نوازلیگ کے احسن اقبال نے تحریکِ انصاف کی کارکرردگی
پر بات کرتے ہوئے کہا کہ30 حکومتی دنوں میں 30 لطیفے ہوئے ہیں۔ جواباََ
تحریکِ انصاف کے عثمان ڈار نے کہاکہ ابھی 30 دِن پورے کہاں ہوئے، صرف 29
دِن ہوئے ہیں۔ ہم نے جب حکومتی کارکردگی پر ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ 30
لطیفوں والی بات بالکل غلط ہے۔ اگر حکومتی کارکردگی کو مدِنظر رکھا جائے تو
فی دِن اوسطاََ کم از کم تین لطیفے تو ضرور بنتے ہیں۔ اِس حساب سے ’’لطیفوں‘‘
کی تعداد 90 بنتی ہے ، 30 نہیں۔ ابھی کپتان صاحب کے 100 دنوں میں سے 70 دن
باقی ہیں، اُمیدِ واثق ہے کہ یہ مدت پوری ہونے پر لطائف کی ایک کتاب تو
مرتب ہو ہی جائے گی۔ یہ بھی یقین کہ یہ کتاب ’’بیسٹ سَیلر‘‘ ہوگی کیونکہ
سونامیے اپنی حکومت کی کارکردگی سے محظوظ ہونے کے لیے اِسے دھڑا دھڑ خریدیں
گے۔ ابھی تو ابتدائے عشق ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ حقیقت یہی کہ
تحریکِِ انصاف ابھی حکومت کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔ نیا پاکستان بنانے
اور تبدیلی کے دعوے تو بہت تھے لیکن کڑوا سچ یہی کہ
اُن کو بھی اپنی دشت نوردی کا زعم ہے
وہ لوگ جن کے پاؤں کو تنکا نہیں چھوا
وزیرِاعظم عمران خاں کرکٹ کے میدانوں کے شہسوار ضرور لیکن اُنہیں حکومت کا
تجربہ ہر گز نہیں۔ اﷲ تعالےٰ نے اُنہیں 2013ء کے انتخابات کے بعد ایک موقع
دیا، خیبر پختونخوا کی حکومت اُن کے حصے میں آئی۔ اگر وہ چاہتے تو
خیبرپختونخو میں بیٹھ کر بہت کچھ سیکھ سکتے تھے لیکن اُنہوں نے یہ موقع
دھرنوں اور احتجاجی تحریکوں کی نظر کر دیا۔ ڈھلتی عمر سے خوفزدہ کپتان اِسی
طریقے سے مسندِ اقتدار تک پہنچنا چاہتے تھے لیکن وہ بری طرح ناکام ہوئے
کیونکہ امپائر ابھی انگلی اُٹھانے کو تیار نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہیں
جب حقِ حکمرانی عنایت ہوا تو وہ بوکھلاہٹوں کا شکار ہو گئے اور نت نئے
لطیفے سامنے آنے لگے۔
پتہ نہیں معاشیات کے کس ارسطو نے اُنہیں مشورہ دیا کہ سب سے پہلے وہ
وزیرِاعظم ہاؤس کی گاڑیاں اور بھینسیں نیلام کریں۔ کہا گیا کہ ’’ایک پنتھ،
دو کاج‘‘ کے مصداق پیسہ بھی اکٹھا ہو جائے گا اور قوم سادگی پر واہ ، واہ
بھی کر اُٹھے گی۔ ٹوٹی پھوٹی کچھ گاڑیاں تو فروخت ہو گئیں لیکن بی ایم
ڈبلیو، بُلٹ پروف اوربم پروف گاڑیوں کی طرف کسی نے آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں
دیکھا۔ شاید صاحبِ ثروت لوگ خوفزدہ ہو گئے ہوں کہ اگر یہ گاڑیاں خرید لیں
تو ’’بابارحمت‘‘ عدل کی تلوار سونت کر اُن کے پیچھے پڑ جائے گا کہ ’’دَس اے
پیسے کِتھوں آئے‘‘؟۔ سندھ کے وزیرِاعلیٰ مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ اُن کے
پاس بھی ایسی تین ،چار گاڑیاں ہیں ،اگر کوئی خریدنا چاہے تو بسم اﷲ۔ اُنہوں
نے یہ بھی کہا کہ اب حکومت بھینسیں بیچنے جا رہی ہے حالانکہ اُن کا دودھ
بیچنے میں زیادہ فائدہ ہے کیونکہ دودھ کی فروخت سے چار پانچ سالوں میں
بھینسوں کی قیمت بھی نکل آئے گی اور بھینسیں بھی بچ رہیں گی۔
ہمارے خیال میں سید مراد علی شاہ نے بھی احسن اقبال کی طرح غلط حساب لگایا
ہے۔ اگر حکومت دودھ کی فروخت پر آمادہ ہو جائے تو پھر اگلے پانچ سالوں میں
وزیرِاعظم ہاؤس میں بھینسیں ہی بھینسیں نظر آئیں گی کیونکہ بھینسیں ’’کم
بچے ، خوشحال گھرانہ ‘‘ کی قائل نہیں ہوتیں۔ مرادعلی شاہ نے یہ کہہ کر
حکومت کو ڈرانے کی کوشش کی ہے کہ اگر بھینسیں کم قیمت پر فروخت کی گئیں تو
