صدر کا دورہ امریکہ، بے جا امیدیں کیوں؟

جب یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں ، صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان آصف علی زرداری امریکہ کے دورے پر ہیں اور اپنے امریکی ہم منصب باراک اوباما سے ملاقات کا ”شرف“ حاصل کر چکے ہی جبکہ دیگر امریکی حکام سے گفت و شنید جاری ہے اور سرکاری سطح پر پاکستان میں صدر کے اس دورہ کو پاک امریکہ تعلقات کے ایک ”انقلابی “ دور کا آغاز قرار دیا جارہا ہے ۔ کیا واقعی ایسا ہی ہوگا؟یا پھر سے ہمیں نام نہاد دوستی کی آڑ میں گھیرنے کی کوشش ہو رہی ہے؟سنجیدہ حلقوں کی جانب سے اٹھایا جانے والا یہ سوال اگرچہ حکومتی دعووؤں کے سامنے بے معنی سا لگتا ہے لیکن ہے خاصا چبھتا ہوا کیونکہ آ ج کے دور میں دوستی ، وفا اور بے وفائی کے معنی و مفہوم کو کسی لغت کے سہارے کے بغیر پاکستان کے حوالے سے امریکی کردار کو سامنے رکھ کر باآسانی نہ صرف سمجھا جاسکتا ہے بلکہ اور اس حوالے سے امریکی کردار و عمل کو اس کی عملی تفسیر اور مثال کے طور پر پیش بھی کیا جاسکتا ہے۔گو کہ امریکہ نے پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ اپنے دوست ہونے کا دم بھرا اور ہمارے حکمران بھی امریکی دوستی کے دعووؤں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے لیکن یہ انتہائی تلخ حقیقت بہر حال اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ ماضی میں جب بھی امریکہ کا مطلب اور مفاد ہوا ،اس نے پاکستان کو اپنی دھونس، دھاندلی، بدماشی اور دوستی کا جھانسہ دے کر استعمال کیا اور جب اس کا کام نکل گیا کسی طوطا چشم کی طرح پاکستان کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں،لیکن آئینہ کی طرح اس شفاف اور واضح حقیقت کے باوجود ہمارے حکمران قومی مفادات اور ترجحات کو پس پشت ڈال کر ہمیشہ ہی امریکی کاسہ لیسی میں آگے آگے رہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو امریکی دوست باالفاظ دیگر امریکی غلام ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑا، دوستی کے دعووؤں اور کمال ڈھٹائی سے تاریخی حقائق جھٹلانے کا سلسلہ صدر آصف علی زرداری کے حالیہ دورہ امریکہ اور ان کی اپنے امریکی ہم منصب اور دیگر امریکی حکام سے ہونے والی ملاقاتوں کے بعد بھی جاری ہے۔ دعوے کرنے والے شاید یہ حقیقت بھی بھول گئے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کی دوستی کے تانے بانے ہمیشہ ہی امریکی ترجیحات اور مفادات کے گرد گھومتے رہے ہیں۔امریکی جمہوریت کے بانی جارج واشنگٹن نے بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ''ایک چھوٹی اور کمزور ریاست کا ایک بڑی اور طاقتور ریاست سے تعلق اول الذکر کیلئے آخر الذکر کا لاحقہ ہونا لازمی کردیتا ہے ،کسی قوم کا غیر متعلق لوگوں سے ہمدردی کی توقع رکھنا حماقت ہے،وہ اس حوالے سے اگر کچھ حاصل کرے تو اسے اپنی آزادی کے ایک حصے سے اس کی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے۔''امریکی بابائے آزادی کے اس قول کی روشنی میں آج ہم امریکی تعلق اور دوستی کی وہ قیمت ادا کررہے ہیں جو ہم نے کبھی سوچی بھی نہیں تھی جبکہ خود امریکی پالیسی ساز اور تاریخ دان پاک امریکہ تعلقات کی پچاس سالہ دوستی میں امریکہ کی کہہ مکرنیوں کا اعتراف بلا تامل کرتے ہیں۔

