آتا ہے یاد مجھکو وہ گزرہ ھوا زمانہ ۔۔۔

وقت کتنی تیزی کے ساتھ گزرتا ہے اس کا اندازہ ھم میں سے شاید کسی کو بھی نہ ھو ۔لیکن اس وقت ضرور احساس ہوتا ہے جب ھم اپنے آپ کو دیکھتے ہیں یا اپنا بچپن یاد کرتے ہیں ۔تب پتا چلتا ھے کہ ھم زندگی کے سفر میں کتنے آگے نکل گئے ہیں ۔تب تو احساس کچھ زیادہ ہی ہونے لگتا ہے جب ھم سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے تیزی سے بدلتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ جب میں اپنے پچپن کی طرف دیکھتا ھوں تو ایسا لگتا ہے کے جسے سب کچھ بدل گیا ہے اور ایسے لگ رہا ہے جیسے موبل آئل سے موبائل تک کے سفر میں ہم قدیم سے جدید ہوگئے ۔ لباس سے کھانے تک ہر چیز بدل گئی لیکن نہیں بدلاتو حضرت انسان نہیں بدلا۔شہروں میں زنگر برگر اور فاسٹ فوڈ کی اتنی دوکانیں کھل گئی ہیں کہ آپ اگر مکئی کی روٹی اور ساگ کھانا چاہیں تو ڈھونڈتے رہ جائیں۔گھروں میں بننے والی لسی اب ریڑھیوں پر آگئی ہے۔شائد ہی کوئی ایسا گھر ہو جس میں سب لوگ ایک ہی وقت میں دستر خوان یا ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کرکھانا کھاتے ہوں۔فریج میں ہر چیز پڑی ہے‘ جس کا جب جی چاہتا ہے نکالتا ہے اور گرم کرکے کھا لیتا ہے۔ البتہ باہر جاکر کھانا ہوتو یہ روایت اب بھی برقرار ہے۔جن گھروں کے دروازے رات آٹھ بجے کے بعد بند ہوجایا کرتے تھے وہ اب رات گیارہ بجے کے بعد کھلتے ہیں اورپوری فیملی ڈنرکھا کر رات ایک بجے واپس پہنچتی ہے۔پورے دن کے لیے واٹر کولر میں دس روپے کی برف ڈالنے کی اب ضرورت نہیں رہی۔ اب ہر گھر میں فریج ہے‘ فریزر ہے لیکن برف پھر بھی استعمال نہیں ہوتی کیونکہ پانی ٹھنڈا ہوتاہے۔ اب تندور پر روٹیاں لگوانے کے لیے پیڑے گھر سے بنا کر نہیں بھیجے جاتے۔اب لنڈے کی پرانی پینٹ سے بچوں کے بستے نہیں سلتے‘ مارکیٹ میں ایک سے ایک ڈیزائن والا سکول بیگ دستیاب ہے۔بچے اب ماں باپ کو امی ابو سے زیادہ ’یار‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔بلب انرجی سیور میں بدل گئے اور انرجی سیور ایل ای ڈی میں۔چھت پر سونا خواب بن گیا ہے لہذا اب گھروں میں چارپائیاں بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔ ڈبل بیڈ ہیں اور ان پر بچھے موٹے موٹے گدے۔ مسہری اور پلنگ گھر کی سیٹنگ سے میچ نہیں کرتے ۔اب بچے سائیکل سیکھنے کے لیے قینچی نہیں چلاتے کیونکہ ہر عمر کے بچے کے سائز کا سائیکل آچکا ہے۔جن سڑکوں پر تانگے دھول اڑاتے تھے وہاں اب گاڑیاں دھواں اڑاتی ہیں۔کیازمانہ تھا جب گھروں کے دروازے سارا دن کھلے رہتے تھے بس آگے ایک بڑی سی چادر کا پردہ لٹکا ہوا ہوتا تھا۔ اب تو دن کے وقت بھی گھنٹی ہو تو پہلے سی سی ٹی وی کیمرے میں دیکھنا پڑتا ہے ۔شہر سے باہر کال ملانا ہوتی تھی تو لینڈ لائن فون پر پہلے کال بک کروانا پڑتی تھی اور پھر مستقل وہیں موجود رہنا پڑتا تھا ‘ گھنٹے بعد کال ملتی تھی اور کئی دفعہ درمیان میں آپریٹر بھی مداخلت کردیتا تھا کہ تین منٹ ہونے والے ہیں۔سعودیہ وغیرہ سے کوئی عزیز پاکستان آتا تھا توگفٹ کے طور پر ’گھڑیاں‘ ضرور لے کر آتا تھا۔