نواز شریف کی رہائی سے ایک بات تو ثابت ہوچکی ہے کہ نہ تو
کوئی نیا پاکستان بننے جارہا ہے اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں
عوامی طاقت کے بل بوتے پر آئی ہے۔ معاشیات میں ایک بات کہی جاتی ہے کہ "
ایک ملک غریب ہے کیونکہ وہ غریب ہے"۔پاکستان میں اخلاقی دیوالیہ پن کا یہ
عالم ہے کہ انصاف صرف اشرافیہ کے لیے ہے ۔ عام آدمی میں سکت ہی نہیں کہ وہ
انصاف خرید سکے۔پاکستان میں ازل سے ابد تک حکمرانی اسٹیبلشمنٹ کی ہے اور
رہے گی۔ نیا پاکستان اور ایک پاکستان اور سب کا پاکستان سعادت حسن منٹو کے
افسانے " نیاقانونـ" کی مانند ثابت ہوا ۔ یہ علحیدہ بات کہ پاکستان نور ہے
اور نور کو زوال نہیں۔
جس انداز میں قوم کو نوید سُنائی جارہی تھی کہ اب قوم کھڑی ہوچکی ہے قوم کو
ایک باغیرت حکمران میسر آچکا ہے۔ اب سب کے لیے یکساں سماجی و معاشی مواقع
ہوں گے۔لیکن یہ سب کچھ تو چہرئے بدلنے کے لیے تھا۔پرانے ملازم سے جو آنکھیں
دکھانے لگ گیا تھا اُس سے جان چھُڑا کر نیا ملازم پرانی تنخواہ پر ہی رکھ
لیا گیا ہے اور پرانے ملازم کے" باہر " والوں سے تعلقات اتنے مضبوط ہیں اور
وہ اُن کے لیے اتنا کارآمد ہے کہ " باہر والوں " نے اپنے خیر خواہ کو تنہا
نہیں چھوڑا۔ عدالت ِ عالیہ نے ایسا دھوبی پٹکا مارا کہ انصاف کا ترازو ایک
طرف جھکا دیا گیا۔ کہاں کا نیا پاکستان کہاں کی ترقی ، کہاں کا انصاف کہاں
کا ایک پاکستان۔ پُرانے پاکستان کی خاتون اول کی وفات پر تعزیت کے لیے چین
ترکی سعودی عرب اور قطر کے سفیروں نے نئے پاکستان کے معمار کو بتا دیا کہ
آٹے اور دال کا بھاؤکیا ہے۔نئے پاکستان کے معمار کو فرما نروا بننے کا اتنا
شوق تھا کہ اُس نے ہر بات" اوپر والوں" کی ماننے کی قسم کھاء رکھی ہے۔ نئے
پاکستان کے تیس دن مکمل ہونے پر قوم کو سوئی گیس بجلی کی قیمتوں میں اضافے
کی وعیدسُنائی جاچکی ہے اور متعلقہ وزیر موصوف جو اقتدار میں آنے سے پہلے
پاکستان میں دودھ کی نہریں بہانے کا گلہ پھاڑ پھار کر اعلان کر رہے تھے وہ
اب منی بجٹ بھی لاچکے ہیں اور عوام کو نیا پاکستان بنانے کا مزہ چکھا رہے
ہیں۔خواب جو ٹوٹے تو ہم نے یہ جانا۔لوگ روتے ہیں کس لیے اتنا۔
سی پیک کے پراجیکٹ کے ڈیزائن میں تبدیلی اور اورنج ٹرین کے منصوبے کا
کھٹائی میں پڑ جانا۔وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے ڈی پی او کو ٹرانسفر کیے
جانے کا عمل۔وزیر اطلاعات پنجاب کی زبان درازیاں ، سانحہ ماڈل ٹاون کے
ملزمان کی گرفتاری۔پنجاب کا پولیس کلچر۔ سرکاری دفاترکے ملازمین کا رویہ۔
رشوت اور چور بازاری۔کون کہتا ہے کہ تیس یوم میں ستر سال کے مسائل حل کیے
جائیں۔لیکن نواز شریف کی رہائی نے قوم کو صدمہ میں مبتلا کر دیا ہے۔چوروں
ڈاکوؤں کو لگام دینے کا نعرہ بلند کرکے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ملک کو کس
طرف لے جایا جارہا ہے۔ بجلی گیس پٹرو ل اور ڈیزل کی قیمتوں کا رونارونے
والوں نے خود بھی وہی کچھ کیا جو سابقہ حکومت کا وطیرہ رہا ہے۔ منی بجٹ،
ماہرِ فنانس نے ایسا پیش کیا ہے کہ جن کی چیخیں آج تک نہیں نکلیں تھیں وہ
بھی آہ وپکار کر ہے ہیں۔نیا پاکستان اور ایک پاکستان کی شروعات جس انداز
میں کی گئی ہیں اﷲ پاک رحم کرئے۔نیب زدہ برطانوی شہری لیکن بادشا ہ سلامت
کے انویسٹر کو وزارت مرحمت فرمائی جاچکی ہے ۔
نواز شریف کو غیر ملکی گارنٹیوں کی بناء پر رہا کیا گیا ہے جو کہ بظاہر
ایسا ہی لگتا ہے ورنہ نواز شریف جیسا کُنہ مُشق سیاستدان کبھی ہوائی جہاز
سے لاہور نہ آتا بلکہ رہا ئی کے بعد جی ٹی روڈکا راستہ اختیار کیا جاتا اور
نواز شریف کاکاٹ دار لہجہ خاموشی اختیار نہ کیے رکھتا۔ وقت نے ثابت کیا ہے
کہ ہماری عدلیہ میں جان ہی نہیں ہے۔ انصاف نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ماتحت
عدلیہ اور عدالتِ عالیہ میں صرف تاریخیں ہی ملتی ہیں مقدمات کے فیصلہ جات
نہیں کیے جاتے۔ ایک عام سول کیس تیس سال تک چلتا ہے۔ لیکن ہمارئے چیف جسٹس
صاحب انصاف کی فراہمی کی بجائے دیگر کاموں میں مصروف ہیں۔ چیف جسٹس صاحب
خود ذرا سول کورٹس میں جائیں دیکھیں کیا حال ہے سائلین کا۔ ایک کمزور شخص
کو پنجاب کا وزیر اعلی بنا کر اِس کے گرد چوہدری پرویز الہی ، علیم خان،
چوہدری سرور کا حصار قائم کردیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت کو فٹ بال بنا دیا گیا
ہے۔شہاز شریف دور کے مافیاز دندناتے پھر ر ہے ہیں۔ سعودی عرب سے بھاری
سرمایہ کاری اور سعودی عرب کا سی پیک میں پاکستان کا شراکت دار بننے اچھی
بات ہے۔
موجودہ حکومت کے اب تک کے تیس بتیس دن بتا رہے ہیں کہ موجودہ حکومت نے
حکومت میں آنے سے پہلے کوئی ہوم ورک نہیں کررکھا تھا۔چالاک اور تجربہ کار
بیوروکریسی کو لگام دینا اتنا مشکل لگ رہا ہے کہ یوٹرن ہی یوٹرن ہورہا
ہے۔اِن حالات کی وجہ سے بادل نخواستہ شریف فیملی کی رہائی عمل میں لئی گئی
ہے ۔ ہنوز دہلی دور است۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |