یہ بہادر بیٹی کیوں رو رہی ہے ۔آج لاہور میں خاموشی سی ہے
فضا افسردہ اور دل یزمردہ ہیں۔ پاکستان کی بیٹی، مادر جمہوریت اور تین دفعہ
اس وطن عزیز کی خاتون اوّل رہنے والی کلثوم نواز اب دنیا میں نہیں رہی ۔
رسم ہند گاما پہلوان کی اس نواسی نے 29مارچ 1950 ء کو کائنات عرضی میں
آنکھ کھولی۔ پاکستان کے تین نامور اور تاریخی تعلیمی اداروں اسلامیہ کالج،
ایف سی کالج اور پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہی ۔ اپریل 1971 ء میں آپ
شریف خاندان کی بہو بنی تو اﷲ نے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ بیگم
کلثوم نواز شادی کے بعد ایک گھریلو اور مشرقی خاتون کے روپ میں سامنے آئی
اپنے بچوں کی آئین اسلامی روایات کے مطابق تربیت کرنے والی ایک مشرقی خاتون
،اپنے خاوند اور خاندان کی تا حیات مکمل وفا داری نبھانے والی ایک مشرقی
خاتون ، ہمیشہ محبت ، خلوص اور پیار کا رشتہ قائم کرنی والی ایک مشرقی
خاتون۔ ایک ایسی خاتون جس کا سیاست سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ۔ مگر وقت
پڑنے پر 1999 ء میں سیاسی جدو جہد کا آغاز کرتی ہے تو اہل پاکستان نے ہی
نہیں بلکہ دنیا نے یہ دیکھا کہ اک باہمیت ، دلیر ، درد دل رکھنے والی ،
جمہوریت پسند یہ خاتون پاکستان مسلم لیگ (ن) کا پیغام پنجاب کے دریاؤں سے
سندھ کے سمندر اورخیبر کے پہاڑوں سے بلوچستان کی چٹانوں تک مسلم لیگی ورکر
کی آواز بن کر خوش اسلوبی سے پہنچاتی ہے ۔ اس جانباز خاتون نے اس وقت آمریت
کا مقابلہ کیا جب لوگ نواز شریف کا نام لینے سے ڈرتے تھے اور یہ ایک باہمت
سیاست دان کے طور پر ڈکٹیٹر کا مقابلہ کرتی رہی۔ 2002 ء تک مسلم لیگ کی
صدر رہی ، جب آپ کو وطن عزیز سے نکالا جا رہا تھا تو آپ کی حب الوطنی کا
اندازہ ان الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے ۔’’ہمیں اس ملک سے نکالا جا رہا ہے ہم
جانا نہیں چاہتے شاید اس میں بھی میرے رب کی مرضی ہے "۔ 2013ء کے انتخابات
کے بعد مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی ۔ تو کلثوم نواز نواز شریف کے قدم سے
قدم ملائیں ملک کی ترقی، خوشحالی اور وطن عزیز کا وقار بلند کرنے کی اس جدو
جہد میں ان کے ساتھ رہی ۔ تاریخ کا ستم میاں نواز شریف کو نا اہل کر دیا
گیا ۔ ایک مرتبہ پھر مادر جمہوریت اور پاکستان کا فخر بیگم کلثوم نواز کو
میاں نواز شریف کی خالی کردہ سیٹ سے الیکشن لڑوایا گیا ۔ اس مرتبہ یہ جنگ
ان کی بیٹی مریم نواز نے احسن طریقے سے لڑی اور اﷲ نے انہیں عزت دی ۔ مگر
قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ،بیگم کلثوم نواز کینسر جیسے موذی مرض میں
مبتلا ہو گئی اور حلف تک نہ لے سکی ۔ اس بیماری سے وہ ایک سال چار ماہ تک
باہمت لڑتی رہی۔ مگر انسان تو انسان ہے اپنے بچوں اور عزیزوں کے بغیر کیسے
۔ میا ں نواز شریف اور ان کی بیٹی پر کیس چلائیں جا رہے تھے اور دوسری جانب
یہ جانباز خاتون بیماری سے لڑ رہی تھی ۔ خاوند کو اپنی بیوی اور بیٹی کو
اپنی ماں سے ملنے کی اجازت نہیں مل رہی تھی ۔ خاوند اور بیٹی جیل میں ہیں
اور آپ بیماری سے لڑ رہی تھی ۔ کاش کلثوم نواز صحت یاب ہوتی اور آج ووٹ کو
عزت دو کی جنگ خود لڑتی ۔ ورکر کا وقار بلند کرتی ۔ پاکستان میں جمہوریت کا
علم لہراتی ، مشکل وقت میں پھر سے مسلم لیگ کی قیادت کرتی اور نواز شریف کا
عکس بن کر اس جنگ کو خود لڑتی ۔ اے نئے پاکستان کے خود ساختہ دانشوروں ، غم
ذدہ بیگم کلثوم نواز اب کی بار پاکستان سے ہی نہیں بلکہ دنیا سے چلی گئی ۔
اﷲ ان کے درجات بلند فرمائیں اور لواحقین کو صبر عطا فرمائیں۔ (آمین)
(تحریر : حمزہ مصطفی )
|