واک مین بھی ختم ہوگئے‘ پانی کے ٹب میں موم بتی سے چلنے والی کشتی بھی نہیں رہی۔پانی کی ٹینکیوں کا رواج چلا تو گھر کا ہینڈ پمپ بھی ’بوکی‘ سمیت رخصت ہوا۔واش بیسن آیا تو’ کھرے‘ بنانے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔چائے پیالی سے نکل کر کپ میں قید ہوگئی۔سگریٹ آیا تو حقے کا خاتمہ کر گیا‘ اب شائد ہی کسی گھرمیں کوئی حقہ تازہ ہوتا ہو۔میں نے ہمیشہ ماں جی کو پرانے کپڑوں اور ٹاکیوں کو اکھٹا کرکے تکیے میں بھرتے دیکھا۔ تب ایسا ہی ہوتا تھا۔ اب نہیں ہوتا‘ اب مختلف میٹریلز کے بنے بنائے تکیے ملتے ہیں اور پسند بھی کیے جاتے ہیں۔پہلے مائیں خود بچوں کے کپڑے سیتی تھیں‘ بازار سے اون کے گولے منگوا کر سارا دن جرسیاں بنتی تھیں‘ اب نہیں۔۔۔بالکل نہیں‘ ایک سے ایک جرسی بازار میں موجود ہے‘ سستی بھی‘ مہنگی بھی۔پہلے کسی کو اُستاد بنایا جاتا تھا‘ اب اُستاد مانا جاتا ہے۔پہلے سب مل کر ٹی وی دیکھتے تھے‘ اب اگر گھرمیں ایک ٹی وی بھی ہے تو اُس کے دیکھنے والوں کے اوقات مختلف ہیں۔ دن میں خواتین Repeat ٹیلی کاسٹ میں ڈرامے دیکھ لیتی ہیں‘ شام کو مرد نیوز چینل سے دل بہلا لیتے ہیں۔معصومیت بھرے پرانے دور میں الماریوں میں اخبارات بھی انگریزی بچھائے جاتے تھے کہ ان میں مقدس کتابوں کے حوالے نہیں ہوتے۔چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر بھی کوئی نہ کوئی سنا سنایا خوف آڑے آجاتا تھا۔۔۔زمین پر نمک یا مرچیں گر جاتی تھیں تو ہوش و حواس اڑ جاتے تھے کہ قیامت والے دن آنکھوں سے اُٹھانی پڑیں گی۔گداگروں کو پورا محلہ جانتا تھا اور گھروں میں ان کے لیے خصوصی طور پر کھلے پیسے رکھے جاتے تھے۔محلے کا ڈاکٹر ایک ہی سرنج سے ایک دن میں پچاس مریضوں کو ٹیکے لگاتا تھا لیکن کسی کو کوئی انفیکشن نہیں ہوتی تھی۔یرقان یا شدید سردرد کی صورت میں مولوی صاحب ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دم کردیا کرتے تھے اور بندے بھلے چنگے ہوجاتے تھے۔گھروں میں خط آتے تھے اور جو لوگ پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ ڈاکئے سے خط پڑھواتے تھے ۔ ڈاکیا تو گھر کا ایک فرد شمار ہوتا تھا ‘ خط لکھ بھی دیتا تھا‘ پڑھ بھی دیتا تھا اور لسی پانی پی کر سائیکل پر یہ جا وہ جا۔امتحانات کا نتیجہ آنا ہوتا تھا تو ’نصر من اللہ وفتح قریب‘ پڑھ کر نکلتے تھے اور خوشی خوشی پاس ہوکر آجاتے تھے۔یہ وہ دور تھا جب لوگ کسی کی بات سمجھ کر ’’اوکے‘‘ نہیں ’’ٹھیک ہے‘‘ کہا کرتے تھے۔ موت والے گھر میں سب محلے دار سچے دل سے روتے تھے اور خوشی والے گھر میں حقیقی قہقہے لگاتے تھے۔ ہر ہمسایہ اپنے گھر سے سالن کی ایک پلیٹ ساتھ والوں کو بھیجتا تھا اور اُدھر سے بھی پلیٹ خالی نہیں آتی تھی۔میٹھے کی تین ہی اقسام تھیں۔۔۔حلوہ‘ زردہ چاول اور کھیر۔ پتہ نہیں کیوں مجھے تو وہ دن نہیں بولتے اور میں اب بھی چاہتاہوں کاش کہ وہ دن لوٹ آئیں اور اس کے ساتھ میرا بچپن بھی لوٹ آئے ۔کیوں کہ وہ دن جیسے بھی شاندار تھے ۔۔۔

Rizwan Iqbal ch
About the Author: Rizwan Iqbal ch Read More Articles by Rizwan Iqbal ch : 12 Articles with 11015 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.