ام محمد سلمان ،کراچی
میرا تعلق ایک ایسے علاقے سے تھا جہاں پردے کے بغیر عورت کا تصور بھی نہیں
کیا جاسکتا تھا۔ دس گیارہ سال کی بچی بھی گھر سے نکلتے ہوئے حجاب کرتی تھی۔
ہمارے علاقے میں عموماًٹوپی والے برقعوں کا رواج تھا لیکن نوجوان لڑکیاں
اکثر نقاب والی بڑی بڑی چادریں پہنتی تھیں جو ان کے پورے جسم کو ڈھانپ لیتی
تھیں۔ کبھی بے حجاب گھر سے نکلے ہی نہ تھے تو ہمیں معلوم بھی نہیں تھا کہ
پردہ عورت کے لیے کس قدر ضروری ہے۔ یہ تو بس ہمارے علاقے کی ایک روایت تھی
کہ عورتیں پردہ کرتی تھیں۔ اپنی زندگی کے اٹھارہ سال وہاں گزارے۔ گیارہ،
بارہ سال کی عمر میں نقاب والی چادر اوڑھنا شروع کی۔
گھروں میں عموماً پردے کا کوئی رواج نہیں ہوتا تھا مگر ایک دوسرے کا احترام
تھا عورت مرد کا بے حجابانہ میل ملاپ نہیں ہوتا تھا اور سچ بات تو یہ ہے ہم
پردے کو صرف ایک علاقائی دستور سمجھتے تھے۔ ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ پردہ
ہمارے دین کی کتنی خوبصورت تعلیم ہے جو عورت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس کا
اندازہ تو اس وقت ہوا جب ہمارا پورا گھرانہ ایک بڑے مشہور شہر میں شفٹ ہو
گیا۔ وہاں ہمارے کئی رشتہ دار رہتے تھے مگر پردے کا کوئی تصور نہیں تھا۔
فینسی برقعے شاید فیشن کے لیے پہنے جاتے تھے کیوں کہ خاندان کی کوئی عورت
چہرہ نہیں ڈھانپتی تھی۔ جب ہم لوگ یہاں رہنے لگے تو میں باہر جانے کے لیے
اپنی وہی نقاب والی چادر اوڑھ لیا کرتی تھی تو میری کزنز اور ان کی دوستیں
اعتراض کرتیں کہ تم کیوں یہ پہنتی ہو، چھوڑو اسے، یہاں کون پردہ کرتا ہے
بھلا؟ یہاں عورت کو کھلی آزادی ہے۔
خالہ بھی یہی کہتیں ارے چھوڑو یہ چادر وادر، یہاں کوئی نہیں دیکھتا۔ امی
بھی ان کی باتوں میں آگئیں۔ ہم دونوں خالہ زاد بہنیں اور دو تین اور
سہیلیاں اکٹھی سلائی سینٹر جاتی تھیں۔ جب پہلی دفعہ میں بغیر چادر کے گھر
سے باہر نکلی تو مجھے یوں محسوس ہوا گویا میرے کپڑے میرے جسم کے ساتھ ہی
چپکے ہوئے ہیں اور میں ہر نظر کا مرکز بن گئی ہوں۔ بار بار کبھی قمیض ٹھیک
کرتی کبھی دوپٹہ، کبھی بیوقوفوں کی طرح دائیں بائیں دیکھتی۔ یہ ایک انتہائی
برا احساس تھا جسے میں اس وقت سمجھنے سے قاصر تھی دین کا کچھ اتا پتا نہیں
تھا۔ دین کو ہم صرف نماز روزے اور ناظرہ قرآن مجید پڑھنے تک ہی محدود
سمجھتے تھے ہمیں کیا خبر تھی ہمارے دین میں ہمارے لیے کیا کیا خزانے پوشیدہ
ہیں۔ اسلام عین دین فطرت ہے۔ یہ میں نے اس وقت جانا جب میں سِرے سے دین کو
ہی نہیں جانتی تھی جب میں نے ایک دن انتہائی بے بسی کی حالت میں اپنی امی
سے کہا تھا امی جی! مجھے بھی عبایا خرید کر لا دیں۔
مجھے اس طرح گھر سے باہر جانا اچھا نہیں لگتا۔ امی بھی شاید دل سے یہی
چاہتی تھیں، دوسرے دن ہی مجھے شہر کے فیشن کے مطابق ایک سادہ سا کالے رنگ
کا عبایا خرید کر لا دیا میں نے وہ پہنا۔گول گھیر والا نقاب لگایا اور
سہیلیوں کے ساتھ چل پڑی۔ اس دن میری شخصیت میں وہی پرانا اعتماد لوٹ آیا۔
مجھے اب کسی سے خطرہ نہیں تھا اب کسی کی نظریں میرے وجود کے آر پار ہوتی
محسوس نہیں ہو رہیں تھیں۔ میرے رب نے عورت پر کتنا بڑا احسان کیا کہ پردہ
اس پہ فرض قراد دے دیا۔ عورت اپنی بیوقوفی اور ناقص العقلی کی وجہ سے شاید
پردے کے احکامات کی حکمت کو نہیں سمجھ پاتی مگر یہ حقیقت ہے کہ پردہ عورت
