ہمارے ملک میں اب تک سینکڑوں
جماعتیں وجود میں آ چکی ہیں کو ئی سربراہ کسی جماعت کے ممبر کو اپنی جماعت
سے نکالتا ہے یا وہ خود اپنی مرضی سے پارٹی سے نکل جا تا ہے۔تو پارٹی آفس
سے نکلنے سے پہلے اپنی جماعت کی بنیاد رکھ چکا ہوتا ہے اور اسی طرح ہمارا
ملک کئی ایک سیاسی پارٹیوں کا مرکز بن گیا کئی ایک پارٹیاں تو ایسی بھی ہیں
کہ جن کا کو ئی منشور نہیں ہے بس دنیا کو دھوکا دینے کے لئے کچھ صفحات پر
الٹے سیدھے الفاظ لکھ کر بیوقوف بنا یا جارہا ہے اور ان الفاظ کو ہی اس
پارٹی کا” منشور“ کہا جا تا ہے۔ اس سا ری بھیڑ میں دیکھیں تو تحریک انصاف
کا وجود اپنی الگ شناخت رکھتا ہے اس کو عمران خان کی قیادت میسر ہے ۔ عمران
خان پاکستان کے بے باک اور صاف گو سیاستدان ہو نے کے ساتھ ساتھ محب وطن
لیڈر بھی ہیں جن پر آج تک کو ئی کرپشن کا کیس سا منے نہیں آیا اور اس پارٹی
نے پاکستان پر آ نے والی ہر آفت میں ہر اول دستہ کا کردار بخوشی
نبھایا۔تحریک انصاف نے شروع دن سے ہی عوام کے دکھ کو ا پنا دکھ سمجھا ہر
حکمران کے برے کاموں کو دنیا ،عوام اور خود حکمران کو اس کے کالے کرتوتوں
کے بارے میں بتا یا اور آ ج بھی وہ اس کا م میں مگن ہے۔تحریک انصاف ہی
عوامی حلقوں میں انقلاب کے لئے متحرک تنظیم نظر آتی ہے کیو نکہ اگر پیپلز
پارٹی کو دیکھا جا ئے تو اس پر بھی یہ الزام آج تک موجود ہے کہ اس نے خود
اپنے منشور روٹی، کپڑا اور مکان پر عمل نہیں کیا جب کہ مسلم لیگ ن بھی
عوامی حلقوں میں بنیادی سہولیات فراہم کر نے میں ابھی تک ناکام ہے خصوصاً
سکولوں، کالجوں و دیگر سرکاری اداروں سمیت جنرل بس سٹینڈ پر ٹائلیٹ باتھ
رومز اور بیٹھنے کے لئے سہولیات موجود نہیں اگر مسلم لیگ ن چا ہتی تو واٹر
فلٹریشن پلانٹ سب سے پہلے جنرل بس سٹینڈ پر لگواتی جس سے ہر راہگیر مستفید
ہو تا جب مسلم لیگ ق اپنے دور حکومت میں تاریخی ترقیاتی کاموں کی وجہ سے
پورے پاکستان میں مقبول ہو ئی لیکن مسلم لیگ ق کے اندرونی اختلافات کی وجہ
سے پارٹی اپنی مقبولیت کو برقرار نہ رکھ سکی خصوصاً مسلم لیگ خود بھی دیگر
اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف ہو گئی جس کی
وجہ سے خود مسلم لیگ ق کے راہنما ان سے علیحدہ ہو گئے ہم یہاں پارٹیوں کے
اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کر نا چاہتے لیکن حقیقت اس سے بر عکس
نہیں ۔اس کے علاوہ دیگر پارٹیوں میں خصوصاً ایم کیو ایم کے ایک اہم راہنما
کی طرف سے حد سے زیادہ بات کرنے سے بھی پارٹی مقبولیت رک گئی ہے اور ان کی
اپنی پارٹی کے رکن کی زبان کو لوگ پارٹی نام دے کر اس میں شمولیت کے فیصلے
پر سوچ و بچار میں پڑ گئے ہیں۔ایسے حالات میں تحریک انصاف ہی وہ واحد پارٹی
ہے جسے پاکستانی عوام چانس دینے پر سب سے زیادہ غوروفکر میں ہیں۔ کیو نکہ
تحریک انصاف ایک طرف تو وہ عوام کا دکھ سکھ بے حس حکمرانو ں کے سامنے لا
رہی ہے تو دوسری طرف جب سے تحریک انصاف بنی اور اس کی ترقی میں دن بدن
اضافہ ہورہا ہے۔ یہ بات دوسری پارٹیوں کے لئے درد سر بنی ہو ئی ہے جن کے
ممبران کی سیا ست اپنے پارٹی کے بڑوں کی خواہشات اور اپنے ذاتی مفادات تک