پاک امریکہ تعلقات کے موجودہ دور کا آغاز 1950ء میں پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ سے ہوا،جو مارچ 2000ءمیں سابق صدر ہنری کلنٹن کے دورہ بھارت پر ختم ہوا،امریکہ نے ابتدائی چار سال 1950ء سے 1954ءتک پوری کوشش کی کی کہ وہ پاکستان ،بھارت اور افغانستان کے حوالے سے یکساں پالیسی اختیار کرے،اس دوران امریکہ نے یہ بھی کوشش کی کہ یہ تینوں ممالک مل کر دوسری جنگ عظیم کے بعد بدلے ہوئے حالات میں امریکہ کا ساتھ دیں،امریکہ کی بے پناہ خواہش اور کوشش تھی کہ اشتراکی دنیا کے گرد جو حصار امریکہ بنانا چاہتا ہے۔بھارت اس میں امریکہ کا ساتھ دے ،لیکن پنڈت نہرو نے کسی صورت بھی اس نظام کا حصہ بننے کیلئے آمادگی ظاہر نہیں کی بلکہ اس نے انڈونیشیا اور چین کے ساتھ مل کر غیر جانب دار تحریک کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جو کہ خطے میں امریکی پالیسی کے خلاف تھی، اس کے برخلاف پاکستان اپنی حکمت عملی کے تحت جنوبی ایشیاءسے زیادہ اپنے آپ کو وسطی ایشیائ اور شرط اوسط کا حصہ سمجھتا تھا اور انہی ممالک کے درمیان اپنے مستقبل کا کردار دیکھ رہا تھا۔چنانچہ ان حالات میں 1954ءمیں پاکستان امریکہ کے دفاعی معاہدوں سیٹو اور سینٹو ،بغداد پیکٹ کا رکن اور سرد جنگ میں امریکہ کا سب سے قریبی حلیف بن گیا،جس کی وجہ سے امریکی جمہوریت کو جنرل ایوب خان کی آمریت میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی،لیکن 1962ءمیں امریکہ پھر بھارت کی طرف لوٹ گیا ،اس نے چین سے نام نہاد مقابلے کیلئے بھارت کی دو ڈویژن فوج کو جدید جنگی ٹیکنالوجی سے لیس کیا اور بھارت کو نیوکلیر ٹیکنالوجی سے نوازا اور پاکستان کو زبردستی کشمیر سے دستبردار کرانے کی کوشش کی ، پھر 1965ءمیں بھارت نے تین سالہ امریکی فوجی اور معاشی امداد سے حاصل ہونے والی قوت کے زعم میں پاکستا ن پر رات کے اندھیرے میں حملہ کیا تو امریکہ نے اپنے حلیف پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے پاکستان کی فوجی امداد روک لی،جبکہ بھارت کی فوجی سپلائی کاا نحصار روس پر تھا۔

سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر اور صدر نکسن کیلئے چین تک کیلئے رسائی کی خدمات انجام دینے والے پاکستان سے امریکہ نے ایک بار پھر 1971ءکے نازک لمحات میں جب بھارت نے دہشت گردی اور مکتی باہنی کی کھلی تائید کی اور پھر نومبر 1971ءمیں مشرقی پاکستان پر فوج کشی کی ،اسی طرح بے وفائی کی جس طرح 1965ءمیں کی تھی،یہ امریکی طرز عمل دراصل اس امریکی پالیسی جو امریکی دستاویزات کے مطابق''گو کہ پاکستان سے ہماری دوستی اور معاہدات ہیں مگر ہمارے مفادات کا تقاضہ ہے کہ ہم بھارت کو پاکستان پر ترجیح دیں''کا عملی عکاس تھا، پاک امریکہ تعلقات کا سب سے خطرناک اور امریکہ مخالف دور اس وقت شروع ہوا جب امریکہ نے ہماری تمام تر قربانیوں اور خدمات کو پس پشت ڈالتے ہوئے نیوکلیئر پالیسی کے سلسلے میں کھلی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس وقت کے سربراہ مملکت ذوالفقار علی بھٹو کو عبرت ناک مثالHorrible Exampleبنانے کی نہ صرف دھمکی دی بلکہ امریکی صدر جمی کارٹر نے معاشی پابندیوں کا نشانہ بنانے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا، یہ تو افغانستان پر روس کا حملہ اور اشتراکیت کے خلاف افغان مجاہدین اور پاکستان کا ڈٹ جانا تھا جس کی وجہ سے امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی دوستی کی ضرورت محسوس ہوئی،لیکن جیسے ہی افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے امکانات پیدا ہوئے امریکہ نے پاکستان سے اگلی ضرورت سانحہ نائن الیون تک ایک بار پھر اپنی نظریں پھیر لیں۔

