کیا مسلم لیگ ن پھر سے مقبول جماعت بن سکے گی ؟

 نواز شریف ‘ مریم نواز اور محمد صفدر اڈیالہ جیل سے رہا ہوکر جاتی عمرہ پہنچ چکے ۔بظاہر یہ عارضی ریلیف ہے لیکن جس طرح جج صاحبان اور نیب کے پراسیکیوٹرجنرل کے مابین بحث و تمحیص چل رہی ہے اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ شریف فیملی نہ صرف بری ہوجائے گی بلکہ ان کے سروں پر نااہلیت کی لٹکتی ہوئی تلوار بھی اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔ فیصلہ سنتے ہی لیگی کارکن خوشی مناتے سڑکوں پر نکل آئے اور خوب مٹھائیاں تقسیم ہوئیں بلکہ نواز شریف کی جیل سے رہائی ‘ ائیرپورٹ تک رسائی اور لاہور میں جاتی عمرہ تک پہنچنے کے دوران جس والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیاگیا اسے دیکھ کر یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مسلم لیگ ن ایک بار پھر مقبول ترین سیاسی جماعت بن جائے گی ۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ نواز شریف جیسا کوئی لیڈر ن لیگ میں موجود نہیں ‘جو اپنی بہترین حکمت عملی کی بنا پر چاروں صوبوں کے عوام کو اپنی مٹھی میں بند کرسکے ۔ کچھ لوگوں کو گمان تھا کہ شہباز شریف یہ خلا پورا کرلیں گے لیکن قومی الیکشن میں ان کی کارکردگی نہ ہونے کی برابر تھی جس کی وجہ سے ن لیگ ‘ بلوچستان ‘ سندھ اور خیبرپختون خواہ سے سمٹ کر پنجاب تک کچھ اس طرح محدود ہوگئی کہ پنجاب میں بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ آسکی اور اب اپوزیشن نشستوں پر براجمان ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں سیاست شخصیات کے گرد ہی گھومتی ہے ‘ بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی پیپلز پارٹی کی سیاست ان کے حصار سے نہیں نکل سکی ۔ جب بھی الیکشن کا بگل بجتا ہے تو پیپلز پارٹی کے امیدوار بھٹو کی تصویریں اپنے بینرز پر آویزوں کرکے سادہ لوح سندھیوں سے ووٹ تو لے لیتے ہیں لیکن انکے مسائل کبھی حل نہیں کرتے ۔ نواز شریف کا تقابل بھٹو سے ہرگز نہیں کیاجاسکتا کیونکہ بھٹو نے نہ صرف اپنے ہی کارکنوں اور لیڈروں کو مشق ستم بنا ئے رکھا بلکہ اپوزیشن جماعتوں (جن میں مولانا مودودی ‘ مفتی محمود جیسی شخصیات شامل تھیں) کو شاہی قلعے کے ٹارچر سیل میں نہ قابل یقین سزائیں دیں ۔ بھٹو کے برعکس نواز شریف ایک سلجھا ہوا سیاست دان ہے اس نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی بدترین سیاسی مخالفت ‘دشنام طرازی کا نہایت تحمل مزاجی سے سامناکیا ‘ بالاخر انہی کے بچھائے ہوئے سازشوں کے جال میں پھنس کر پہلے وزارت عظمی سے ہاتھ دھویا پھر جب نیب عدالت کی جانب سے ایک مفروضے پر انہیں دس سال قید بامشقت سنا دی گئی ۔ اس وقت وہ انگلینڈ میں اپنی بیمار اہلیہ کے پاس تھے وہ رک بھی سکتے تھے ان کے پاس ایک معقول بہانہ بھی تھا لیکن انہوں نے بزدلی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے شیروں کی طرح پاکستان پہنچ کر خود گرفتاری دی۔اس لمحے میں خود حیران تھا کہ 65 سال کی عمرکے شخص کو دس سال قید ہوئی ہواور وہ رضامندی کے ساتھ خود جیل جانے اور وہاں کی اذیتوں کو برداشت کرنے پر آمادہ کیسے ہوگیا ۔نواز شریف سلجھے ہوئے امیر خاندان کے چشم و چراغ ہیں ان کا خاندان اس وقت بھی بین الاقوامی تجارت میں معتبر تھا جب پاکستان میں ابھی چند صنعتیں موجود تھیں۔ شریف خاندان ‘ محنت ‘ دیانت اور وفاداری کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے ‘ ان کے والد نے محنت کرنا تو سیکھا ‘کسی کو دھوکہ دینا ان کی لغت میں شامل نہیں ۔بہرکیف ساری دنیا نے دیکھا کہ نوازشریف اپنی بیٹی کے ساتھ لاہور پہنچے اور انہیں جہاز میں ہی گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیاگیا ۔ جہاں انہیں 66 دنوں کے بعداس وقت وقتی ر ہائی ملی ‘جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کو معطل کرکے رہائی کاحکم دیا ۔اس پر ایک تاثر یہ بھی ابھرتا ہے کہ شاید نواز شریف کو دانستہ جیل میں بند کرکے عمران خان کے لیے میدان کھلا رکھاگیا تھا ۔ آصف علی زرداری چونکہ بے پناہ کرپشن کرکے اپنی قبر میں خود ہی اتر چکے ہیں اس لیے مقتدر حلقوں کو پیپلز پارٹی سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ صرف ان کی حریف جماعت مسلم لیگ ن ہی تھی جس کے قائد کو نظروں سے اوجھل کرکے خوف و ہراس کی ایسی فضا قائم کی گئی کہ ٹکٹ ملنے کے باوجود امیدواروں نے ن لیگ کے پلیٹ فارم پر الیکشن لڑا نا ضروری نہیں سمجھا ۔پہلے جیپ کانشان متعارف کروایا گیا جب راز کھل گیا تو الیکٹرونکس سسٹم کے فیل ہونے کا بہانہ بنا کر تین دن تک نتائج کو روکے رکھا ۔جب تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی تو نہ صرف حتمی نتائج کا اعلان کردیاگیابلکہ آزادامیدواروں ہانک کر بنی گالہ پہنچادیا گیا ۔ اس طرح مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومتیں بنادی گئیں۔ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا ۔حالات کروٹ بدلتے ہیں تو بادشاہ فقیر اور فقیر بادشاہ بن جاتے ہیں ۔ نواز شریف کو قدرت نے ایک بار پھر موقع فراہم کیا ہے کہ وہ سندھ ‘ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ سمیت پنجاب میں مسلم لیگ ن کی نئے سرے تنظیم نو کریں جو عہدے خالی ہیں وہاں اہل اور وفادار ساتھیوں کو مقرر کیاجائے‘ روٹھے ہوئے لیگی رہنماؤں جن میں چودھری نثار احمد ‘ الہی بخش سومرو ‘ سید غو ث علی شاہ ‘ کھوسہ فیملی چودھری فیملی کو بھی اپنے ساتھ ملاکر ن لیگ کو ایک بار پھر قومی جماعت بنا ئیں اس مقصد کے لیے انہیں ذاتی نگرانی میں پرائمری یونٹوں سے قومی اسمبلی حلقوں تک عہدیدواروں کو خودمنتخب کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے براہ راست رابطہ بھی رکھنا ہوگا ۔ دودھ پینے والے مجنوں کی جگہ مشکل وقت میں ساتھ دینے والے لیگیوں کو آگے بڑھانا ہوگا ۔ن لیگ جو ‘ اس وقت ڈرائنگ روم کی جماعت بن چکی ہے‘ اسے ایک بار پھر عوامی سطح پر منتظم کرنا بے حد ضروری ہے۔ نوا زشریف کو عوام کتنی محبت کرتے ہیں اس کا معمولی مظاہرہ جیل سے رہائی کے بعد نواز شریف خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ۔جہاں تک اس لزام کا تعلق ہے کہ نواز شریف خاندان نے کرپشن کی یا نہیں ۔ اس بارے میں پانامہ کیس کے فیصلے میں بھی تسلیم کیاگیا تھا کہ نواز شریف پر کرپشن کا کوئی الزام سچ ثابت نہیں ہوسکا ۔ یہی بات نیب عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھی تھی لیکن مفروضے پر شریف فیملی کو دس سال قید کی سزا سنادینا معنی خیز دکھائی دیتا ہے ۔ سزامعطل ہوئی ہے ابھی مقدمے کی باقاعدہ سماعت باقی ہے ۔ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ ایک شخص پر کرپشن کا الزام بھی ثابت نہیں ہوتا پھر بھی اسے دس سال سزا سنا دی جاتی ہے ۔ پاکستان میں فیصلے کس قدر مقتدر حلقوں کے دباؤ میں لکھے جاتے ہیں اس کی تصویر نوازشریف کو وزرات عظمی سے ہٹانے ‘ تاحیات نااہل کروانے اور جیل میں قید رکھنے کے فیصلوں میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ نواز شریف بین الاقوامی ویژن کا حامل ایک عظیم لیڈر ہے جس کا ہاتھ ہمیشہ پاکستانی قوم کی نبض پر رہا جس نے اپنی بہترین حکمت عملی سے نہ صرف پاکستان کو مسلمہ ایٹمی طاقت بنایا بلکہ موٹرویز اور انفرسٹرکچر کی تعمیر کرکے پاکستان کو ایسے راستے پر گامزن کیا جس کا خواب قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے دیکھا تھا ۔

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 785121 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.