یہودیوں کے مقابلے
ہٹلر کی تعریف کریں تو تب بھی یہودیوں کو آگ لگ جاتی ہے۔ یہودی دنیا کی
ڈکشنری سے لفظ ہولوکاسٹ کو ہمیشہ کے لیے مٹا دینا چاہتے ہیں کیونکہ اس لفظ
سے ان کے زخم تازہ ہو جاتے ہیں ۔ اگر کوئی ہولوکاسٹ پر علمی تحقیقات کرنا
شروع کر دے تو عام یہودیوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ جرمنی میں یہودیوں کی
نسل کشی ہٹلر نے نہیں خود صیہونیوں نے کروائی تھی تاکہ یہودی جرمنی سے نکل
کر اسرائیل منقل ہوں۔
صیہونی ان تحقیقات کو روکنا چاہتے ہیں، ہولوکاسٹ پر بات کرو تو روتے ہیں کہ
ہماری توہین کی جا رہی ہے جبکہ یہ حرام زادے ابلیس کے چیلے ہمارے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کو آزادی اظہار رائے کا
نام دیتے ہیں۔
آج ہم مسلمان بھی ان ابلیس کی اولادوں کو ہولوکاسٹ پر مزہ چھکائیں گے، ہم
پوری دنیا کو بتائیں گے کہ ہولوکاسٹ جھوٹ ہے، یہودیوں کی نسل کشی کرنے والے
یہ صیہونی خود تھے۔ہم انہیں رلائیں گے ۔۔۔۔ تاکہ انہیں احساس ہو کہ "آزادی
اظہار رائے" کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔
جس دن ان کو احساس ہو گیا کہ فریڈم آف اسپیچ کی بھی حدود ہونی چاہیں اس دن
یہ خود ہی مان جائیں گے یہ مسلمانوں کے نبی رحمۃ العالمین صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے جاری کر کے بھی غلط کرتے تھے۔
ہمیں ابلیس کی اولاد صیہونیوں کو رلانا ہے، انہیں احساس دلانا ہے، انہوں نے
مسلمانوں کو پتھر مارا ہے، ہم انہیں اینٹیں ماریں گے۔
انہوں نے عالم اسلام کے گمنام مجاہدین سے پنگا لیا ہے، ہم انہیں بتا دینا
چاہتے ہیں کہ تم نے جعلی ہولوکاسٹ پر بہت ناٹک کر لیے، ایک دن آئے گا جب ہم
پوری دنیا کے مسلمان مل کر تمہیں "حقیقی ہولوکاسٹ" کا مزہ چھکائیں گے،
تمہیں چن چن کر جہنم واصل کریں گے۔ اللہ کی قسم وہ دن ضرور آئے گا، میرے رب
(عزوجل) کا وعدہ سچا ہے، میرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان
سچا ہے، تم پہلے بھی غضب کیے دھتکارے گئے تھے، تم آئندہ بھی اللہ کا عذاب
چکھو گے۔ انتظار کرو ملحمہ کا، تمہارا بچہ بچہ جانتا ہے ملحمہ کونسی جنگ
ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک مسلمان یہودیوں سے فیصلہ کن جنگ نہ
لڑلیں۔ اس جنگ میں مسلمان یہودیوں کو خوب قتل کریں گے، یہاں تک کہ اگر کوئی
یہودی کسی پتھر یا درخت کی آڑ میں چھپے گا تو وہ پتھر اور درخت بول اٹھے
گا؛ اسے مسلمان ! اے اللہ کے بندے ! میرے پیچھے یہودی چھپا بیٹھا ہے، تو
ادھر آ اور اسے قتل کر دے۔ سوائے غرقد نامی درخت کے، (وہ نہیں بولے گا)
کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔
(صحیح مسلم، 7523)
ماخوذ از وائرل پوسٹ |