راشٹریہ سیوک سنگھ بلا شک و شبہ ایک فسطائی تنظیم ہے۔
فسطائیت کی مجبوری یہ ہے کہ اس کی بقاء کے لیے ایک دشمن ناگزیر ہوتا ہے۔
حقیقی رقیب موجود نہ ہوتو وہ ایک خیالی دشمن گڑھ لیتی ہے اور اس سے ڈرا کر
ہمنواوں کو اپنے گرد مجتمع کرتی ہے۔ یہحسن اتفاق ہے کہ یہی چیز بالآخر اس
کے فنا کی وجہ بن جاتی ہے اور شاید ایسا ہی کچھ فی الحال آرایس ایس کے
ساتھ ہورہا ہے۔ ہندوتوا کا نظریاتی حریف اسلام ہے مسلمان سنگھیوں کے لیے سب
سے بڑا خطرہ ہیں ۔ امت کی اگر اصلاح ہوجائے اور وہ اپنے قول و عمل سے دین
حنیف کی شہادت دینے لگے تو پھر سے اس ملک کی سعید روحیں ہندوتوا تو دور
ہندومت سے دامن چھڑا کر اسلام کی آغوش میں آنے لگیں گی ۔ اس حقیقت کا
احساس مسلمانوں سے زیادہ اسلام کے حریفوں کو ہے اس لیے وہ نہ صرف دین حنیف
کو بدنام کرنے میں اپنی تمام توانائی صرف کردیتے ہیں بلکہ مسلمانوں کو طرح
طرح کے مسائل الجھاتے رہتےہیں جس کا مقصد حقیقی امت کی تعمیر و اصلاح میں
رکاوٹ پیدا کرنا اور انہیں دعوت دین کے کام سے باز رکھنا ہوتا ہے۔ اپنے
مذہب کے پیروکاروں کو اسلام سے دور رکھنے کے لیے یہ ان کی مجبوری ہے اور یہ
طریقۂ کار فسطائی حکمت عملی سے ہم آہنگ ہے اس لیے اول دن سے سنگھ کے
نشانے پر مسلمان رہے ہیں ۔
گاندھی جی ان قاتلوں نے جب جنتا پارٹی سے الگ ہوکر بی جے پی بنائی تو
گاندھیائی سوشلزم کا نعرہ بلند کردیا، اس سے جب دال نہیں گلی تو تہذیبی قوم
پرستی اورلاینفک انسانیت کا بھجن گانے لگے اور اقتدار کی خاطر رام مندر کی
تحریک چلا دی ۔ اکثریت کے حصول میں ناکامی پر جارج فرنانڈیس جیسے سوشلسٹوں
کو قومی جمہوری محاذ میں شامل کرکے سرکار بنا لی ۔ وزیراعظم نےپاکستان کا
سفر ٹینک کے بجائے بس پر سوار ہوکر کیا ۔ حد تو اس وقت ہوگئی رام رتھ کے
یاتری اڈوانی جی نے پاکستان جاکر قائد اعظم جناح کی تعریف کردی ۔ رام مندر
کے اند کس بل نہیں رہا تو گجرات میں فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے والے نریندر
مودی نے’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کے نعرے کے ساتھ انتخابی مہم چھیڑ دی ۔
دہلی اوربہار کی ہار کے بعد قبرستان اور شمسان میں گھس گئے اور اب قومی
انتخاب میں کامیابی کے لیے ہوا میں ٹامک ٹوئیاں کررہے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی آر ایس ایس کا ہونہار بیٹا ہے۔ اب اگر وہ اس قدر
قلابازیاں کھا سکتا ہے تو سنگھ اس کا باپ ہے۔ ویسے بھی مثل مشہور ہے بندر
بوڑھا ہوجائے تب بھی قلابازی کھانا نہیں چھوڑتا ۔ اس لیے وہ بھی اپناچال ،
چرتر اور چہرہ بدلنے کی سعی کررہا ہے۔ اس مشق کی ابتداء سابق صدر جمہوریہ
کو ناگپور میں دعوت دے کر کی گئی ۔ اس کی دوسری کڑی شکاگو میں عالمی ہندو
کانفرنس کا انعقاد تھا ۔ وہ دراصل ۱۲۵ سال قبل سوامی وویکانند کی قائم کردہ
عالمی مذاہب کانفرنس کو اپنے قبضے میں لینے کی ایک کوشش تھی۔ اس سے قبل
وشوہندو پریشد کی امریکی شاخ نے جب وہاں کانفرنس کا انعقاد کیا تھا تو
وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو دعوت دی تھی لیکن اس بار سنگھ نے مودی جی کو