ایسی حالت میں امریکہ کی دوستی کا لازمی نتیجہ سیاسی ،معاشی اور خود عسکری میدان میں محتاجی کی شکل میں ہی نکلنا تھا،معاشی میدان میں ہم بیرونی قرضوں کے جال میں پھنستے چلے گئے،آج یہ عالم ہے کہ قرضوں کی غلامی نے ہماری آزادی کو پابند سلاسل کردیا ہے اور ہماری پوری معیشت ملک کی حقیقی ضروریات اور قوم کی ترجیحات کے بجائے بیرونی ساہوکاروں کے چشم ابرو کے اشارے کی تعمیل پر لگی ہوئی ہے، دیکھا جائے تو بحیثیت مجموعی یہ دوستی ہمیں ہر میدان میں مہنگی پڑی ہے،آج امریکی ذمہ دار کہتے ہیں کہ امریکہ نے دو بار پاکستان سے بے وفائی کی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے ہر بار پاکستان سے بے وفائی کی ، حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے نائب امریکی صدر جو بائیڈن نے اگرچہ ماضی سے سبق سیکھنے کا اعتراف اور مستقبل میں پاکستان کو کبھی بھی تنہا نہ چھوڑنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے لیکن جو بائیڈن کا تازہ بیان سابقہ امریکی طرز عمل، رویئے اور تاریخی حقائق کے یکسر خلاف ہے ، ۔ وہ دوستی کا دم تو پاکستان کا بھرتا ہے اور پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بھی قرار دیتا ہے مگر اس کی نوازشات اور عنایتوں کا رخ ہمیشہ پاکستان کے بجائے اس کے دیرینہ دشمن بھارت کی طرف رہا ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکہ اپنی افغانستان میں ہاری جانے والی جنگ پاکستان کے گلے ڈالنے کے درپے ہے اور پاکستان پر اپنے تعلقات کا حوالہ دیکر دباؤ بڑھانا چاہتا ہے،اس پس منظر میں یہ نیانقشہ نئی دوستیوں اور پرانے تعلقات پر نظر ثانی کا متقاضی ہے کیونکہ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق عملی سیاست میں کوئی دوستی مستقل نہیں ہوتی،مستقل چیز تو صرف مفاد کا حصول ہوتا ہے اور مفادات کی شکل اور نوعیت صحراکی ریت کی حرکت کی طرح بدلتی رہتی ہے اسی روشنی میں دوستوں اور مخالفین کی درجہ بندی ہوتی ہے لہٰذا ہمیں بھی محض دھوکے بازی کی دوستی کا دم بھرنے کے بجائے امریکہ کی نئی ترجیحات اور نئی راہوں کو سمجھنے اور ان کی روشنی میں اپنے مقاصد اور مفادات کے تحفظ کی فکر کرنی چاہیے، موجودہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہہم پوری دیانت اورحقیقت پسندی کے ساتھ امریکہ سے اپنے تعلقات(ماضی ،حال اور مستقبل )کا از سر نو جائزہ لیں،خوابوں اور تمناؤں کی دنیا سے باہر نکلیں اور نئے حالات کی روشنی میں روشن زمینی حقائق کے مطابق اپنے نظریاتی،سیاسی،معاشی اور قومی مفادات کے تحفظ اور حصول کیلئے جان دار ،واضح اور دیرپا حکمت عملی وضع کریں ۔ہوا کے بدلتے ہوئے رخ کو پہنچانیں،خوش فہمیوں کی بھول بھلیوں اور مجہول و مبہم خوابوں کی دنیا سے باہر نکلیں اور اپنی پالیسی اور اہداف کا تعین کریں کہ اسی پر ہماری آزادی ،سلامتی اورباوقار قومی زندگی کا دارومدار ہے۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 56942 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.