نیب لَٹھ لے کر اُن کے پیچھے پڑ جائے گی، اِس لیے بہتر ہے کہ حکومت دودھ ہی
فروخت کرے۔ ہم بھی اِسی سلسلے میں حکمرانوں کو ڈرتے ڈرتے ایک مشورہ دینا
چاہتے ہیں، ’’گَر قبول اُفتد، زہے عز وشرف‘‘۔ ہمارا مشورہ ہے کہ حکومت
وزیرِاعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کی بجائے ’’ڈیری فارم‘‘ کھول لے کیونکہ
اور کچھ نہیں تو عوام کو کم از کم خالص دودھ تو مل سکے گا۔ اگر یہی تجربہ
چاروں گورنر ہاؤسز میں بھی کیا جائے تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں آئی
ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت رہے گی نہ کشکولِ گدائی اُٹھانے کی۔
ایک لطیفہ بلکہ ’’ہَتھ‘‘ ہم پنجابیوں کے ساتھ یہ ہوا کہ ہم پر عثمان بزدار
کو مسلط کر دیا گیا۔ یہ صاحب لیّہ سے تشریف لائے ہیں۔ اُنہوں نے وزارتِ
اعلیٰ کا حلف اُٹھاتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے خاندان کو حکومتی
جہاز پر بٹھایا اور سیر کو نکل گئے۔ جہاز سے اُترے تو ہیلی کاپٹرمیں جا
بیٹھے۔ ہیلی کاپٹر میں میاں چنوں کی سیر کرتے، اپنے دوستوں اور رشتے داروں
سے ملتے پاکپتن جا پہنچے۔ پاکپتن میں وزیرِاعلیٰ کے راستے کی تمام سڑکیں
اور دکانیں بند کر دی گئیں جس پر عوام نے شدید احتجاج کیا۔ ڈی پی او پاکپتن
رضوان گوندل کا قصّہ تو سبھی کو یاد ہو گا جس پر ’’بابا رحمت‘‘ کو اَزخود
نوٹس لینا پڑا۔چیف جسٹس صاحب نے آئی جی پنجاب سے سوال کیا کہ اُس کے ماتحت
آرپی او ساہیوال اور ڈی پی او پاکپتن وزیرِاعلیٰ ہاؤس کیوں گئے؟۔ آئی جی
صاحب نے جواب دیا کہ وہ اُن کی اجازت کے بغیر وزیرِاعلیٰ کے براہِ راست حکم
پر وہاں گئے۔ جس پر عثمان بزدار کو فوری طور پر سپریم کورٹ حاضر ہونے کا
حکم دیا گیا۔ وہاں پہنچنے پر چیف جسٹس صاحب نے فرمایا کہ اگر وزیرِاعلیٰ کو
آئین وقانون کا پتہ نہیں تو اُن کے ساتھ ایک وکیل کی ڈیوٹی لگا دیتے ہیں۔
وزیرِاعلیٰ صاحب کی معافی مانگنے کے بعدسپریم کورٹ سے جان چھوٹی تو صحافیوں
نے گھیر لیا،جہاں وہ آئیں، بائیں، شائیں ہی کرتے رہے۔ ایک وکیل اپنے مُنہ
پر ہاتھ رکھ کر اُنہیں صحافیوں کے سوالوں کے جواب بتانے کی کوشش کرتا رہا
لیکن بے سود کیونکہ بزدار صاحب کے تو ہاتھوں کے طوطے اُڑے ہوئے تھے۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے ایسا وزیرِاعلیٰ بنانے میں کپتان صاحب کی کیا
حکمت پوشیدہ تھی، یہ وہی جانیں۔
لطیفے تو اور بھی کئی لیکن کالم کا دامن تنگ البتہ یہ طے کہ حکمران جماعت
اپنے دعووں سے یکسر اُلٹ نظر آرہی ہے۔ عوامی خدمت اور غریبوں کی مدد کی
دعویدار حکومت کے سارے دعوے اُس وقت دھرے کے دھرے رہ گئے جب منی بجٹ پیش
ہوا۔ کہا تو یہ جا رہا تھا کہ پہلے سو دنوں میں ہی عوام کے دِن بدل جائیں
گے اور اُنہیں مراعات سے مالامال کر دیا جائے گا۔ وزیرِخزانہ اسد عمر تو
انتخابات سے پہلے اپنی گفتگو میں لمبی لمبی چھوڑتے رہتے تھے لیکن جو منی
بجٹ اُنہوں نے پیش کیا، اُس کا ’’سیاپا‘‘ تو گھر گھر اور دَر دَر ۔ اپنی
انتخابی مہم کے دوران لمبے چوڑے دعوے، دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے کے
وعدے کرنے والے اسد عمر نے بجٹ میں مہنگائی کا ایسا بم گرایا کہ عوام کی
چیخیں نکل گئیں۔ آنے والے دنوں میں قوم کو ناقابلِ یقین مہنگائی کے لیے
تیار رہنا چاہیے۔ یہ تو حکومتی تیس دنوں کی کارکردگی ہے، پتہ نہیں سو دنوں
میں کیا ہوگا اور بات کہاں سے کہاں تک جا پہنچے گی۔
|