بیس فروری کے بعد کیا ہوگا؟

مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز نے انکشاف نما اعتراف کیا ہے کہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی طاقتور وزیر اعظم ہیں اور وہ کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میاں نواز شریف کا بیان خوشامد ہے، حقیقت یا پھر اپنے ایجنڈے عمل کرانے کی چال؟ اس بارے تو خود ن لیگی قائد ہی وضاحت فرما سکتے ہیں البتہ وزیر اعظم کے مثبت جواب کے باوجود ان کے دس نکاتی ایجنڈے پر عمل ہوسکے گا یا نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو تمام سیاسی حلقوں کی جانب سے شدت کے ساتھ اٹھایا جارہا ہے جبکہ سیاسی مبصرین کی نگاہیں بھی اسی جانب لگی ہیں۔ وزیر اعظم گیلانی کے بعد اگرچہ صدر آصف علی زرداری نے بھی میاں نواز شریف کے اس ایجنڈے کے حوالے سے مثبت اظہار ہی کیا ہے تاہم پیپلز پارٹی کی موجودہ دور حکومت کی اب تک کی تاریخ خدشات و توہمات کا ایسا سلسلہ لئے ہوئے ہے جس میں کچھ بھی واضح دکھائی نہیں دیتا۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف نے غیر متوقع ایجنڈا پیش کر کے مکمل طور پر سیاسی مفادات کے حصول ہی کو مطمع نظر رکھا ہے البتہ نعرہ عوامی مسائل ہی کا لگایا جارہا ہے ۔ اس حقیقت سے پیپلز پارٹی اور ا س کی حکومت بھی بخوبی آگاہ ہے لیکن اس پاس اس ایجنڈے کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اسے پیپلز پارٹی کی بد قسمتی کہئے یا پھر وزیر اعظم گیلانی کی سیاسی کمزوری کہ فی الوقت دونوں ہی ایسی کشتی کے سوار ہیں جس کو چلانے کے لئے جہاں انہیں اتحادی چپووؤں کی ضرورت ہے وہیں اسے ن لیگ کی حمایت کے ناخدا کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے۔ اگر چہ ایم کیو ایم کی حکومت میں واپسی کے پیپلز پارٹی نمبر گیم میں واپس آگئی تھی لیکن اس کے باوجود کسی بھی وقت کچھ بھی ہونے کی تلوار کی دھار اتنی تیز تھی کہ اتحادی حکومت کا وجود کٹتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ وزیر اعظم کی ”ہاں “ کے بعد اگرچہ خطرہ وقتی طور پر ٹل چکا ہے لیکن فی الحال راکھ میں چنگاری کے وہ عنوان ابھی باقی ہیں جو اس ایجنڈے پر عمل نہ ہونے یا یوں کہہ لیجئے کہ پیپلز پارٹی کے حسب سابق وعدے سے مکرنے پر شعلہ بننے کے صد فی صد امکانات بدستور روشن ہیں۔

جس طرح پیپلز پارٹی نے مجبوریوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر مسلم لیگ ن کو مثبت جواب کے ذریعے ٹھنڈا کیا ہے بالکل اسی طرح مسلم لیگ ن کے لئے اس ایجنڈے پر عمل کروانا اس کے لئے سیاسی لحاظ سے اتنا ہی اہم ہے ۔جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ اس ایجنڈے کے پس منظر میں عوامی کے بجائے سیاسی مقاصد زیادہ واضح ہیں لہٰذا مسلم لیگ ن کے قائد کبھی بھی ان مقاصد سے پیچھے ہٹنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ اس صورت میں انہیں عوامی مقبولیت کے گراف اور پھر عین اس وقت جب قریباً سبھی سیاسی جماعتیں آئندہ عام اتنخابات کے لئے ہوم ورک شروع کر چکی ہیں اپنے موقف میں تبدیلی ن لیگ کے لئے سیاسی موت ثابت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا رائے ونڈ کیمپ اس ایجنڈے کو ہی بنیاد بنا کر آنے والے وقت کی تیاری کرے گا اور اپنے رویئے میں کسی بھی صورت لچک کا مظاہرہ نہیں کرے گا اور یوں وہ حکومت کے لئے نت نئی مشکلات پیدا کرنے کے وطیرے پر عمل پیرا رہے گا۔ مختصر الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ دس نکاتی ایجنڈا دونوں فریقوں کے لئے ایسا ڈنڈا ہے جو ایجنڈے کے نکات پر عمل ہونے یا نہ ہونے کے سلسلہ میں دونوں ہی کے سر پر برسے گا۔

