ہمارا پرنٹ میڈیا آجکل انڈین
فلمی ستاروں کے شب و روز کی کوریج کچھ اسطرح کرتا ہے جیسے شاید وہ اسی ملک
کے فنکار ہیں اور ہمارے اداکار تقریباً غا ئب ہی ہیں ۔ایسا کیوں ہے کہ یہ
اخبار انڈین اداکاروں کے روز و شب کا احوال کچھ اتنی اہمیت شائع سے کرتے
ہیں جیسے اس خبر سے ہمارے ملک کے مسائل کم اور لوگوں کا د کھوں کا مداوا ہو
اس لئے انہیں شاید ایسی تفریحفراہم کی جا رہی ہے ۔ ان اداکاروں کی زندگی کے
حالات سے روشناس کرانابھی شاید ان کے پروگرام میں شامل ہے ۔ تقریباً پورے
پورے صفحے انکی مدح سرائی سے بھرے ہوتے ہیں ۔ لیکن ان اشتہارات سے جو منفی
تاثر نوجوانوں کے ذہنوں میں ابھر رہا ہے اس کا وہ اخبار والے اندازہ کر
سکتے ہیں، نیشنلیزم کا فقدان نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ اس اقدام سے آپ کی
اپنی فلمی صنعت کا جنازہ اٹھ رہا ہے۔
ہمیں ان کے شب و روز جان کر کیا فیض ملے گا ، میری ناقص رائے ان کے مضمرات
کے تعین کرنے سے قاصر ہے ۔اس کا ایک نقصان تو ملکی فلمی صنعت اور الیکٹرانک
میڈیا پر یہ ہوا کہ ہمارے ڈ راموں کا معیار اتنا گھٹیا ہو گیا کہ عوام
گھروں میں فیملی کے ساتھ مل کر ڈرامے دیکھنے ہی کے حق سے محروم ہو گئے ، ان
کی زبان انکے واہیات موضوع پراس طرح کے ڈرامے بننے شروع ہو گئے کہ پاکستانی
چینلز پر انڈین چینل کا گمان ہونے لگا ہے۔ ہمارا میڈیا ا س تشہیر کا صرف
پیسوں کی خاطر ملکی تشخص برباد کرنے کا بھی ذمہ دارہے ( پی ٹی وی میں اب
کچھ بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے)۔
ایک واقعہ میں یہاں بیان کرنا چاہونگا ۔ یہ واقعہ۱۹۷۵ ء کے دوران پیش آیا۔
اس زمانے میں میرا فوجی فاؤنڈیشن سے واسطہ تھا ، ہمارا ایک ہاکی میچ آرمی
کی ٹیم سے تھا ، ہم ا س ٹیم کے آنے کے انتظار میں گراؤنذ پریکٹس کر رہے تھے
، لاؤڈز اسپیکر وغیرہ کا انتظام کیا ہوا تھا جس پر انڈین گانوں کی آواز
گونج رہی تھی اور ظاہر ہے کہ سب ہی اس سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ ایسے میں
ایک ریٹائرڈ کرنل صاحب آفس سے واپس جا رہے تھے کہ انہیں گانوں کی آواز نے
اپنی طرف متوجہ کر لیا اور وہ گراؤنڈ میں تشریف لے آئے، انہوں نے آتے ہی ان
گانوں پر اپنی خفگی کا اظہار کیا اور جو الفاظ استعمال کیے وہ آج تک میرے
کانوں میں گونجتے ہیں۔ انہوں نے کہا لعنت ہے تم لوگوں پر اس ملک کے گانے
سنتے ہو ئے جس نے تمہارے ملک کے ٹکڑے کر دیے ہیں ، تمہیں شرم نہیں آتی، غصہ
ان کے چہرے سے عیاں تھا انہوں نے سختی سے گانے بند کرنے کو کہا ، لوگوں نے
گانے فوراً بند کر دیے ۔ اور وہ وہاں سے غصے میں بھرے یہ کہتے ہوئے چلے گئے
کہ ان جوانوں کو اپنے لٹنے کا بھی احساس نہیں ان سے کیا امید کی جا سکتی ہے
، ہم نے سوچا کہ واقعی ہمیں دشمن ملک کے گانے نہیں سننے چاہئیں۔
اس میں قصور مغربی پاکستان کے اس وقت کے سیاست دانوں بیوروکریٹس اورکنٹرولڈ
میڈیا کا تھا جنہوں نے مغربی پاکستان کے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی
کہ بنگالی غدار ہیں ، ہم نے انڈیا کے اس مخالفانہ طرز عمل کو پس پشت ڈال
دیا اور لوگوں میں یہ تاثر ا بھار ا کہ بنگالیوں کا اس ملک سے علیحدہ ہونا
ہی ہمارے مفاد میں تھا ۔ لیکن آج ایک عمر گزار کر ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے
کہ ہم غلطی پر تھے۔
آج ہم انڈیا کے پچھلے سارے کرتوت بھول کر اس سے دوستی کی پینگیں بڑھانے،
انہیں پسندیدہ قوم کے درجات دینے پر مائل ہیں اس سے اسکے مفاد میں تجارت کر
کے اپنے ملک کو نقصان سے دوچار کرتے ہیں۔ جتنی اسمگلنگ پنجاب سے بدمعاشی کے
ساتھ ہوتی ہے اتنی تو شاید سندھ سے بھی نہ ہوتی ہو۔ آٹا، چینی ، گھی، دالیں
چاول کی تجارت کے ساتھ ساتھ اسمگلنگ بھی بڑی جان فشانی سے ہوتی ہے جس سے
اپنے ملک میں لوگ ان چیزوں کی کمی کا شکار ہو کر مہنگائی کے عذاب سہنے پر
مجبور ہوتے ہیں ۔
آج کل بلوچیوں کو غدار قرار دے کر ان کا معاشی استحصال کیا جا رہا ہے دوسری
جانب پختون عوام کا قتل عام القائدہ اور طالبان کے نام پر کیا جا رہا ہے ان
دونوں خطوں میں انڈیا کے ملوث ہونے کے شواہد تواتر سے مل رہے ہیں اور ہمار
پرنٹ میڈیا ایسے میں انڈیا کے فنکاروں کو پاکستان کے ہیرو بنانے پر تلا
بیٹھا ہے ، ہم یہ نہیں کہتے کہ انڈیا سے دوستی نہ کرو ، بالکل کرو ، لیکن
پہلے کشمیر کا مسئلہ، وہاں لوگوں کو حق خودارادیت کے لیے اظہار کا موقعہ دو،
وہ جیسا چاہیں انکو رہنے کا حق دو۔ پاکستان میں مداخلت بند کر و ، برابری
کی بنیاد پر ایک دوسرے کا احترام کر کے اچھے پڑوسیوں کی طرح رہو۔ اس کے بعد
تجارت اور معمولات میں پیش رفت ہو نی چاہئیے ۔ اس وقت تک ان سے کسی بھی طرح
کے تقلقات بڑھانے کی کوشش اپنے ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہے۔ اور اس
نقصان میں پرنٹ میڈیا بھی برابر کا شریک ہے جو صر ف اشتہارات کی آمدنی میں
عوام کے ذہنوں کو تبدیل کرنے کا ملزم بھی قرار پائے گا۔
لگتا ہے کہ کمیونیکیشن کی ترقی ہی ملکی ترقی ہے صرف موبائل فون ہی پا
کستانی قوم کو کائنات کی تسخیر کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ موبائل
فون اصل میں پاکستان کے دشمنوں کو اطلاع فراہم کرنے کا آسان میڈیم ہے جس سے
کالیں ریکارڈ کی جاتی ، اسکا مقصد لوگوں کے بارے میں آگاہی اور جاسوسی نظام
کی تشکیل ہے۔ اس کے استعمال سے ذہنوں پر کیا منفی اثرات پڑتے ہیں ایک
علیحدہ بحث ہے۔
ہمارے فنکار پیسوں کی لالچ میں انڈیا ہی میں کام کرنے کو ترجیح دینے لگے
ہیں۔ وہاں ان کی کیسی درگت بنتی رہی ہے وقتاً فوقتاً انہیں بے عزت کرنے کے
نظارے اکثر سنا ئی د یتے ہیں لیکن پھر بھی دوستی کے جذبے سے سرشار ہمارے
فنکار اور پیسوں کی لالچ میں وہاں دوڑے چلے جا رہے ہیں ۔
ہمارے حکمران کشمیر کے موقف پر انڈین ہٹ دھرمی اور ہمارے ملک میں مداخلت کے
باوجود اس سے دوستی کے تعلقات اور تجارتی معاہدے کر کے اسے فائدے بھی
پہنچانے کی جستجو میں لگے پتہ نہیں کیسے اپنی حب وطنی کا ثبوت دے ر ہے ہیں
۔ اخبارات اور میڈیا بھی انڈیا کی ہٹ دھرمی اور کشمیریوں کے قتل عام کے
باوجود ان کے فنکاروں کو ملکی فنکاروں پر فوقیت دے کر حب وطنی کا ثبوت دے
رہا ہے ۔ اخبارات اٹھائیے ایسا لگتا ہے کہ ہم ہندوستان میں ہیں اور اسکے
فلمی اداکاروں کے سونے جاگنے، معاشقوں، ڈانس سیکھنے کی خبروں کو پڑھ کر ،
اپنی قوم کو بھی ڈانس سیکھنے پر راغب کر رہے ہیں کہ قوم ملک میں جاری ٹارگٹ
کلنگ، بلوچستان میں علیحدگی کے منصوبوں اور ان کے کرداروں سے ناآشناں ہی
رہیں ۔ امریکہ کی بد معاشیوں اور ملک کے اہم علاقوں میں ان کی بڑی بڑی
تعمیرات ، عوام کا وحشیانہ قتل عام پر بھی کوئی آواز نہ اٹھے۔ میڈیا ان
امریکی تعمیرات کے اصل منصوبوں کو عوام کے سامنے لا کر اس پر قدغن لگانے
اور بلوچستان کے لوگوں کے جذبات اور مسائل پر بات کر کے ان کے حل کے لئے
رائے عامہ کو ہموار کرے تاکہ بلوچستان کے لوگ خود کو اسی ملک کا حصہ سمجھتے
ہوئے اپنے حقوق حاصل کریں ۔ کہیں ہم انہیں بھی غدار قرار دے کر کسی اور کے
پروگرام کی تکمیل تو نہیں کر رہے۔ |