قضائے حاجت کے وقت سر ڈھکنے کا حکم

عصر حاضر کے حمام میں کافی سہولیات ہوتی ہیں ، پردے کا بھی معقول انتظام ہوتا ہے ایسے حمام میں ننگے ہوکر نہانا جائز ہے تاہم ستر کے ساتھ غسل کرناافضل ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنَّ اللهَ عزَّ وجلَّ سِتِّيرٌ، فإذا أَرادَ أَحدُكُم أن يَغتَسِلَ، فلْيَتوارَ بِشيءٍ.(صحيح النسائي:405)
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالیٰ بہت پردے والا ہے, جب تم میں سے کوئی غسل کرنے کا ارادہ کرے تو کسی چیز کی اوٹ میں چھپ جائے۔
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم حمام میں ننگے نہیں نہا سکتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ نہاتے وقت اوٹ یا آڑ بنالے تاکہ لوگوں کی نظرو ں سے چھپ جائے اور کمرے کی شکل میں بنے حمام تو مکمل پردہ ہے ۔ حضرت ایوب علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کا ننگے ہوکر نہانا صحیح حدیثوں سے ثابت ہے ۔
یہاں جو اصل مسئلہ بیان کرنا ہے وہ بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت سر ڈھکنے کا ہے ۔ کیا شریعت میں ایسی کوئی دلیل ہے جس سے پتہ چلے کہ بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت سر ڈ ھک لینا چاہئے ۔ چنانچہ امام بیہقی السنن الکبری میں باب تغطیۃ الراس عند دخول الخلاء کے تحت دو مرفوع احادیث ذکر کئے ہیں ۔
پہلی حدیث : ( أخبرنا ) عبد الخالق بن علي المؤذن ، أنا أبو أحمد بن حمدان الصيرفي ، نا محمد بن يونس القرشي ، ثنا خالد بن عبد الرحمن ، عن سفيان الثوري ، عن هشام بن عروة ، عن أبيه ، عن عائشة قالت : كان النبي - صلى الله عليه وسلم - إذا دخل الخلاء غطى رأسه ، وإذا أتى أهله ، غطى رأسه .
ترجمہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے رو سر کو ڈھک لیتے اور جب بیوی کے پاس آتے تو سر کو ڈھک لیتے ۔
اس حدیث کی سند آپ کے سامنے ہے اس میں ایک راوی محمد بن یونس ہیں ان پر حدیث گھڑنے کا الزام ہے جس کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے ۔
٭ ابن عدی نے کہا کہ اس میں ابوالعباس الکدیمی ہے جس کے متعلق حدیث گھڑنے اور چوری کرنے کا الزام ہے ۔ (الكامل في الضعفاء:7/555 )
* علامہ نووی ؒ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ۔(المجموع: 2/93 و الخلاصۃ : 1/149)
٭ شیخ البانی نے بھی ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة:4192)
دوسری حدیث : ( أخبرنا ) أبو عبد الله الحافظ إجازة ، أنا أبو بكر أحمد بن إسحاق الصبغي ، أنا إسماعيل بن قتيبة ، نا يحيى بن يحيى ، أنا إسماعيل بن عياش ، عن أبي بكر بن عبد الله ، عن حبيب بن صالح قال : كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إذا دخل الخلاء ، لبس حذاءه ، وغطى رأسه .
ترجمہ: حبیب بن صالح بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بیت الخلاء جاتے تو جوتا پہن لیتے اور اپنے سر کو ڈھک لیتے ۔
اس روایت کو ذکر کرنے سے پہلے ہی بیہقی نے کہہ دیا کہ حبیب بن صالح کی روایت مرسل ہے اور مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے ۔
٭ ابن دقیق العید نے اس روایت کو مرسل کہا ہے ۔ (الامام : 2/468)
٭ ذہبی نے اس روایت کو مرسل اور ابوبکر کو ضعیف کہا ہے ۔ (المہذب:1/104)
٭ شیخ البانی نے اس ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة:4192)
بیہقی کی ان دو مرفوع روایات کا حال ہمیں معلوم ہوگیا کہ یہ دونوں ضعیف ہیں اس لئے ان سے دلیل نہیں پکڑی جائے گی ۔ بیہقی نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ابوبکر صدیق سے ایک روایت مروی ہے وہ صحیح ہے ۔ وہ روایت مجھے مصنف ابن ابی شیبہ میں ملی ، میں اسے احمد بن حنبل ؒ کی الزہد کے حوالے سے نقل کرتا ہوں ۔
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ : " يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ ، اسْتَحْيُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لأَظَلُّ حِينَ أَذْهَبُ إِلَى الْغَائِطِ فِي الْفَضَاءِ مُغَطِّيًا رَأْسِي اسْتِحْيَاءً مِنْ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ " .(الزهد لأحمد بن حنبل » رقم الحديث: 766)
ترجمہ: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خطبہ کی حالت میں فرمایا: اے مسلمانوں کی جماعت! اللہ تعالی سے حیا کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، میں جب فضا میں قضائے حاجت کرنے جاتا ہوں تو اپنے رب سے حیا کرتے ہوئے سر کو ڈھک کر سایہ کرتا ہوں ۔
یہ موقوف روایت ہے یعنی صحابی کا عمل ہے اور اس کی سند میں سارے رواۃ ثقہ ہیں اس وجہ سے یہ اثر صحیح ہے ۔ اور بھی اسلاف سے بیت الخلاء جاتے وقت سر ڈھکنے کا ذکر ملتا ہے جیسے مصنف ہی میں ابن طاوس سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میرے والد نے مجھے حکم دیا کہ جب بیت الخلاء جاؤ تو سر ڈھک لو میں نے پوچھا ایسا کیوں ؟ تو انہوں نے کہا پتہ نہیں ۔
اسلاف کے آثار کی وجہ سے فقہاء نے بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت سر ڈھکنے کو مستحب قرار دیا ہے مگر یہاں میرا اعتراض ہے کہ کسی عمل کو بغیرشرعی نص کے مستحب قرار دینا محل نظر ہے ۔ اس سلسلے میں نہ تو اللہ کا فرمان ہے اور نہ ہی رسول اللہ سے کوئی مرفوع حدیث ثابت ہے ۔ہاں کوئی صحابی رسول ، خلیفہ المسلمین سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی اقتداء کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن کسی کا یہ کہنا سر کھولے بغیر حمام نہیں جاسکتے سو فیصد غلط ہے ۔ جب ہم ننگے سر نماز پڑھ سکتے ہیں ، جماع کے وقت ننگا ہوسکتے ہیں ، ننگے ہوکر حمام میں غسل کرسکتے ہیں ، ضرورت پڑے تو اکیلے میں بھی ننگا ہوسکتے ہیں تو سر کھولنے میں کیا حرج ہے ، سر تو مردوں کے لئے پردہ میں داخل نہیں ہے ۔

 

Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 320 Articles with 350299 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.