مسلم لیگ ن چونکہ اس ایجنڈے کی محرک ہے لہٰذا اس کے لئے اس سے پیچھے ہٹنا اپنے ہی سیاسی کریا کرم کے مترادف ہوگااور وہ اپنی ساکھ بچانے یا پھر سے بنانے کے لئے حکومت خصوصاً وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی پر حد درجہ دباﺅ ڈالتی رہے گی جس کا آغاز میاں نواز شریف کے مندرجہ بالا بیان سے ہو چکا ہے۔ رہ گئی پیپلز پارٹی یا وزیر اعظم تو سید یوسف رضا گیلانی کے لئے اعلان کے باوجود میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کے پیش کردہ نکات پر من و عن عمل ممکن ہی نہیں کہ ایسا کرنے پر پہلے خود پیپلز پارٹی اور پھر دوسرے اتحادیوں خصوصاً ایم کیو ایم کی جانب سے شدید ترین مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے اس ایجنڈے میں جو مطالبات پیش کئے ہیں وہ اگرچہ عام سے ہی ہیں اور یقینی طور پر ہر ذی شعور پاکستانی ان پر عمل کا متمنی ہے لیکن کیا کیجئے کہ ان پر عمل سب سے پہلے پیپلز پارٹی ہی کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور یہ نہ تو وزیر اعظم گیلانی چاہیں گے اور نہ ہی صدر آصف زرداری۔ کرپٹ وزراء کی فراغت سے لے کر کرپشن کے خاتمے اور عدالتی فیصلوں پر من و عن عمل کے مطالبہ سے لے کر تباہ حال اداروں کی تعمیر نو کا وعدہ پورا کرنا گیلانی حکومت کے لئے اتنا ہی کٹھن ہے جتنااس ملک میں عام آدمی کے لئے وزیر اعظم بننا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت اس لحاظ سے بھی مشکلات میں گھر چکی ہے کہ وہ ن لیگ کے ایجنڈے کے تمام نکات پر ایجنڈے کا وعدہ کر چکی ہے۔ اب اس کے پاس یہ گنجائش بھی نہیں کہ کچھ ڈنڈی مار کر ہی کام چلا لے۔ دوسری جانب وہ کسی بھی طور ن لیگ کی ڈکٹیشن قبول کرنے پر راضی نہیں ہوگی اور یہی وہ نکتہ ہے جو آنے والے دنوں خصوصاً بیس فروری (ایجنڈے پر عمل کی ڈیڈ لائن )کے بعد سیاسی حالات پھر سے انتہائی کشیدہ ہونے کا عندیہ دے رہا ہے۔ اگر وزیراعظم نواز شریف کے کچھ مطالبات مان لیتے ہیں اور ایجنڈے کے کچھ اہم نکات کو نظر انداز کر دیتے ہیں تو 20 فروری کے بعد نون لیگ کے سربراہ کا رد عمل انتہائی شدید ہوگا، ظاہر ہے وہ مطمئن نہیں ہوں گے۔ ہمارے خیال میں میاں نواز شریف کے ذہن میں یقینی طور پر یہ بات بھی موجود ہے کہ وہ جب چاہیں حکومت کو گرا سکتے ہیں اور اسی لئے انہوں نے حکومت کے وعدے سے قبل ہی حزب اختلاف کی دیگر سیاسی جماعتوں سے ہاتھ ملانے کا عندیہ بھی دے دیا ہے جس کا واضح مطلب یہی ہے وہ بھی حکومتی وعدے پر عمل کے سلسلہ میں شکوک شبہات کا شکار ہیں ۔

زیر نظر حقائق کی روشنی میں سوال اٹھتا ہے کہ اگر واقعی ایجنڈے پر عمل اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے تو پھر پیپلز پارٹی نے وعدہ کیوں کیا؟یقینی طور پر یہ اپنی جگہ انتہائی اہم ہے لیکن اس کا جواب انتہائی سیدھا اور سادہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور وزیر اعظم کو کچھ وقت چاہیئے تھا جو انہیں مل گیا۔ ویسے بھی پنجاب میں حکومت سے علیحدہ کرنے کی دھمکی ایسی تھی جس کے دباﺅ میں آکر پیپلز پارٹی فی الوقت سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوئی لیکن اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ مکمل طور پر ن لیگ کے تابع ہوگئی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ زور بازو سے خود کو نئے مقابلے کے لئے تیار کر رہی ہے، اب اصل صورت حال کیا ہے یہ تو ڈیڈ لائن گزرنے کے ساتھ ساتھ ہی واضح ہوگا لیکن سر دست یہی عنوان یہی ہیں کہ اپنی وزارت عظمیٰ بچانے کے لئے وزیر اعظم گیلانی چاہنے کے باوجود بھی وعدہ پورا نہیں کرسکیں گے اور نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ انتشار کی صورت میں سامنے آئے گا۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 56946 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.