نواز شریف ، مریم نواز اور صفدر کی سزا معطلی کے فیصلےکو
ڈیل کہنے والوں کی سوچ انتہائی مضہکہ خیز ہے اور ایسے عقلاطونوں کو ضرور
ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے۔ ایسی سوچ پر تبصرہ بھی وقت کا ضیاع ہے مگر
ان کی سوچ کا آپریشن چونکہ عوامی آگہی کا معاملہ ہے لہذا اس پر تھوڑی سی
بات کر لیتے ہیں۔
اگر اس ڈیل کو فرض کر بھی لیا جائے تو اس کا مطلب ہوا کہ پاکستان میں نواز
شریف ہی سب سے زیادہ مضبوط ترین سیاستدان ہے جس کی خاطر پاکستان کی عدالت
عالیہ ، اسلامی دنیا کا اہم ترین ملک سعودیہ اور سب سے بڑھ کر نوازشریف کی
حریف گٹھ جوڑ حتی کہ وزیراعظم کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو کر اس ڈیل کا
حصہ بننا پڑا اور اپنی تمام تر کمٹمنٹس ، ارادے اور دعوے بھول گئے اور سو
دن کے اندر ہی بیرونی دورہ کرنا پڑ گیا اور وہ بھی سپیشل طیارے پر۔
اگر ایسا ہی ہے تو اتنے مقبول تریں اور اہم سیاستدان کو حکومت اور سیاست سے
دور رکھنا کتنی بڑی حماقت ہے۔ اور اگر اس طرح کے گٹھ جوڑ اور عدلیہ جیسے
اداروں پر ڈیل جیسے معاہدوں کا حصہ بننے پر شک یا یقین کرنا سچ مان لیا
جائے تو تمام تر قانونی پریکٹسز سے ہٹ کر کی جانے والے فیصلوں سے نواز شریف
کو نا اہل ، پارٹی صدارت سے فارغ اور قید وبند کی سزاوں کو کیا نسبت حاصل
ہوگی۔ اور اس طرح کی ڈیلز میں شامل شخصیات اور اداروں کی آئینی اور قانونی
حیثیت کیا ہوگی۔
ایک لمحے کے لئےان سب واقعات اور اس کے ساتھ منسلک شخصیات یا اداروں کی
کاروائی ، مقاصد اور حاصل نتائج کو ایک مربوط انداز میں مرتب کرکے ان
عقلاطونوں کی بے ڈھنگ شخصیت پر مرتعش کرکے فوکس کیجئے ان کے علمی درجات اور
تجزیاتی تجربات کا آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔
یہ لوگ غیر حقیقت پسندانہ ، غیر مدلل اپنی ذہنی خلشوں اور نفسیاتی بیماریوں
سے نہ کسی شخصیت کو معاف کرتے ہیں اور نہ ادارے کو بلکہ دھرتی کے چہرے پر
بدنما داغ ہیں۔
میڈیا کی ان کارستانیوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جتنا کو ئی زیادہ چرب
زبان اور دانشمندانہ سوچ سے دور ہے وہ اتنا ہی بڑا تجزیہ کار بنا بیٹھا ہے
اور سادہ ذہن عوام اگر ان کے ان جھانسوں میں آنے والے نہ ہوتے تو آج
ہمارے ملک کا یہ حال ہوتا۔
تماشبینی کا ایک عمل جاری ہے۔ اچھے برے کی تمیز یا کارکردگی کی بنیاد پر
پرکھنے کی بنیاد پر فیصلوں کی طاقت انتہائی معدوم ہو چکی ہے اور اوپر سے
ظلم یہ ہے کہ عوامی رائے کے عمل کے نتائج میں شفافیت کو دھول زدہ کرکے قومی
لاٹھی کے سہارے چلانے کا عمل سب کوششوں پر حاوی ہے۔
آج کے اس آپریشن کو اس آخری بات پر ختم کرتے ہیں کہ
’’ جھلا گل کرے تے سیانہ قیاس ‘‘ |