درکنار کرکےان کے حریفِ ثانی نتن گڈکری کو بلا لیا ۔
مودی جی کے لیے یہ ناقابل برداشت توہین تھی ۔ وزیراعظم نے انہیں تاریخوں
میں بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ اورنیتی آیوگ کا اجلاس رکھوا کر گڈکری کے
پہلے سے طے شدہ منصوبے پر خاک ڈال دی۔ نتن شکاگو کے علاوہ کناڈا اور
اسرائیل بھی جانے والے تھے لیکن وہ شکاگو بھی نہیں پہنچ سکے اس کا بدلہ
بھاگوت نے دہلی کے وگیا ن بھون میں لے لیا ۔ انہوں نے مودی تو درکنار بی جے
پی کے کسی اہم رہنما کو دعوت نہیں دی بلکہ راہل گاندھی اور اکھلیش تک کو
بلایالیا ۔ کانگریس نے تو یہ کہہ کر کنی کاٹ لی کہ ہم اپنی بات رکھنے کے
لیے تو جاسکتے ہیں لیکن ان کا فلسفہ سننے کے لیے کیوں جائیں۔ اکھلیش نے
سنگھ کو ولبھ بھائی پٹیل کے ذریعہ کٹہرے کھڑا کردیا۔ ان کا کہنا تھا میں
سنگھ کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتا لیکن چونکہ پٹیل نے اس پر پابندی
لگادی تھی اس لیے جانا مناسب نہیں سمجھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے
سنگھ کی غیر بی جے پی حلقوں میں کیا قدرو قیمت ہے اور وہ اپنی مقبولیت
بڑھانے کے لیے کیوں ہاتھ پیر مار رہا ہے۔
وگیان بھون کی یہ کانفرنس اگر ۲۰۱۹ میں بی جے پی کی شکست کے بعد منعقد
ہوتی تو اس کی یہ توجیہ کی جاتی کہ بے یارو مددگار سنگھ پریوار مایوسی کا
شکار ہوکر یہ سب کررہا ہے لیکن بی جے پی کے بام عروج پر پہنچ جانے کے بعد
اپنی حکمت عملی میں تبدیلی چونکانے والی ہے۔سنگھ پریوار ویسے تو خاصہ
کثیرالعیال ہے۔ اس کی دودرجن سے زیادہ فعال تنظیمیں زندگی کے مختلف شعبوں
میں سرگرم عمل ہیں لیکن ان چار سالوں میں آرایس ایس کو احساس ہوگیا کہ اب
بی جے پی خودکفیل ہوگئی ہے ۔ پہلے لوگ بی جے پی کو سنگھ کے حوالے پہچانتے
تھے اب معاملہ الٹ گیا ہے۔ لوگ سنگھ کو بی جے پی کی توسط سے جاننے لگے ہیں
۔ عوام میں یہ غلط فہمی ہے کہ سرکار ناگپور سے چلائی جارہی اس لیے اس کی
تمام ناکامیوں کا ٹھیکرا سنگھ کے سر پھوٹتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مودی جی
سنگھ کو گھاس نہیں ڈالتے۔
بی جے پی والے جب کانگریس پارٹی اور دیگر علاقائی جماعتوں پر پریوار واد (
موروثیت) کا الزام لگا تے ہیں تو اس کے جواب میں بی جے پی کو سنگھ پریوار
کا حصہ بتا کر سنگھ کو برا بھلا کہا جاتا ہے ۔ بی جے پی جب سیکولر سیاسی
جماعتوں پر مسلمانوں کے خوش آمدی ہونے کی تہمت لگاتی ہے تو وہ لوگ بی جے
پی کو سنگھ کے خفیہ ایجنڈے کا نافذ کرنے والی جماعت بتاتے ہیں ۔ بی جے پی
جب کانگریس مکت بھارت کا نعرہ لگا تی ہے اس کے جواب میں بی جے پی مکت بھارت
کے بجائے سنگھ مکت بھارت کا شور اٹھایا جاتا ہے۔ پہلے تو آرایس ایس پر
حملہ کرنے والوں میں صرف لالو یادو اور ممتا بنرجی ہوا کرتی تھے آگے چل کر
راہل اور ملک ارجن کھرگے نے بھی بات بات میں سنگھ کا حوالہ دینا شروع کردیا
ہے۔ اس تشویشناک صورتحال میں آرایس ایس کو بی جے پی سےکو ئی خاص فائدہ تو
نہیں مل رہا ہے لیکن اچھی خاصی بدنامی ضرور ہاتھ آرہی ہے ۔
مودی جی کی مقبولیت بھاگوت جی سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے اندر