ہو تی ہے ان فصلی بٹیروں کو تحریک انصاف سے اتنی تکلیف ہے کہ وہ اس سے جان
چھڑانا چاہ رہے ہیں اس کی بڑھوتری ہی ان لوگوں کے لئے پریشانی کا سبب بنی
ہوئی ہے جو لوگ گھاٹ گھاٹ کا پا نی پینے کے عادی ہیں اور جو کئی عشروں سے
پاکستانی سیاست و پاکستانی سرکار پر ڈھیر ے جمائے بیٹھے ہیں۔ اس کا نٹے سے
جان چھڑانا چا ہ رہے ہیں اور اس کانٹے سے جان چھوڑنے کے لئے اس کا صاف اور
بہترین حل یہ نکالا گیا کہ اپنے بھا ئی، عزیر، کزن، و دیگر رشتہ داروں کو
تحریک انصاف کی ممبر شپ لے دی گئی جس کا فائدہ ان لوگو ں کو ہوا کیو نکہ ان
کو کس بھی طرف سے ٹف ٹائم بھی نہیں ملے گا اور نہ کو ئی ان پر تنقید کر ے
گا یعنی ”سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی “کے محاورے پر
بڑے احسن انداز میں عملدرآمد کیا گیا ہے۔اسی طرح پاکستانی سیاست میں باپ،
بیٹے کزن، رشتہ داروں کی مثالیں موجود ہیں تو دیگر سیاسی جماعتوں میں اپنے
اپنے رشتے داروں کو بٹھا نا کو ئی بڑی بات نہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ تحریک
انصاف کے لئے ایک اور مشکل یہ بنی ہو ئی ہے کہ اس میں ایسے لوگوں کو ذمہ
داریاں سو نپی جا رہی ہیں جن کا کبھی عوامی حلقوں میں اثرورسوخ یا رابطہ
نہیں رہا نہ ان کا عوام کی بھلائی میں کو ئی کردار ہے نہ وہ عوامی مسائل کے
لئے عوام کے ساتھ چلنا اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔یہ صرف شطرنج کے مہروں کی
طرح ہیں جن کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں بھی کسی اور کا ہاتھ شامل
ہو تا ہے ۔ اور ایسے افراد کا دوسری سیاسی پارٹیوں کو کو ئی نقصان نہیں تو
دوسری طرف ایسے افراد کا تحریک انصاف کو بھی ابھی تک سہی فائدہ نہیں پہنچا
۔ایسے افراد کو پارٹی سے علیحدہ کر نے کی بجا ئے ان کی ذمہ داری بدل دی جا
ئے کیونکہ کبھی کبھی کھوٹا سکہ بھی چل جا تا ہے اور تحریک انصاف کوعام
لوگوں خصو صاً نوجوانوں پر اپنی تو جہ مرکوز کر نی چا ہیئے ان کو مواقع
فراہم کر نے چا ہئیں جو اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں اور
پارٹی کے زیادہ سے زیادہ سیمینار اور ورکر کنونشن کروائے جائیں تا کہ جن
علاقوں میں ابھی تک تحریک انصاف کا پیغام نہیں پہنچ سکا وہاں پر بھی اس کا
پیغام پہنچ جا ئے خصوصاً دیہات جو کہ آج بھی انٹرنیٹ اور کیبل جیسی بنیادی
سہولتوں سے محروم ہیں وہاں پر تحریک انصاف کا پیغام پہنچ سکے یہ پارٹی کے
لئے اور عمران خان کے لئے فائدہ ہے کیو نکہ پاکستانی عوام کا شروع سے یہ
رویہ رہا ہے کہ ایک حکومت ناکام ہو ئی تو دوسری کو آزمائش کا موقع دے دیتے
ہیں اب چونکہ پاکستانی سیاست میں پارٹیاں بڑھ چکی ہیں اس لیئے نظریاتی ووٹر
ز کے علاوہ دیگر عوامی حلقے آنیوالے وقت میں کس کو منتخب کر تے ہیں یہ الگ
بات ہے لیکن میڈیا کے شعور کی وجہ سے وہی پارٹی کامیاب رہے گی جو عوامی
بنیادی ضروریات اور سہولیات کو اپنا مشن بنا ئے گے اور یہ تمام خوبیاں
تحریک انصاف میں موجود ہیں ۔” باقی رہی بات بادشاہی کی تو وہ صدا اﷲ تعالیٰ
کی ہی رہے گی“ |