سلطانہ صدیقی کا ایک اور اعزاز


ہم نیٹ ورک کی صدر، معروف میڈیا شخصیت سلطانہ صدیقی کو بکنگھم شائر نیو یونیورسٹی کی جانب سے میڈیا، خواتین کے بااختیار بنانے اور سماجی ترقی کے شعبوں میں ان کی بے مثال خدمات کے اعتراف میں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا گیا۔
یہ باوقار اعزاز یونیورسٹی میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب کے دوران ڈاکٹر کرسٹوفر لیوس (ایسوسی ایٹ ڈین، تعلیم) نے پیش کیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر لیوس نے کہا"سلطانہ صدیقی نہ صرف ایک وژنری میڈیا انٹرپرینیور اور ایوارڈ یافتہ تخلیقی ڈائریکٹر ہیں بلکہ خواتین کی آواز کو طاقتور انداز میں اجاگر کرنے والی ایک قائد بھی ہیں۔ ان کی قیادت، تخلیقی وژن اور سماجی ذمہ داری نے پاکستانی میڈیا اور معاشرے میں مثبت تبدیلی کے کئی در وا کئے ہیں۔سلطانہ صدیقی کا شمار پاکستان کی اُن خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مشکل راستے چُنے مگر ان راستوں پر استقامت سے چل کر نہ صرف خود کے لیے پہچان بنائی بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی راہیں ہموار کیں۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز پاکستان ٹیلی ویژن پر بطور پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کیا۔ ان کے ابتدائی منصوبے کہانی سنانے کی مہارت، ثقافتی گہرائی اور اعلیٰ جمالیاتی حس کے باعث بہت جلد پہچان حاصل کر گئے۔وقت گزرنے کے ساتھ وہ سرکاری میڈیا میں ایک بااثر شخصیت کے طور پر ابھریں لیکن دو دہائیوں بعد، انہوں نے سرکاری چینل سے علیحدگی اختیار کر کے نجی میڈیا کے میدان میں قدم رکھنے کا جراتمندانہ فیصلہ کیا، ایک ایسا فیصلہ جس نے پاکستانی میڈیا کی تاریخ میں نئی جہت پیدا کی۔انہوں نے "ہم نیٹ ورک" کی بنیاد رکھی جو آج پاکستان کے سب سے معتبر میڈیا اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ جنوبی ایشیا کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے ایک مکمل ٹیلی ویژن نیٹ ورک قائم کیا۔ ان کی رہنمائی میں ہم نیٹ ورک نے قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی پہچان بنائی اور آج یہ نیٹ ورک دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں دیکھا جا رہا ہے۔سلطانہ صدیقی کے تخلیقی سفر میں پاکستان کے کچھ سب سے کامیاب اور یادگار ڈرامے شامل ہیں۔ ان کی تخلیقات میں نہ صرف فنکارانہ نکھار نظر آتا ہے بلکہ ایک سماجی ذمے داری بھی جھلکتی ہے۔ حالیہ برسوں میں انہوں نے "من جوگی" جیسی منی سیریز کے ذریعے پروڈکشن میں واپسی کی، جو معاشرتی ناانصافی جیسے موضوعات پر مبنی تھی اور ان کی تخلیقی بصیرت اور سماجی حساسیت کی غماز تھی۔"
ڈاکٹر لیوس نے مزید کہا"سلطانہ صدیقی کا ہماری یونیورسٹی سے دیرینہ تعلق ہے۔ وہ نہ صرف تعلیمی اور کاروباری منصوبوں میں ہماری شراکت دار رہی ہیں بلکہ مختلف پلیٹ فارمز پر ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں بھی پیش پیش رہی ہیں۔ ان کی اقدار، ہماری اقدار یعنی شمولیت، تخلیقی معیار اور سماجی اثر سے ہم آہنگ ہیں۔ ہم انہیں اپنی عالمی نمائندہ کے طور پر خوش آمدید کہتے ہیں۔"
تقریب کے دوران سلطانہ صدیقی نے اعزازی ڈاکٹریٹ قبول کرتے ہوئے جذباتی اور پُرعزم انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا" یہ میرے لیے ایک غیر معمولی اعزاز ہے۔ میں یہ ڈاکٹریٹ اپنے لیے نہیں، بلکہ ہر اس عورت کے لیے قبول کرتی ہوں جس نے اس وقت خواب دیکھنے کی جرات کی جب دنیا نے اسے خاموش رہنے کو کہا۔ ایک طلاق یافتہ نوجوان ماں کے طور پر اُن کے سامنے دو راستے تھے، خاموشی اختیار کرنا یا اپنی شناخت خود بنانا۔ میں نے وہ راستہ چنا جو آسان نہ تھا مگر مجھے یقین تھا کہ "کہانیاں ذہنوں کو بدل سکتی ہیں، دلوں کو چھو سکتی ہیں اور معاشرے میں حقیقی تبدیلی لا سکتی ہیں۔"
انہوں نے ہم نیٹ ورک کو اپنی زندگی کا مشن قرار دیتے ہوئے کہا"ہم نیٹ ورک میری پیشہ ورانہ زندگی کا سنگ میل ہے، کیونکہ یہ نہ صرف ایک میڈیا ادارہ ہے بلکہ ایک وژن ہے، ایسا وژن جس کے تحت خواتین کو اسکرین پر باوقار انداز میں پیش کیا گیا اور اُنہیں میڈیا انڈسٹری میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کیے گئے۔"
ان کا ماننا ہے کہ خواتین کی معاشی خودمختاری صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں بلکہ ترقی کا بنیادی ستون ہے۔ انہوں نے زور دیا"خواتین کا معاشی اختیار خیرات نہیں بلکہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مالی خودمختاری نہ صرف ایک عورت کو آواز دیتی ہے بلکہ اُسے انتخاب کا اختیار بھی فراہم کرتی ہے۔"
انہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا"آج سوال یہ نہیں کہ کون مستقبل بنائے گا بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم سب مل کر ایک ایسا مستقبل تشکیل دیں گے جو پائیدار، ہمدرد اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والا ہو؟ اگر ہمیں ایسی دنیا چاہیے تو خواتین کو ہر سطح پر فیصلہ سازی میں شریک کرنا ہوگا، بورڈ رومز سے لے کر اسمبلی ہالز، پروڈکشن ہاؤسز سے لے کر تحقیقاتی لیبارٹریز اور یونیورسٹیوں کے کمرہ ہائے تدریس تک۔"
آخر میں سلطانہ صدیقی نے ڈاکٹر سارہ ولیمز، بکنگھم شائر نیو یونیورسٹی کی فیکلٹی، مہمانوں اور تمام منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور اس اعزاز کو اپنی زندگی کی ایک نئی شروعات قرار دیا جو ان کے لیے نہیں بلکہ اُن تمام خواتین کے لیے ہے جو تبدیلی کی خواہاں ہیں۔

 

Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 6 Articles with 1113 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.