ہر ہر مودی تو بہت ہوتا لیکن کوئی بھاگوت کو پوچھ کر نہیں دیتا ۔ بھاگوت کو
یاد بھی کیا جاتا ہے تو غلط وجوہات سےکبھی کہا جاتا ہے کہ ریزرویشن پر ان
کےتبصرے نے بی جے پی کو بہار میں ہار سے دوچار کردیا تو کبھی کرناٹک میں
ناکامی کے لیے بھاگوت کے اس بیان کی جانب انگلی اٹھائی جاتی ہے جس میں
انہوں نے کہا میڈیا کو بلا کر کسی دلت کے گھر میں کھانا کھانے کا ناٹک کرنے
سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ ان کے ساتھ مستقل تعلقات رکھنے ہوں گے اور ان کو
اپنے گھر بلا کر کھانا کھلانا پڑے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ وقت کےساتھ سنگھ
پریوار کو اپنے بی جے پی کا دم چھلہ ّ بن کررہ جانے کے احساس نے فکر مند
کردیا ہے۔ اس لیے ۲۰۱۹ میں بی جے پی کی شکست کے امکانات کا اندازہ لگا کر
سنگھ نے پیش بندی شروع کردی ہے ۔
وگیان بھون میں سنگھ نے ایک طرف تو کانگریس کی دل کھول کر تعریف کی اور
سنگھ کے بانی ڈاکٹر ہیڈگیوار کے کانگریس میں شامل ہوکر جنگ آزادی کے دوران
جیل جانے کا ذکر کیا۔ اس کے بعد موتی لال نہرو کے ساتھ ہیڈگیوار کے تعلقات
کو فخر سے بیان کیا ۔ سنگھ کے ذریعہ آزادی کی تحریک کے دوران اپنی نیک
خواہشات کے اظہارکیا اور پنڈت نہرو کی جھنڈا لہرانے میں سنگھ سیوک کی مدد
کو بھی سراہا۔ انہوں نے دوسری بار یہ کہا کہ ہم سب لوگ یکت (شامل) بھارت کے
قائل ہیں (کانگریس) مکت بھارت کا نعرہ درست نہیں سمجھتے ۔ موہن بھاگوت نے
مودی جی پر سیدھے نشانہ سادھتے ہوئے کہا کہ قبرستان ، شمسان اور بھگوا
آتنکواد کی بات اس وقت کی جاتی ہے جب عوامی فلاح و بہبود کے بجائے اقتدار
کی سیاست کی جائے ۔ سیاستدانوں کو تربیت کی ضرورت ہے ۔ جولوگ سیاست میں ہیں
انہیں سوچنا چاہیے۔ ویسے ماضی میں بھاگوت یہ کہہ کر مودی جی کو ناراض کرچکے
ہیں کہ ۲۰۱۴ کی کامیابی کو کسی ایک فرد یا جماعت کو منسوب کرنا غلط ہے۔
پہلے بھی یہی لوگ تھے مگر کامیاب کیوں نہیں ہوئے۔ وہ تو عوام تنگ و بیزار
ہوکر تبدیلی پر آمادہ ہوگئے تھے اس لیے اقتدار بدل گیا۔
موہن بھاگوت نے اس بار گرو گولوالکر کا صرف ایک بار ہلکا سا ذکر کیا مگر ۴۵
بار سنگھ کے بانی ڈاکٹر ہیڈگیوار کی تعریف کرکے سنگھ میں گروجی کی اہمیت
ختم کردی اور یہاں تک کہہ دیا کہ سنگھ کو سمجھنے کے لیے ہیڈگیوار کو سمجھنا
ہوگا۔گولوالکر کے مقابلے ڈاکٹر ہیڈگیوار کی عظمت کا اعلان دراصل سنگھ کے
اندر نظریہ کے بجائے شخصیت پرستی کی بالا دستی کی علامت ہے۔ انہوں نے ایک
سوال کے جواب میں یہاں تک کہہ دیا کہ گروجی کی ساری باتیں آج کے ماحول پر
صادق نہیں آتیں اس لیے ہم نے گروجی کے سدابہار نظریات کا نیامجموعہ
’سرگروجی: ویژن اینڈ مشن‘‘ کے نام سےشائع کیا ہے جس میں مسلمان دشمن ہیں
جیسے بہت سے جملے ہذف کردیئے گئے ہیں ۔ سرسنگھ چالک مسلمانوں کو ہندو کہنے
والے اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے انہیں بھارتیہ کہنے کی تلقین کی اور سر
سید احمد خان کے لیے تعریفی کلمات ادا کیے جو ایک خوشگوار تبدیلی ہے۔
