تاریخ عالم کا دامن قربانیوں اور ثابت قدمی کی لازوال
ایمان افروز داستانوں سے بھرا پڑا ہے ۔ حضرت موسی کو دربار فرعون سے کس کس
طرح کی اذیت اور اہانت کا سامنا نہیں کرنا پڑا مگر آپ کے پائے استقامت کو
ذرہ بھی جنبش نہ ہوئی ۔ حضر ت زکریا آرے سے چیر ڈالے گئے مگر کوئی قوت ان
کے ایمان میں شگاف ڈالنے میں کامیاب نہ ہوسکی ۔حضر ت الیاس جلا وطن کر دئیے
گئے ۔ حضرت یحیی کو بادشاہ نے بھرے دربار میں تہمت لگائی ۔ تہمت کی شدت
اپنی جگہ مگر عقیدے کی صداقت پر آنچ نہ آنے دی حضرت عیسی نے جس بیمار کو
ٹھیک کیا وہی آپ کا مخالف بنا اور آپ پر تشدد کی انتہا کر دی ۔ پھر چشم فلک
نے خلیل اﷲ حضرت ابراہیم کو حیرت سے دیکھا حضرت ابراہیم کو کس کس مرحلے سے
نہیں گزرنا پڑا ۔ ترکِ وطن ، ترکِ مال ، ترکِ اولا د، ترکِ جان زرخیز زمین
چھوڑ کر مکے کی بے آب و گیاہ میں بخوشی منتقل ہو گئے خاندان اور نمرود کی
دھمکیوں کو نظر انداز کر کے عقیدہ توحید پر قائم رہے آگ کا الاو ان کے لیے
تیار ہو گیا ، جب آگ میں پھینکا جانے لگا تو حضرت جبرائیل نے آکر کہا ۔ اﷲ
سے کوئی دعا یا درخواست کرنی ہے تو میں حاضر ہوں جب موت ایک لمحے کے فاصلے
پر تھی تو خلیل اﷲ بولے میرا اﷲ مجھ سے زیادہ میرے حال سے واقف ہے اور آگ
میں کود گئے اور پھر ایک الہامی اشارے پر اپنے بڑھاپے کے اکلوتے بیٹے حضرت
اسماعیل کی گردن پر چھری پھیر دی اور پھر 10 محرم 61ہجری کو تاریخ عالم کی
سب سے بڑی قربانی اور ثابت قدمی ترازو کے ایک پلڑے میں آج تک کی تمام
قربانیاں رکھ دی جائیں اور دوسرے پلڑے میں نواسہ رسول ﷺ کی قربانی عظیم تو
نواسہ رسول ﷺ کا پلڑا بھاری ہو گا ۔ 10محرم 61ہجری سے پہلے بھی 10محرم
مختلف حوالوں جانا پہچانا جاتا تھا ۔ مثلا اﷲ تعالی نے چاند تارے سورج عرش
کرسی اور جنت زمین کو 10 محرم کو تخلیق کیا ۔ ہمارے ماں باپ حضرت آدم اور
حوانے 10محرم کو آنکھ کھولی ۔ حضرت ابراہیم پیدا ہوئے اِسی دن حضرت ابراہیم
کو آتش نمرود سے نجات ملی ۔اِسی دن فرعون کا لشکر غرق ہوا۔حضرت موسی کو فتح
ملی ۔ حضرت یونس مچھلی کے پیٹ سے بر آمد ہوئے ۔ حضرت یوسف کو کنوئیں سے
نکالا گیا ۔ اِسی دن حضرت یعقوب کو بینائی لوٹائی گئی ۔ حضرت عیسی پیدا
ہوئے ۔ اور اِسی دن حضرت عیسی کو زندہ دنیا سے اٹھا یا گیا ۔پہلی بارش بھی
دس محرم کو ہوئی غرض بڑے بڑے فیصلے اور واقعات 10محرم کو ہوئے ۔اور پھر
10محرم 61ہجری کو امام حسین کی شہادت کے بعد تما م حوالے بدل گئے مدھم پڑ
گئے ۔ آج کربلا کی شہرت ایک انمٹ تاریخی حیثیت اختیار کر گئی ہے ۔ ربِ
ذولجلال نے امام حسین کو شہادت کا ایسا تاج ِ شاہی پہنایا ہے کہ جسے قیامت
تک اندیشہ زوال نہیں ہو گا ۔ پوری انسانی تاریخ میں امام جیسا کوئی نہیں ہے
۔ امام حسین اور آپ کے ساتھی میدان کربلا میں اس طرح لڑے کہ آپ کی شجاعت کے
آگے سر فروشی کے تمام افسانے دھندلے پڑ گئے ۔ یزیدی لشکر نے انسانی حدود سے
نکل کر وحشت و درندگی اور سفاکی کے وہ مظاہرے کئے کہ ان کے آگے درندوں کی