کی حفاظت کرتا ہے، اس کی عزت و ناموس کی رکھوالی کرتا ہے۔ معاشرے میں اسے
ایک مقام اور عزت و افتخار عطا کرتا ہے۔
اس واقعے کے سال دو سال بعد کی بات ہے جب بھائی نے مجھے مفتی رشید احمد
صاحب کا رسالہ ’’شرعی پردہ‘‘ لا کر دیا۔ میں نے اس کا مطالعہ کیا تب معلوم
ہواکہ پردہ تو اسلام میں فرض ہے یہ تو ایک شرعی حکم ہے جس سے روگردانی کسی
صورت ممکن نہیں اور پردہ صرف گھر سے باہر نکلتے وقت نہیں ہوتا بلکہ وہ تمام
لوگ جو عورت کے نامحرم ہیں ان سب سے پردہ کرنا فرض ہے۔ چاہے وہ گھر کے اندر
ہوں یا گھر سے باہر اور پھر میں نے آہستہ آہستہ گھر میں آنے والے قریبی
رشتے داروں سے بھی پردہ شروع کر دیا وہ اس طرح کے بہت کم ان کے سامنے جاتی۔
سلام دعا کے علاوہ کوئی بات چیت نہ کرتی پھر شادی ہو گئی اور مکمل شرعی
پردہ شروع کر دیا الحمد ﷲ۔
اس پردے نے ہر مقام پہ عزت بخشی۔ مشکلات بھی بہت آئیں زندگی میں لیکن امہات
المومنین اور صحابیات کے اسوہ حسنہ نے ہر مقام پہ رہنمائی کی اور فرانس کی
رہنے والی اس چھوٹی سی بچی نے جس کے پردے کا ذکر مفتی صاحب نے اپنی کتاب
میں کیا تھا۔ وہ جو اسکول میں حجاب اوڑھ کر جاتی تھی تو اسکول انتظامیہ اسے
نکالنے پر مصر ہوگئی تھی تب جو چھوٹی سی بچی کا جذبہ تھا اسکول چھوٹتا ہے
تو چھوٹے، کیریئر خراب ہوتا ہے تو ہوا کرے لیکن میں اسکارف نہیں اتاروں گی۔
سبحان اﷲ! یہ کافروں کے ملک میں رہنے والی ایک چھوٹی سی بچی کا جذبہ تھا
اور آج میرے اپنے ہی اسلامی ملک میں میری عزیز بہنیں پردے کو بوجھ سمجھتی
ہیں اسے دقیانوسیت قرار دیتی ہیں، اسے اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی
ہیں۔
اے میری عزیز بہنو! اسلام سراسر دین فطرت ہے۔ پردے کے حکم میں ہماری ہی
بھلائی مضمر ہے۔ صرف ہم عورتوں ہی کی نہیں بلکہ ہمارے باپ، بھائی، شوہر اور
بیٹوں کی فلاح بھی اسی میں ہے کہ عورت حجاب میں رہے کیوں کہ جب ایک بے پردہ
عورت اپنے حسن و جمال اور چال ڈھال سے کسی مرد کے دل پہ بجلیاں گراتی ہے تو
وہ مرد ہم عورتوں میں سے ہی کسی کا باپ، بھائی، بیٹا یا شوہر ہوتا ہے، اور
اس کا نقصان ہم عورتیں ہی اٹھاتی ہیں۔ سوچیے گا ضرور۔
اس مضمون کے توسط سے اپنی مسلمان بہنوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ وہ
اپنے اس اسلامی حق سے کبھی دستبردار نہ ہوں چاہے دشمنان اسلام کتنی ہی
کوششیں کر لیں۔ کتنا ہی اسلام اور پردے کو بدنام کر لیں ہم اپنی اسلامی
پہچان کو ہرگز نہیں چھوڑیں گی۔ ہم دنیا کو بتا دیں گی کہ حجاب کی پابندیوں
کے ساتھ گھر سے نکلنا غلامی نہیں ہے ۔یہ قید نہیں ہے یہ حبسِ بے جا نہیں ہے
بلکہ یہ ہمارا فخر ہے غرور ہے۔ ہماری فلاح ہے کامیابی ہے اور ہمارے رب کے
قرب کا ذریعہ ہے۔
ہم اس اعتماد کے ساتھ گھروں سے نکلتی ہیں کہ ہمارا باحجاب ہو کر نکلنا نہ
صرف ہمارے عزت و وقار کی حفاظت کرتا ہے بلکہ ہمارے معاشرے کے مردوں کے لیے
ہیجان کا سبب بھی نہیں بنتا اور پردے والی خاتون کو دیکھ کے ہر شخص کی
نظریں عزت سے جھک جاتی ہیں۔اﷲ تبارک و تعالی فرماتا ہے’’ اے نبی! اپنی
بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر اپنی
چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے کہ وہ پہچان لی جائیں
اور نہ ستائی جائیں( یعنی لوگ ان کے پردے کی وجہ سے پہچان لیں کہ یہ شریف
عورتیں ہیں) اور اﷲ تعالیٰ بہت غفور الرحیم ہے‘‘۔ (احزاب 59) |