وگیان بھون میں پیش کردہ ہندو راشٹر کی نئی نے سب کو چونکا دیا۔ بھاگوت
بولے ’’ہم کہتے ہیں ہمارا ہندو راشٹر ہے ۔ ہندوراشٹر کا مطلب اس میں مسلمان
نہیں چاہیے ایسا بالکل نہیں ہے۔ جس دن یہ کہا جائے گا کہ یہاں مسلمان نہیں
چاہیے اس دن ہندوتوا نہیں رہے گا ۔ وہ تو وشوا کٹمب (عالمی خاندان) کی بات
کرتا ہے۔گروگولوالکر نے بودھ مت ، جین دھرم اور سکھ مذہب کو ہندو دھرم کے
دائرے میں رکھتے ہوئے اسلام اور عیسائیت کی مخالفت کی تھی لیکن بھاگوت نے
تسلیم کیا کہ ’ قربانی، صبر، باہمی تعاون اور عقیدت جیسےاقدار بنیادی اقدار
و افکار ہندو مذہب اور اسلام و عیسائیت میں مشترک ہیں جبکہ موخرالذکر جڑیں
ملک کے باہر ہیں۔ سنگھ کے اندر برپا ہونے والا یہ سب سے بڑا فکرو نظر کا
انقلاب ہے۔
بھاگوت نے ۳ سال قبل یہ کہہ کر ہنگامہ برپا کردیا تھا کہ ریزرویشن پر نظر
ثانی ہونی چاہیے ۔ بہار کے الیکشن پر اس کے منفی اثرات پڑے تھے۔ وگیان بھون
سے بھاگوت کوکہتے سنا گیا کہ ریزرویشن نہیں بلکہ اس کی سیاست مسئلہ ہے۔
ریزرویشن کو اس وقت جاری رہنا چاہیے جب تک کہ جن کو وہ مل رہا ہے وہ خود اس
کو لوٹانے کا ارادہ ظاہر نہ کریں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہزار سال کی
بیماری ٹھیک کرنے کے لیے ۱۰۰ یا ۱۵۰ سال نیچے جھک کر رہنا پڑتا ہے تو یہ
مہنگا سودہ نہیں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ سارے براہمن اور نام نہاد اعلیٰ
ذاتوں کے لوگ ایس ایس ٹی قانون کے خلاف سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں بھاگوت جی
کا یہ بیان بی جے پی کو مہنگا پڑسکتا ہے۔ وگیان بھون میں سنگھ نے جو ڈارمہ
کیا ہے ۲۰۱۹ کے الیکشن پر اس کا کیا اثر پڑے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا
لیکن اس میں شک نہیں کہ بھاگوت جی نے سنگھیوں کو اچھا خاصہ کنفیوز کردیا ہے
۔ اس سےاگر بھکت ناراض ہوجاتے ہیں تو چال ، چرتر اور چہرے کی یہ تبدیلی بی
جے پی کے لیے بدشگون ثابت ہوگی۔
ہندووں کے مذہبی صحیفوں میں ایک منتھن کی داستان ملتی ہے۔ اس میں دانو یعنی
جن یا شیطان دیوتاوں سے اقتدار چھین لیتے ہیں اور اندر بھگوان کو مشکل میں
ڈال دیتے ہیں اس کا حل یہ سجھایا جاتا ہے امرت یعنی آب حیات کے لیے سمندر
کا منتھن کیا جائے۔ اس کے لئے سانپ کو ایک لکڑے سے باندھ کر دونوں جانب دیو
اور دانو سمندر کا منتھن کرنے لگتے ہیں۔ اس کوشش میں امرت سے پہلے زہر
ہلاہل نکل آتا ہے جسے وشنو پی کر اپنے گلے میں روک لیتے ہیں ۔ان کی گردن
نیلی پڑ جاتی ہے اور وہ نیل کنٹھ کہلاتے ہیں ۔ کل یگ میں کانگریس اور بی جے
پی اقتدار نما امرت کے لیے منتھن یعنی الیکشن لڑتے ہیں۔ اس سے جو زہر نکل
آتاہے اس کو آرایس ایس پی لیتی ہے اور اس کا سارا جسم نیلا پڑجاتا ہے۔ اس
کا مظاہرہ حال میں وگیان بھون کے اندر ہوا۔ اس زہر کے باوجود وہ کب تک زندہ
رہے گی اور کم دم توڑ دے گی کہا نہیں جاسکتا لیکن یہ بات یقینی ہے سنگھ
پریوار اپنی نظریاتی موت مر چکا ہے۔ اس کا انتم سنسکار وگیان بھون کے حالیہ
اجلاس میں ہوگیا ہے اور اس کو اگنی دینے کا سوبھاگیہ شری موہن بھاگوت جی کو
پراپت ہوا ہے۔ |