خون آشامی بھی ہیچ تھی ۔ یزیدی لشکر کے تر کشِ ستم میں جتنے بھی زہریلے تیر
تھے سب کے سب امام اور آپ کے ساتھیوں کے سینوں میں بے دردی دے اتار دئیے
گئے ۔گستاخی اور بے ادبی کے بے شما ر حربے آزمائے گئے ۔ یزید اور اس کے
حواریوں نے اپنے نامہ اعمال سیاہ کر ڈالے ۔ لیکن نواسہ رسول ؓ کے پائے
استقامت میں زرہ بھی جنبش نہ ہوئی ۔ نواسہ رسول ؓ جو اسلام کے نظریے فکر
اور فلسفے کے امام تھے انہوں نے اسلام کی اصل روح پر عمل کرتے ہوئے یزیدی
آمریت کے خلاف حق کا علم بلند کر دیا۔ امام نے ثابت کر دیا کہ دنیاوی
کامیابی کی کوئی اہمیت نہیں ہے امام نے اقوام ِ عالم کا سمجھایا کہ وہ ہر
شکست وقتی اور ہر فتح عارضی ہوتی ہے دنیا میں حق اور سچ کو مستقل حیثیت
حاصل ہے ۔ آپ نے بتایا کہ ہر حال میں حق کا ساتھ دو اور باطل سے ٹکراجا ۔
امام کا کردار قرآن و حدیث کے احکام کی عملی تفسیر ہے ماضی حال کے تمام
مورخین نے آپ کو شہدا کا امام کہہ کر پکارا اور مستقبل پر بھی آپ ہی کی
گرفت رہے گی ۔ اگر تمام کائنات مل کر بھی نواسہ رسول ؓ کی مدح و ثنا کرے تو
حشر تک آپ کی سیرت کا بیان ختم نہ ہو گا ۔ زبانیں عاجز رہ جائیں گی اور
لفظوں کا ذخیرہ اپنی تنگ دامنی پر شرمسار ہو جائیگا ۔ تاریخ اپنی تمام تو
مصلحتوں کے باوجود اِس بات پر گواہ ہے کہ امام کے مقام کو نہ کبھی گہن لگا
اور نہ لگے گا ۔ خدا کی قسم چشم ِ فلک اور انسانی آنکھ نے آپ جیسا کوئی نہ
دیکھا اور نہ دیکھ پائے گی ۔ صفات ِ عالیہ کا اِتنا بھر پور اجتماع ہزاروں
سال بعد کسی میں نظر آتا ہے جو امام میں نظر آیا ۔ ساری کائنات آپ کے جانے
سے تہی دست ہو گئی ۔ امام اور آپ کے ساتھیوں نے جس جرات بے باکی اور جذبے
سے یزیدی لشکر کا مقابلہ کیا اِس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی ۔ کربلا
کے روشن واقعات کو صدیوں کا غبار بھی دھندلا نہ کر سکا ۔ امام نے کربلا میں
بے مثال قوت ، برداشت اور جرات کا مظاہرہ کیا صدیوں سے روز و شب کے ہنگامے
اِسی طرح جاری و ساری ہیں زمین اِسی طرح اپنے محور پر گھومتی رہے گی ۔ لیکن
جب بھی یومِ عاشورہ آئے گا تو ہر آنکھ اشکبار ہو جائے گی ۔ ہر آنکھ اور
پیشانی عقیدت سے سجدہ ریز ہو جائے گی ۔ جب بھی کربلا کا زکر ہو تا ہے تو
سنگ و آہن بھی رقیق شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔ فرطِ عقیدت سے ہر آنکھ اشکبار
ہو جاتی ہے یومِ عاشورہ کے دن آسمان سے اداسیوں کی بارش ہوتی ہے ساری
کائنات ایک سرے سے دوسرے سرے تک سوگوار ہو جاتی ہے غمِ حسین میں ہر شے
ماتمی لباس پہن لیتی ہے ۔ زمین و آسمان کے منہ سے آہیں ابل پڑتی ہیں دس
محرم انسانی کیلنڈر کا واحد دن جب خاک کے زرے درختوں کے پتے اور سمندروں کے
قطرے اداس ہو جاتے ہیں ۔ جب ہوائیں ، فضائیں کرنیں ، لہریں، اداسی کا ماتمی
لباس پہن لیتی ہیں پوری کائنات میں شام غریباں بچھ جاتی ہے ۔ اب یہ دن صرف
اور صرف امام حسین کا دن ہے ۔ 10محرم 61ہجری کو دو انسانوں کامقابلہ نہیں
تھا یہ دو نظریات کا ٹکرا تھا دنیا میں روزِ اول سے نیکی اور شر کی جنگ
جاری ہے ۔ دنیا میں جب بھی ظلم اور باطل کی قوتیں سر اٹھائیں گی تو نیکی کی
قوتیں بھی حرکت میں آئیں گی برائی اور ظلم کی علمبردار یزیدی قوتیں اچھائی
اور نیکی کی علمبردار حسینی قوتیں بر سر پیکار ہونگیں ۔آخری جیت ہمیشہ حق
اور سچ کی ہو گی امام حسین نے باطل کے مقابلے پر اکیلے کھڑے ہو کر قیامت تک
کے مظلوموں کو حوصلہ اور کفر سے ٹکرانے کا حواصلہ دیا ہے اگر کربلا میں
نواسہ رسول یزیدی لشکر کے سامنے کھڑے نہ ہوتے تو قیامت تک کسی مظلوم نے
ظالم کے خلاف کھڑا نہیں ہو نا تھا ۔ امام حسین نے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی
ایک عظیم مثال قائم کی ظلم سے ٹکرانے کا حوصلہ اور راستہ دکھایا ۔آج جب وطن
عزیز میں ظلم و بربریت کا ناسور پھیل چکا ہے ظالم مظلوموں پر ظلم کر رہے
ہیں تو کوئی بھی نہیں جو ظالموں کا ہاتھ روک سکے ۔ غزہ میں بار بار اکسیویں
صدی کا کربلا برپا ہو تا ہے ۔ اسرائیل کے جنگی جہاز میزائلوں اور بموں کی
برسات کر رہے ہیں ۔ اسرائیلی ٹینک معصوم بچوں اور عورتوں تک کا قیمہ سرِ
عام بناتے ہیں معصوم بچوں پر گولیاں برسائی جاتیں ہیں تمام غیر مسلم سپر
پاورز اسرائیلی مظالم پر تالیاں بجاتے ہیں اور اسرائیلی جارحیت کو حق بجانب
قرار دیتے ہیں تو تمام اسلامی ممالک مصلحتوں کا شکار ہو کر مجرمانہ خاموشی
اختیار کر لیتے ہیں آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں یا چند کمزور بیانات دے کر
اپنا حق ادا کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔ آج جب غزہ کی گلیوں میں سینکڑوں
معصوم بچوں اور عفت ماب لڑکیوں اور بوڑھوں کمزوروں کی نعشیں بے یارو مدد
گار نظر آتی ہیں اور فلسطینی یااﷲ مدد یا رسول اﷲ ؓ مدد کے نعرے مار رہے
ہیں تو غزہ کے گرد 22اسلامی ممالک اور دنیا میں باقی عالم اسلام مجرمانہ
خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ عالم اسلام کی مجرمانہ خاموشی پر اہل کوفہ کی
خاموشی یاد آتی ہے ۔ جب شہدا کربلا کا مظلوم قافلہ جب یزید کے دربار میں لے
جایا جا رہا تھا جب امام کا سر مبارک شمر نے نیزے پر ٹانک دیا تھا ۔ وہ
بیبیاں جن کو سورج چاندستاروں نے بھی برھنہ سر نہ دیکھا تھا جب ننگے سر
ننگے پا ں جلتے ہوئے خیموں سے نکلیں تو اہلِ کوفہ جشن منا رہے تھے ۔ اپنے
گھروں میں دھوئیں اڑا رہے تھے ۔ کیا آج عالم اسلام اور ہماری خاموشی اہل
کوفہ جیسی نہیں ہے کیا ہم فکر حسین کے وارث ہیں یا شمر کے نظریاتی بھائی ۔
آج جب اخبار میں غزہ کے مظلوموں کی تصاویریں یا خبر سامنے آتی ہے تو ہم
اگلی خبر کی طرف بڑھ جاتے ہیں TVپر غزہ کے مظلوموں کو دیکھ کر چینل بدل
دیتے ہیں یا کروٹ بدل لیتے ہیں ۔ اے امام ہم تجھ سے شرمندہ ہیں ۔ہم آج بھی
یزیدی نظریے کا ساتھ دیتے ہیں ہم آج بھی مصلحتوں کا شکار ہیں ۔ اے امام ہم
آپ سے شرمندہ ہیں ۔
|